ایڈوانی کی بددعائیں رنگ لانے لگیں
حالات و واقعات سے اب لگتا ہے کہ خوش فہم مودی جتنی تیزی سے آگے بڑھے تھے اتنی ہی تیزی سے نیچے آنے والے ہیں
بہار کے الیکشن میں مودی کی ہار سے اگر کسی شخص کو دلی خوشی ہوئی ہو گی تو وہ ایل کے ایڈوانی ہی ہو سکتے ہیں وہ اس خبر کا لگتا ہے بے چینی سے انتظار کر رہے تھے انھیں لگتا تھا کہ مودی دہلی کا الیکشن ہارنے کے بعد بہار کے الیکشن میں ضرور شکست سے دوچار ہوں گے کیونکہ انھوں نے دہلی کے الیکشن کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا اور پھر وہی ہوا کہ ایڈوانی کی سوچ حقیقت میں تبدیل ہو گئی۔
حالات و واقعات سے اب لگتا ہے کہ خوش فہم مودی جتنی تیزی سے آگے بڑھے تھے اتنی ہی تیزی سے نیچے آنے والے ہیں۔ اب مبصرین کھل کر کہہ رہے ہیں کہ وہ صرف باتوں کے آدمی ہیں انھیں بھاشن دینے کا جنون طاری ہے وہ اپنے اس فن کی بدولت گجرات میں الیکشن جیتتے رہے اور اسی فن کے سہارے وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن اعلیٰ حکومتی عہدوں پر براجمان رہنے کے لیے صرف بھاشنوں سے کام نہیں چلتا کچھ کر کے بھی دکھانا پڑتا ہے، جنتا (رعایا) تو صرف کام مانگتی ہے۔ مودی جی نے دراصل اپنے بھاشنوں اور احمد آباد میں مسلمانوں کا قتل عام کرا کے آر ایس ایس کا دل جیت لیا تھا اور پھر وہ ایڈوانی کا وزیر اعظم بننے کا خواب بھی چکنا چُور کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
مگر لال کرشن ایڈوانی بھی کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں وہ بھی کبھی آر ایس ایس کی آنکھوں کا تارا تھے، آر ایس ایس کو ان جیسا وفادار کارکن کہاں ملے گا جو صرف بارہ سال کی عمر میں ہی کراچی میں آر ایس ایس کا والنٹیئر بن گیا تھا وہ آر ایس ایس کی قیام پاکستان مخالف مہم میں پیش پیش تھے اور آر ایس ایس کے اشارے پر کراچی میں قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ کرنے کے مرتکب ہوئے تھے۔ انھوں نے ہی بے جے پی کو بھارت میں عروج پر پہنچایا تھا۔
1990ء سے قبل بھارت میں بی جے پی کو کون جانتا تھا انھوں نے ہی رتھ یاترا نکال کر پورے بھارت میں بی جے پی کا ڈنکا بجوا دیا تھا پھر اپنی مسلم اور پاکستان مخالف اشتعال انگیز تقاریر میں رام مندر کی تعمیر کا پرچار کر کے سیکولر ہندوؤں کو بھی بابری مسجد سے انہدام کی جانب مائل کر دیا تھا۔ چھ دسمبر 1992ء کو ان کی ہی معیت میں بابری مسجد کو شہید کر کے وہاں رام کی مورتیاں رکھ دی گئی تھیں۔ ان کی اس دلیری کے صلے میں عوام نے 1998ء کے لوک سبھا کے الیکشن میں پوری بی جے پی کو جتوا کر وہاں کے تخت کا حق دار بنا دیا تھا۔ اس وقت بی جے پی کا ایسا کون سا لیڈر تھا جو ان کے پیر نہیں چھوتا تھا۔
نریندر مودی تو ان کے آگے پیچھے ہی کیا تھے وہ تو ایڈوانی کے دوسرے درجے کے شاگرد ہونے کا ہی اعزاز حاصل کر سکے تھے مگر پھر ایڈوانی نے مودی میں نہ جانے کیا ہنر دیکھا کہ انھیں اپنے قریب کر کے اپنا شاگرد خاص بنا لیا ساتھ ہی پارٹی میں اہم عہدے بھی دلوائے اور پھر گجرات میں وزیر اعلیٰ کے عہدے تک پہنچا دیا جب کہ مودی کو اس وقت تک انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ مودی نے گجرات میں کم وقت میں اپنے زوردار بھاشنوں کی بدولت ایک کامیاب وزیر اعلیٰ کا درجہ حاصل کر لیا تھا انھوں نے اپنی تشہیر کے لیے کئی لابنگ کمپنیز کا سہارا لے لیا تھا جنھوں نے مودی کو بھارت میں موسٹ ایکٹیو وزیر اعلیٰ ثابت کر دیا تھا حالانکہ مودی نے وہاں کام کم اور بھاشن زیادہ دیے تھے۔
2002ء میں بنارس سے واپس آنے والے ہندو یاتری صابرمتی ایکسپریس میں کھانا پکاتے ہوئے آگ سے جل کر مر گئے تھے بس بی جے پی نے اسے مسلمانوں کی کارروائی قرار دے کر اس کی پاداش میں پورے گجرات میں ایسے ہولناک مسلم کش فسادات کرائے جن میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ مسلمانوں پر ایسے وحشیانہ مظالم ڈھائے گئے تھے کہ جن کا کوئی مہذب معاشرہ تصور بھی نہیں کر سکتا خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے علاوہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے گئے تھے اور معصوم بچوں کو تلواروں کی نوک پر اچھالا گیا تھا، ایسی بربریت پر تو رام بھگوان کی روح بھی تڑپ اٹھی ہو گی۔
اب اس خونی واقعے کو گزرے تیرہ سال ہو چکے ہیں مگر اجاڑے گئے مسلمان ابھی تک نہیں سنبھل سکے ہیں جن بے گناہ مسلمانوں کو جیل میں بھر دیا گیا تھا وہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں اس قتل عام کے اصل کردار مودی تھے جن کی وجہ سے پوری دنیا میں بھارت کی رسوائی ہوئی تھی کئی ملکوں نے ان کے اپنے ہاں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس واقعے نے واجپائی سرکار کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا چنانچہ واجپائی مودی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے مگر ایڈوانی نے انھیں ایسا نہ کرنے دیا۔
2013ء کے عام انتخابات میں ایڈوانی نے خود کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے سب سے موزوں امیدوار سمجھنا شروع کر دیا تھا وہ اس ضمن میں حق بجانب بھی تھے کیونکہ بی جے پی کے لیے ان کی قربانیاں سب پر عیاں تھیں۔ ان کی اہلیت کا سب سے بڑا جواز یہ تھا کہ وہ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں نائب وزیر اعظم رہ چکے تھے چنانچہ اب وزیر اعظم بننے کا ان کا ہی نمبر تھا مگر جب اچانک ان کے بجائے مودی کا نام بطور وزیر اعظم منظر عام پر آنے لگا تو وہ چونکے کہ ان کا ایک ادنیٰ شاگرد بھلا کیسے ان کی جگہ لے سکتا ہے چنانچہ انھوں نے کھل کر مودی کی مخالفت شروع کر دی اور اپنے ساتھیوں کا ایک گروپ بنا کر مودی کی بطور وزیر اعظم نامزدگی کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا مگر جلد ہی آر ایس ایس نے ایڈوانی کو ان کی اوقات دکھا دی کہ وہ کس طرح بھارت کا وزیر اعظم بننے کا سوچ سکتے ہیں وہ تو پاکستان جا کر جناح صاحب کو ایک سیکولر لیڈر کا خطاب دے کر آئے تھے۔
ایڈوانی کا موقف تھا کہ انھوں نے جناح صاحب کو مصلحتاً سیکولر لیڈر کہا تھا مگر آر ایس ایس ان کے مصلحتاً والے موقف کو بھی ماننے کو تیار نہ تھی کیونکہ وہ تو قائد اعظم کو ایک سچا اسلام پسند لیڈر مانتی ہے چنانچہ ایڈوانی کی اس غلطی کی پاداش میں پارٹی کے عہدے سے تنزلی کر دی گئی اور انھیں وزیر اعظم نامزد کرنے کے بجائے مودی کو یہ شرف بخش دیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قائد اعظم کے دشمن بھی انھیں سیکولر ماننے کو تیار نہیں ہیں جب کہ ہمارے ہاں ایک گروپ انھیں زبردستی سیکولر بنانے پر تلا ہوا ہے، بہرحال ایڈوانی کی ایک غلطی نے ان کے تابناک مستقبل کو تاریک کر دیا اور وہ وزیر اعظم بننے کے بجائے ایک عضو معطل بن کر رہ گئے۔
ادھر ایڈوانی کا حق چھین کر مودی وزیر اعظم تو بن گئے مگر انھوں نے الیکشن کے دوران عوام سے جو وعدے کیے تھے وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں وہ اس وقت دراصل ترقیاتی کاموں کے بجائے آر ایس ایس کے حکم پر ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں وہ اس وقت آر ایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق گائے کے ذبیحہ کے خلاف مہم، مسلمانوں کے خلاف فسادات پھیلانے، پاکستان مخالف بیانات اور کشمیر پر بھارتی قبضہ مستحکم کرنے میں لگے ہوئے ہیں ان کے پاس ترقیاتی کاموں کے لیے وقت ہی کہاں ہے دراصل یہ بھارتی عوام کی اپنی غلطی ہے کہ انھوں نے جان بوجھ کر کیوں ان دیکھی کی وہ تو شروع سے ہی ہندوتوا کے پرچار میں اپنا پورا وقت لگا رہے ہیں ان کا اصل مشن بھارت کو ہندو راج بنانا ہے۔
شاید اس وقت ان کی بددعاؤں سے ہی مودی کے خلاف دانشوروں سے لے کر اداکار تک اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایڈوانی مودی کے تیزی سے نیچے گرتے گراف سے ضرور خوش ہوں گے اور امید کرتے ہوں گے کہ مودی آر ایس ایس کی (اشتعال انگیز) ہدایات اور اپنی کچن کیبنٹ کے بے وقوف ساتھیوں کے مشوروں پر عمل کر کے جلد ہی ذلیل و خوار ہو کر دہلی کے تخت سے بے دخل کر دیے جائیں گے اور پھر آر ایس ایس کو ان کے یعنی ایڈوانی سے بہتر دہلی کے تخت کے لیے کوئی اور امیدوار نہیں مل سکے گا چنانچہ ان کی سوئی ہوئی قسمت ضرور جاگے گی اور ان کا وزیر اعظم بننے کا خواب ضرور پورا ہو کر رہے گا مگر لگتا ہے ایڈوانی اب بھی خواب غفلت کا شکار ہیں انھیں آر ایس ایس کی ناراضگی کا اندازہ نہیں ہے کہ وہ ان کی قائد اعظم کو سیکولر کہنے کی فاش غلطی کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گی بہرحال ایڈوانی کا اب جو بھی حشر ہو مگر مودی کی ایک کے بعد دوسری شکست سے لگتا ہے کہ ایڈوانی نے انھیں جو بددعائیں دی ہیں وہ رنگ لانے لگی ہیں ۔