ہم جنگ ہارناچاہتے ہیں
ہمارا ملک دنیا میں شدید تنہائی کا شکار ہے۔ اس کا ادراک تمام باخبرلوگوں کوہے
ہمارا ملک دنیا میں شدید تنہائی کا شکار ہے۔ اس کا ادراک تمام باخبرلوگوں کوہے مگراس پر بحث شجر ممنوعہ بن چکی ہے۔ چند روزپہلے ابوظہبی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقدہوئی۔ موضوع سیکیورٹی ہی تھا۔ دنیا بھر سے مندوبین، ماہرین، سفارتکاراوروزراء اکٹھے ہوئے۔
ایک انتہائی معتبر شخص نے بتایا کہ پوری کانفرنس میں اسے ایسے معلوم ہورہا تھا کہ پاکستان بالکل اکیلا ہے۔ جوہم کہہ رہے تھے، اس پرکوئی اعتبارکرنے کو تیارنہیںاورجوہم کررہے ہیں اسے کوئی'' دوست ملک''تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں۔اس سے آگے کچھ لکھنا نہیں چاہتا کیونکہ اس سچ کو سننا بڑا مشکل ہوجائے گا۔ ایساکیوں ہے۔ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ہمیں اپنے ملک کے اندرونی معاملات پرغوروفکر کرنا ہوگا۔ ان پر بھی سچ بولنا تقریباً ناممکن ہوچکاہے۔
تمام ریاستی ادارے پشاور پبلک اسکول کے سانحے کے بعد مسلسل کہنا شروع ہوگئے کہ اب دہشت گردی کوکسی صورت میں برداشت نہیں کیاجائے گا۔ دہشت گردی پر شدیدلعن طعن کی گئی۔چنانچہ تمام اہم نکات کوایک "قومی منصوبہ" National Action Planکے طورپرپیش کیا گیا۔ بتایا گیا کہ دہشت گردوں اوران کی ڈورہلانے والوں پرقیامت ڈھا دی جائے گی۔مگرزمینی صورت حال انتہائی مختلف ہے اورمیری نظرمیں تشویشناک بھی۔ زبانی جمع خرچ کے بعدہم اس روائتی تساہل کاشکارہوگئے ہیں،جوہماراخاصہ بھی ہے اورپہچان بھی۔یہ پہچان منفی نوعیت کی ہے۔
فوج نے ساری صورتحال میں فیصلہ کیاکہ وہ اب دہشت گردوں کے خلاف منظم جنگ کرے گی۔لہذاہمارے ملک میں اس قومی ادارے نے متعدد مقامات پراعلانیہ اورغیراعلانیہ دونوں طرز کے آپریشن شروع کردیے۔ جنگ آج تک جاری ہے۔اس جنگ کے کیانتائج نکل رہے ہیں۔ اس پردوواضح طریقوں سے سوچا جا سکتا ہے۔ایک زاویہ تومخصوص عسکری نوعیت کا ہے،کہ ہم دہشت گردوں کوجسمانی طورپرنیست ونابود کر دیں گے۔مگرانتہائی اہم دوسرازاویہ بھی ہے کہ اپنے نظام میں وہ کونسی تبدیلیاں لے کر آئیں،جن کی بدولت ریاست کے خلاف پربرسرپیکاران درندوں کوپنپنے ہی نہ دیاجائے۔یعنی وہ نرسری جہاں سے یہ کانٹے پھل پھول رہے ہیں اسکومکمل طورپرختم کر دیا جائے۔ مسئلہ یہیں سے شروع ہوتاہے اوراسی نکتہ پرختم بھی۔
کون کونسے اقدامات اُٹھائے جانے چاہیے یہ سب کچھ طے ہوچکا ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات میں ہراہم مسئلہ کا ذکر ہے۔اب ایسے لگتاہے کہ صرف ذکر ہے۔ میرا آپ تمام خواتین وحضرات سے سوال ہے کہ کیا وہ طے شدہ اقدامات جنھیں سول حکومت نے کرناتھا،کیا انھیں سرانجام دیاگیا ہے۔ ان کی تکمیل کی طرف پہلاقدم تک اٹھایا گیا ہے۔ کیا ہم بحیثیت ملک اس بے عملی کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ اس کاجواب بھی آپ خودتلاش کیجیے۔جواب آسان اورسادہ سا ہے۔
مگر بہت مشکل اورپیچیدہ بھی۔میں نیکٹا پرکوئی بات نہیں کرناچاہتاکیونکہ اس پربہت کچھ لکھا اور بولا جاچکا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں درج ہے کہ پورے ملک میں کسی ہتھیاربندگروہ یاجماعت کوکام نہیں کرنے دیا جائیگا۔ یہ اس منصوبہ کااہم نکتہ ہے۔یہ پابندی تمام گروہوں پر بلاتخصیص اوربلاامتیازہے۔اس میں کوئی استثناء نہیں۔لیکن مجھے ایسے معلوم ہورہاہے کہ اس پرجزوی طور پر عمل ہورہا ہے۔ شدت پسند اپنے گروہ کانام بدلنے کاتکلف کرنے کے بعدآج بھی عام شہری کے لیے خوف کی علامت ہیں۔کئی مذہبی تنظیموں نے تونام بدلنے کابھی تکلف تک نہیں کیا۔اسی طرح چندہ وصول کیاجارہاہے۔بڑی حدتک ان گروہوں پر حکومتی گرفت بہت کمزورنظرآتی ہے۔وجوہات کیا ہیں۔
ان کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔جس دنیا میں ہم سانس لے رہے ہیں، وہاں تمام ممالک ایک دوسرے کے متعلق پل پل کی خبر رکھتے ہیں۔ چنانچہ بے یقینی کے گھنے سائے ہمارے قول وفعل کے تضاد سے شروع ہوتے ہیں اورریاستی طاقت کی عدم موجودگی میں گم ہوجاتے ہیں۔فرانس کی مثال سامنے رکھیے۔ یہ درست ہے کہ دہشت گرد اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب رہے۔مگرجس طاقت اورمضبوطی سے چنددنوں میں انھیں خس وخاشاک کردیاگیا،وہ صرف اور صرف حکومت کے بااختیار ہونے کی دلیل ہے۔ہمارے ملک میں ریاستی قوت اس حد تک موثرنہیں ہوپائی کہ دہشت گرد تیزی سے اپنے کیفر کر دار کو پہنچ جائیں۔
ایک دوسرے رخ سے گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ منصوبہ میں اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ مذہبی شدت پسندی کو "ختم"کیاجائیگا۔مذہبی شدت پسندی میں بڑھتے ہوئے منفی رجہانات نظرآرہے ہیں۔ اکثریت جذباتیت میں ملفوف سوچ کی اتنی عادی ہوچکی ہے کہ غیرجانبدار سوچ کارجحان تقریباًختم ہوچکاہے۔اس میں ہمارے دانشوروں کی کثیر تعدادبھی شامل ہے۔مذہبی شدت پسندی کوکم کرنے کے لیے ریاست کیوں کوئی قدم نہیں اٹھا رہی، یہ سب کچھ سمجھ سے بالاتر ہے۔
شدت پسندی اور دہشت گردی میں ایک باریک سی لکیر ہے۔ کون کس وقت شدت پسندی کی سرحد کو عبور کرکے معصوم شہریوں کوشہیدکرنا ثواب سمجھنے لگے،اس بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ہم میں سے کتنے لوگ ہیں،جواپنی رائے کے بالکل متضاد خیالات کو برداشت کرتے ہیں۔ جذباتیت صرف مذہبی رویوں میں ہی نہیں،زندگی کے ہر شعبہ میں سرایت کرچکی ہے۔ چند شدت پسند مارنے سے یہ مسئلہ کم نہیں ہوگابلکہ مزیدبڑھے گا۔دلیل پربات کرناانتہائی دشواربنادیاگیا ہے۔ذراسی غیرجذباتی اندازمیں بات کرنے کی کوشش کریں توفوراً آپکو لادین ثابت کرنے کی کوشش شروع کردی جائے گی۔
مذہبی شدت پسندی میں بیرونی ممالک ہمارے اندرونی مسائل کو پیچیدہ بنارہے ہیں۔سعودی عرب اورایران دنیامیں ہرمحاذ پر ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہیں۔ ہمارے ملک کی کمزور اندرونی بساط پریہ ممالک خوب کُھل کر کھیل رہے ہیں۔ مجھے ایک اعلیٰ سفارت کارنے بتایاکہ سعودی عرب میں یہ سرکاری سوچ بہت مستحکم ہے کہ اصل خطرہ داعش نہیں بلکہ ایران ہے۔ ایران کے اندربھی خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کے خلاف ایک منفی رویہ موجود ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ دونوں ممالک سمجھداری سے اپنے ملک کو ایک دوسرے کے لیے میدان جنگ نہیں بننے دیتے۔ انھوں نے ہمارے جیسے بدقسمت ممالک کاچناؤکررکھاہے۔ سینہ تان کر اپنے مسلک کوہرطریقہ کی امداددینے میں مصروف ہیں۔ یہ اب پراکسی (proxy) جنگ نہیں بلکہ ایک کھلم کھلا جنگ ہے جس میں کوئی اخلاقی حدوداورقیودنہیں ہیں۔ہم معاشی اور سیاسی طورپراتنے کمزورملک ہیں کہ پوری ریاستی قوت سے بھی مذہبی شدت پسندی کے بیرونی محرکات پر قابو نہیںپاسکتے۔
بیرونی طاقتیں ہماری اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھارہی ہیں۔ میں اس لیے اپنے اصل نکتہ پرقائم ہوں کہ اگرسول ادارے یکجان ہوکربیرونی ممالک سے آنے والی امداد ختم نہیں کرتے، تو مذہبی شدت پسندی کم ہونا تودورکی بات،یہ مزیدبڑھے گی۔ فیصلہ عسکری قیادت نہیں کرسکتی۔کیونکہ اس میں غیر ممالک کی حکومتیں شامل ہیں۔ مجھے اس عفریت کے متعلق کوئی ٹھوس اور غیرمنافقانہ حکمتِ عملی نظرنہیں آرہی۔ کیا سعودی عرب اور ایران کی حکومتیں پاکستان کی سلامتی کی گارنٹی دے سکتی ہیں۔ ہرگز نہیں۔ تو پھر ہم کیوں اس آگ میں رقص کررہے ہیں جو ہمیں مکمل طور پر جلاکرراکھ کرسکتی ہے۔افغانستان،عراق اور شام کی مثال ہمارے سامنے موجودہے۔
منصوبہ کاایک ایسانکتہ بھی ہے جس میں ہماری سالمیت کی روح اوربقاء کاجوازموجودہے۔پاکستان کے عدالتی نظام میں اصلاحات۔ عدلیہ کے متعلق خصوصاً کہناچاہتاہوں کہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کے اعتبارسے ہماراعدالتی نظام فرسودہ ہوچکاہے۔میرامقصدکسی بھی ریاستی ادارے کی قدرو منزلت کم کرنا مقصودنہیں۔لمحہ فکریہ ہے کہ ہماراعدالتی نظام شفاف،برق رفتاراورسستاانصاف مہیاکرنے میں مکمل ناکام ہوچکاہے۔توہین عدالت کے قانون کوجوازبناکرکسی بھی عدالتی فیصلہ پرتنقیدکوتوروکاجا سکتا ہے۔
مگرانصاف کی فراہمی جوریاست کے اس ستون کی بنیادی ذمے داری ہے،اس میں اصلاحات کی آوازکونہیں دبایاجاسکتا۔ایسی غیرجانبدار اور دور رس اصلاحات جنکی بدولت ہمارافوجداری اوردیوانی مقدمات کے فیصلوں کانظام فعال ہوجائے۔پوری دنیامیں انصاف کی فراہمی ایک مشکل کام ہے۔مگرہمارے ملک میں یہ ناممکن ہو چکاہے۔
لندن میں بھی کسی مقدمے کا فیصلہ دنوں میں نہیں ہوتا۔امریکا میں بھی ایسا نہیں ہے۔مگرپاکستان میں اس پورے نظام کودباؤمیں لاکراپنی مرضی کے فیصلہ کروانابالکل مشکل کام نہیں ہے۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ظلم یہ ہے کہ ہم نے غلطیوں سے نہ سیکھنے کی قسم کھالی ہے۔کیاآپ پاکستان میں کسی سے پوچھ سکتے ہیں،کہ قانون میں درج ہے کہ اس مقدمہ کافیصلہ تین ماہ میں ہوگا۔مگریہ تاخیرکا دوسراسال ہے۔ چوبیس ماہ کے بعدبھی مقدمہ کے ختم ہونے کاکوئی امکان نہیں ہوتا۔ناانصافی،شدت پسندی اوردہشت گردی کاچولی دامن کاساتھ ہے۔یہ ایک ایسی آکاش بیل ہے جوایک بارہری بھری ہوجائے توپورے کاپوراجنگل برباد کرسکتی ہے۔
لگتاہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے وہ حصے جن پرسول ریاستی اداروں نے عمل درامدکرناہے،وہ صرف اورصرف خدا کے سہارے چھوڑدیے گئے ہیں۔اگرکچھ کیابھی گیاہے تو صرف میڈیامیں اشتہارات دینے تک محدودہے۔ہاں کچھ زبانی جمع خرچ بھی شامل ہے۔معلوم ہوتاہے کہ ہماری ریاست میں اَن دیکھے درجنوں ہاتھ موجودہیں۔یہ تمام ہاتھ مل جل کرریاست کے اس واحدادارہ کوکام سے روکناچاہتے ہیں، جواپناکام کرنے کی کوشش کررہاہے۔ایسادکھائی دیتاہے کہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں ہمیں اندرونی طور پر ہرانے کامکمل انتظام ہوچکاہے۔