نیناں رے نیناں تم ہی برے
فلم انڈسٹری ہندوستان، پاکستان یا پھر ہالی ووڈ کی ہو ایک رسم اور ایک ریت سب کی مشترک ہے
فلم انڈسٹری ہندوستان، پاکستان یا پھر ہالی ووڈ کی ہو ایک رسم اور ایک ریت سب کی مشترک ہے کہ بس ایک فلم ہٹ ہونے کی دیر ہوتی ہے اور پھر ہٹ ہونے والی فلم سے وابستہ لوگوں کی چاندی ہونے کے ساتھ ہی ہر طرف واہ واہ شروع ہوجاتی ہے۔ پاکستانی فلم ''سوسائٹی گرل'' کی کامیابی سے ایک نیا فلم رائٹر سید نور ابھرکرآیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شہرت اس کے راستے کی ہم سفر ہوگئی۔
سید نور اس سے پہلے مشہور فلم نویس آغا حسن امتثال کا ہونہار شاگرد تھا اور آغا حسن امتثال کا اسکرپٹ سنبھالے آغا صاحب کی ہر فلم کے سیٹ پر ان کی معاونت کیا کرتا تھا۔ان دنوں آغا حسن امتثال کی اتنی زیادہ مصروفیت ہوتی تھی کہ لاہور کے ہر فلم اسٹوڈیو میں ان کی لکھی ہوئی کوئی نہ کوئی فلم سیٹ کی زینت ہوا کرتی تھی۔ میری بھی آغا صاحب سے اکثر وبیشتر فلم کی شوٹنگ کے دوران ہی ان سے ملاقاتیں رہا کرتی تھیں۔ وہ جتنے اچھے فلم نویس تھے، اتنے ہی اچھے انسان بھی تھے۔ حسن طارق سے ایس۔ سلیمان تک وہ ان دنوں بڑے بڑے فلمسازوں اور ہدایت کاروں کی گڈ بک میں تھے اور انھوں نے اس دور میں بحیثیت مصنف کے بے شمار کامیاب فلمیں انڈسٹری کو دی تھیں۔
اپنی اس کامیابی سے متاثر ہوکر آغا حسن امتثال نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور فلمسازی کے میدان میں بھی اترتے چلے گئے۔ اس دوران انھوں نے کئی اردو اور پنجابی فلمیں پروڈیوس کیں مگر ان کی فلمیں بحیثیت فلمسازوہدایت کار انھیں کوئی خاطر خواہ کامیابیاں نہ دے سکیں اور اس طرح ان کی اپنے شعبے پر بھی گرفت ڈھیلی ہوتی چلی گئی اور پھر ان کا انجام بھی ان رائٹرزکی طرح ہوا جو فلمساز بننے کے بعد اپنی ساکھ برقرار نہ رکھ سکے تھے اور یہ بھی احمد راہی، حمایت علی شاعر، سرور بارہ بنکوی اور شاعر اختر یوسف کی طرح ناکام فلمسازوں میں شامل ہوگئے تھے لیکن ان کا شاگرد سید نورکامیاب ہوتا چلا گیا۔
سید نورکی ایک اورکہانی جو ایک لو اسٹوری تھی سنگیتا کو بے حد پسند آئی۔ یہ نئی کہانی بھی پہلی نشست ہی میں اوکے ہوگئی اور پھر سنگیتا نے دوسرے ماہ ''عشق عشق'' کے نام سے اس فلم کی ایورنیو اسٹوڈیو میں مہورت کے ساتھ ہی شوٹنگ کا آغاز بھی کردیا۔ اس فلم میں ندیم کے ساتھ کویتا کو ہیروئن کاسٹ کیا گیا اور سنگیتا نے اپنے ساتھ غلام محی الدین کا Pair بنایا۔ ''عشق عشق'' کے سیٹ پر آتے ہی اس کے چرچے شروع ہوگئے تھے۔ ندیم نے ایک ساتھ اس فلم کے لیے ڈیٹس دے دی تھیں اور یہ فلم بھی اس وقت کی ایک مہنگی فلم تھی کیونکہ ندیم ان دنوں ہر فلمسازکی توجہ کا مرکز اور فلم انڈسٹری کا ہاٹ کیک ہیرو تھا۔
ایک ''عشق عشق'' کے نام سے سیٹ پر آگئی تھی اور دوسری کہانی جسے اقبال رضوی نے لکھا تھا اور جس کا نام ''مٹھی بھر چاول'' تجویز ہوا تھا، اس میں بھی ندیم، غلام محی الدین اور راحت کاظمی کوکاسٹ کا حصہ بنایا گیا تھا جسے ''عشق عشق'' کے فوراً بعد شروع کرنے کا پروگرام تھا۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی ندیم اورکویتا کی لو اسٹوری کی جو فلم ''عشق عشق'' سے جڑی ہوئی تھی۔ جب میں اس فلم کے سیٹ پر پہنچا تو وہاں سنگیتا ندیم اور کویتا پر ایک رومانٹک گیت شوٹ کر رہی تھی۔ہیرو ندیم مشہور پنجابی فلم ''ہیر رانجھا'' کے انداز میں رانجھا بنا کویتا کو دیکھ کر بانسری بجا رہا تھا اورکویتا اپنے خوبصورت لباس میں اپنے جلوے بکھیر رہی تھی اور وہ ہیر بنی اپنے رانجھے کو رجھا رہی تھی۔ اسی دوران سیٹ پر نغمہ نگار تسلیم فاضلی بھی خراماں خراماں پان چباتے ہوئے اور سگریٹ انگلیوں میں دبائے سیٹ پر آموجود ہوئے، آج فلم ''عشق عشق'' کے لیے فاضلی ہی کا لکھا ہوا گیت عکس بند کیا جا رہا تھا جس کی موسیقی کمال احمد نے مرتب کی تھی اور بول تھے:
تو میرا گیت ہے میں ہوں تیری صدا
نہ تو مجھ سے الگ نہ میں تجھ سے جدا
ندیم بڑی مہارت کے ساتھ بانسری بجانے کے ایکشن دے رہا تھا اورکویتا اپنے محبوب پر رقص کرتے ہوئے اپنی محبت کے پھول نچھاور کر رہی تھی۔ گیت کا پس منظر بھی بڑا خوبصورت تھا۔ ایک باغ نوبہار تھا۔ جہاں چھوٹی چھوٹی کئی آبشاریں بھی تھیں۔ مصنوعی پھول ہر طرف کھلے ہوئے تھے مگر خوشبو کویتا اور ندیم کے پیار بھرے جذبات پھیلا رہے تھے جو مصنوعی پھولوں پر حاوی ہوگئے تھے۔ سنگیتا نے بتایا کہ اس گیت کی فلمبندی کے بعد اسکرپٹ پر تبدیلیاں کرکے اسے مختلف کمروں میں تبدیل کردیا جائے گا اور پھر ندیم اور کویتا کے دیگر سین بھی فلم بند کیے جائیں گے۔ تسلیم فاضلی جتنی دیر سیٹ پر رہے وہ میرے خیال میں سگریٹ کی آدھی ڈبی ختم کرچکے تھے۔
اس دوران موسیقارکمال بھی سیٹ پر آگئے اور پھر ایک موسیقار اور دو شاعروں کی دلچسپ گفتگو شروع ہوگئی تھی کچھ دیر کے بعد سنگیتا نے کمال احمد سے آکر کہا۔ کمال صاحب! اب دوسرا گیت بھی ایک دو دن میں ہی مکمل کرلینا ہے۔ کیونکہ آؤٹ ڈور شوٹنگ میں یہ سیٹ مکمل کرنے کے بعد ہی دوسرا گیت بھی ندیم اور کویتا پر شوٹ کرنا ہے۔ ہمارے پاس ندیم کی تاریخیں موجود ہیں اور ہمارا پروگرام اسی مہینے میں ندیم کا سارا کام مکمل کرنا ہے۔
کمال احمد بولے میڈم! آپ بتائیں کہ مجھے کس دن نئے گیت کے لیے بیٹھنا ہے۔ سنگیتا نے چند لمحوں کے لیے سوچا پھر کہا آپ چاہو تو کل ہی نئے گیت کی تیاری شروع کردو اور ہاں یہ گیت آپ کے ساتھ یونس ہمدم لکھیں گے پھر سنگیتا نے سیٹ ہی پر دونوں کو گیت کی سچویشن سمجھانے کے لیے فلم کی کہانی کو بریف کرتے ہوئے کہا کمال صاحب! یہ گیت اس فلم کا اہم ترین گیت ہے ویسے تو سارے ہی گیت اہم ہیں مگر کہانی کے اعتبار سے اس گیت کو خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ فلم کا ہیرو اپنی محبت کو پانے کے لیے پیسہ کمانے کے لیے شہر چلا جاتا ہے۔ شہر کی روشنیوں کی چکاچوند اسے گاؤں کو بھلا دیتی ہے۔
وہ ایک حادثے میں اپنی آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوجاتا ہے تو پھر اس کو اپنا گاؤں، بستی، گھر اور گاؤں کی محبت یاد آتی ہے اور وہ ایک بیل گاڑی میں اپنے گاؤں روانہ ہوتا ہے اور بیل گاڑی میں آنکھوں سے محروم ہیرو ایک گیت گاتا ہے۔ ایسا گیت جس میں زندگی کا درد اور کرب شامل ہوتا ہے۔ سنگیتا نے سچویشن سمجھاتے ہوئے میری اور کمال احمد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے امید ہے تم دونوں کی محنت اس بار بھی ایک خوبصورت گیت کی صورت میں سامنے آئے گی اور ''عشق عشق'' کا یہ گیت بھی ایک امر گیت کہلائے گا۔ سنگیتا یہ کہہ کر دوبارہ سے شوٹنگ میں مصروف ہوجاتی ہے۔ جس روز میں اور کمال احمد نئے گیت کی تیاری میں مصروف تھے۔ کمال احمد نے باتوں ہی باتوں میں کہا۔ یونس ہمدم! ''عشق عشق'' کے گیت کے لیے مجھے پھر سے اپنے ماضی میں جانا پڑ گیا ہے۔
ایسی ہی سچویشن میری فلم ''دیا اور طوفان'' میں تھی اور رنگیلا کے لیے میں نے ایک گیت بنایا تھا اور جس کی دھن پر میں دو سال تک کام کرتا رہا تھا پھر جب یہ فلم مجھے ملی تو میں نے گیت مکمل کیا۔ رنگیلا نے میرا گیت ''گا میرے منوا گاتا جا رے'' گایا تو وہ گیت بھی امر ہوا تھااور رنگیلا بھی ہٹ ہوا اور اب ایسی ہی سچویشن درپیش ہے۔ وہ گیت بھی بیل گاڑی پر پوربی لہجہ لیے ہوئے تھا اور اب ہمیں یہ گیت بھی پوربی انداز ہی میں بنانا ہے۔
یہ گیت ہم دونوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اگر تم پہلے کوئی اچھا سا مکھڑا سوچ لیتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ بس شرط یہ ہے کہ مکھڑا ایسا ہو جو دل میں اترتا چلا جائے۔ اب یہ بات کمال صاحب سے زیادہ میرے لیے چیلنج کا باعث تھی۔ میں آنکھیں بند کیے کافی دیر تک سچویشن میں ڈوبا رہا۔ سوچتا رہا کہ فلم کا ہیرو اندھا ہوچکا ہے اب اس کی دنیا میں صرف اندھیرا ہے یا پھر بیتے دنوں کی یادیں آنسو بن کر اس کی آنکھوں میں گھر کرچکی ہیں۔ پھر ایک مکھڑا ذہن میں آتا ہے میں وہ کمال احمد کو سناتا ہوں۔ وہ مکھڑا کچھ یوں تھا:
نیناں رے نیناں تم ہی برے
تم سے برا نہ کوئے
آپ ہی پریت لگائے رے پگلے
آپ ہی بیٹھا روئے
کمال صاحب نے وہ مکھڑا سنا۔ چند لمحوں تک مجھے دیکھتے رہے پھر بولے۔ تم نے تو مجھے کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رکھا۔ ارے یہ بہت ہی خوبصورت مکھڑا ہے۔ بس اب تم انترے لکھنے شروع کرو۔ کمال صاحب نے ہارمونیم سنبھالا اور میں نے قلم اٹھایا۔ ایک انترہ بھی لکھا جو کچھ اس طرح تھا۔ جو سچویشن میں پوری طرح ڈوبا ہوا تھا:
سونا دن ہے سونی راتیں سونا جگ ہے میت بنا
سوئی رم جھم کی برساتیں سونا ساون گیت بنا
جو دل ٹوٹے وہ دل جانے اور نہ جانے کوئے
یہ گیت جب فلم کا حصہ بنا تو ندیم اور کویتا کی اداکاری اپنے عروج پر تھی۔ اس گیت کا خاص حسن مہدی حسن کی مدھر آواز تھی اس گیت کو بڑی شہرت ملی اور یہ گیت لیجنڈ مہدی حسن کے کلاسک ہٹ گیتوں میں ہے۔