پیرس میں لہو کی پچکاریاں
غبارخاطرکے باب پیرس سانحے کے بعد سارے کھل گئے ۔
غبارخاطرکے باب پیرس سانحے کے بعد سارے کھل گئے ۔ پھر سے خیالوں کی جنگ چھڑ گئی۔ وہ خیال جو یونان سے شروع ہوا اور پھر انیسویں صدی میں پیرس انقلاب، اس کی شاہراہوں پر دندناتا گھومتا رہا۔ وہ انقلاب جس نے کارل مارکس کے خیال کو اور پختہ کیا۔کیا خیال تھا وہ؟ ایک طرف اشتراکیت کی سوچ تھی جو انقلاب کو انارکی کے پل صراط سے گزرکر ملنی تھی تو دوسری طرف سرمایہ داری میں رہ کر انسانی حقوق پانے کا خیال تھا تو ساتھ ساتھ ریاست اور مذہب کو جدا کرنے کا خیال تھا۔
جو بھی تھا پیرس تھا یا لندن تھا اور نیویارک ، ابھی پک کے ابھر رہا تھا۔ ''دنیا کے مزدورو! ایک ہوجاؤ '' کے فلک شگاف نعرے تھے۔ جسے ساحر لدھیانوی ''وہ صبح کبھی توآئے گی'' کی دھن میں گاتے تھے۔ انسانی حقوق کے علم بردار اس نابینا سیاہ مارٹن لوتھرکنگ کے پاس بھی ایک خواب تھا۔ وہ جو چھڑی لے کے چیختا ہوا کہتا تھا کہ دنیا کے کسی کونے پر ظلم و جبر ہے تو یقین سمجھو یہ ظلم وجبر پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لے گا۔
میری ٹیبل پر اس وقت فرانسس فوکو ہاما کی کتاب Political Order and Political Decay پڑی ہوئی ہے۔ جس میں ماڈرن سماج کی بنیاد اسی موروثی درجات و خاندان کی بناوٹ میں پائی ہے۔ چاہے کتنا بھی ہم پوسٹ ماڈرن عہد کے زینوں پر چڑھنے میں لگے ہوئے ہوں۔ ہم ہیں وہی خود غرض انسان سطحی سوچ رکھنے والے۔ وہ چاہے نانصیب ہوں یا بد نصیبی ہم اپنے اولاد کو ورثے میں دیتے ہیں اور وہ پھر اپنی اولاد کو دیتے ہیں۔
اسی بات سے تو ٹکر میں تھا کارل مارکس۔ اس نے سب بیماروں کی جڑ خود ریاست کو قرار دے دیا۔ اس نے ریاست کو تحلیل کرنے کا خیال دیا۔ بچوں کی شناخت بھی ہے کہ یہ بچے کمیون کے بچے، رائے بہادر، خان صاحب و عزت مآب کے بچے نہیں نہ ان کو کچھ ورثے میں ملے گا نہ یہ ورثے میں آگے دیں گے۔
کارل مارکس کا یہ فلسفہ اس پر نازل نہیں ہوا تھا بلکہ وہ تیزی سے بڑھتی مغربی تہذیب جوکہ نشاۃ ثانیہ Renaissance ایجادات، اصلاحات کا ثمر تھی۔ شاید اس سماج میں عورت کے حقوق ابتدا ہی سے اتنے پامال نہیں تھے جتنے مشرقی تہذیب میں تھے وہ سماج Renaissance سے پہلے بھی Plural تھا۔ خواہ کتنا بھی کلیسا کا زور رہا اور پھر یوں کرتے کرتے مغرب بہت بڑی چھلانگ مار بیٹھا اور باقی ساری دنیا پیچھے رہ گئی۔
مارکس دیکھ رہا تھا کس طرح مغرب یورپی دنیا کو فتح کرنا چاہتا ہے اور انھیں محکوم بنا کے غلامی کے طوق پہنانا چاہتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مغرب غلامی کے ان طوقوں کے ساتھ اپنے علم کے خزانے بھی لا رہا تھا۔ ہاں مگر ہم ان کی ایجادات و علم سے بہت مستفیض تو ہوئے۔ لیکن غلامی ہمارے وجود میں رگوں میں بیٹھ گئی۔ وہ چلا تو گیا مگر اپنے پٹھو یہاں بٹھا گیا یہ سرد جنگ کے تقاضے تھے، پٹرول کی رسد کے لیے ضروری تھا۔ سلطنت عثمانیہ میں رہتے ہوئے مسلمانوں کا وہ بٹوارہ کیا کہ عرب تو ایک مگر درجنوں ممالک میں بٹے ہوئے ہیں۔ کردوں کو چار ممالک میں ذبح کیا، کہ اس کی روح اب بھی بھٹک رہی ہے۔ ہندوستان کا بھی غیر منصفانہ بٹوارہ کیا۔
یہ ہمارا خون و پسینہ تھا جس سے لندن اور پیرس کو بنایا گیا اور پھر ہٹلرکو بھی دنیا کا خون چوسنے کا خیال آیا۔ یورپ آپس میں گتھم گتھا ہوگیا۔ اسی مغرب سے اگرکسی نے ہٹلرکو شکست دی تو وہ پرولتاریہ سوویت یونین تھا مگر خود سوویت یونین کو آمریت اندر ہی اندر سے ڈس گئی۔کارل مارکس کے خیال کو شکست ہوئی یا صحیح تشریح نہ مل سکی۔ سرمایہ داری کتنی بھی بدکار مگر اس نے خیال کی آزادی دی وہاں خیال سے خیال جنم لیتے رہے۔
اظہار کی آزادی، فرد کی آزادی ۔ اور پھر ایک دن اس کی کوکھ سے سوشل میڈیا نے جنم لیا۔ مشرق و مغرب، امیر دنیا وغریب دنیا، اسمارٹ فون کی اسکیم پر آمنے سامنے اور اگر آپ اپنی اسمارٹ فون کی اسکرین کو بند کریں تو کتنی بھیانک تھی زندگی۔ میرے سامنے ایک ڈیرا تھا جہاں وڈیرا بیٹھا تھا اور سامنے اس کے ڈیرے کے جو اسکول تھا جو ٹوٹ پھوٹ چکا تھا اور اسپتال مقفل تھا وڈیرے کے اب اپنے چار باڈی گارڈوں کو ماسٹر بھرتی کروا کے نوکری ان سے ڈیرے پر لیتا تھا۔ سوائے وڈیرے کی وحشت پھیلانے والی لینڈ کروزر وڈیرے کے باقی سارا کچھ ٹوٹا پھوٹا تھا، نالیاں گند سے بھری کہ اب راستے نالیاں بن گئے ہیں یرقان کی بیماری عام ہے غربت ہے جو ختم ہی نہیں ہوتی۔ اور یہ وڈیرا ہر دور میں زندہ ہے وہ چاہے آمریتیں ہوں یا جیالوں کا دور ہو۔زندہ ہے وڈیرا زندہ ہے۔
اپنے سوچ کی وجہ سے بھی پسماندہ رہ گیا ہے ہاں لیکن آج پیرس جل اٹھا ہے۔ افکار کا، خیال کا، جمال کا، شاہکارکا پیرس،کیفے ہاؤسزکا پیرس، گھومنے، ناچنے، کھانے، کافیاں، wine پینے والا پیرس، ژاں پال سارترکا پیرس، سائلن ڈی بیوز، البرٹ کامیو کا پیرس جو جرأت سے الجیریا میں باغیوں کی حمایت کرتا تھا جس طرح کارل مارکس سرمایہ داری کے خلاف لندن میں بیٹھ کر لکھتا تھا۔
آج اس پیرس پر آمریتوں و بادشاہوں میں پھنسے مسلمان ملکوں سے انسانی آزادی سے دور رکھے ہوئے ان تنگ نظر سماجوں سے جہاں عورت کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ ان بادشاہتوں نے اپنی بادشاہتیں بچانے کے لیے مذہب کو استعمال کیا جس طرح آج کل ہندوستان میں نریندر مودی کر رہا ہے جس طرح پاکستان میں ضیا الحق اور اس کے پیروکارکرتے رہے ہیں۔ کئی ایسے مدارس ہیں جہاں محبت نہیں نفرت پڑھائی جاتی ہے۔ یہ سب اس لیے بھی ہوا کہ ریاست اور مذہب ایک دوسرے سے جدا نہ ہو سکے۔
یہ ہے وہ پیرس جس کی گلیوں و چوراہوں پر لہوکی پچکاریاں ہیں، معصوم بچوں کا لہو، عاشق و معشوق کا لہو، اس کے دلارے کا لہو، تیسری صدی میں وجود میں آیا یہ شہر جسے سیلٹک لوگوں نے آباد کیا جہاں اب دو کروڑ سے بھی زیادہ سیاح آتے ہیں اور یوں پیرس کو نظرلگ گئی۔
لیکن مجھے یقین ہے، ہمیں کئی سبق ملتے ہیں، کئی مباحث چھڑتے ہیں، وہی ژاں ژاک روسو و مارکس کے طرح کے بحث کہ پیرس کی کوکھ سے اب کے زمانے کے Political Science کے کئی مفکر پیدا ہونے ہیں۔ کئی فوکو یاما، روسو اپنے عہد کے آئیں گے، کئی مارٹن لوتھر کنگ انسانی حقوق کے علمبردار آئینگے، کئی سوال، کئی جواب آئے ہیں جو الگ ابل پڑے ہیں عذاب تو کوئی ملال بھی نہیں، موت اور زیست کی اس صف آرائی میں آدم اور حوا کی اولاد پر یہی گزرنی تھی جو گزری مگر اس پیرس کی لہو آلود گلیوں سے بہت سی شمعیں منور ہوئی ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ اب کے بار بش جیسے شخص کا آنا دور دور تک ممکن نہیں کہ جس نے عراق کو برباد تو کیا مگر اس کو تعمیر کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی پروگرام نہ تھا، افغانستان کا بھی یہی حشر کیا، ہندوستان و پاکستان کو بھی جنگ و بارود اچھا لگتا ہے۔ ایران و روس شام کے آمر کی حمایت کرتے رہے۔
امریکا سعودی عرب کے بادشاہ کی۔سعودی عرب نے دنیا سے سارے جنونی جمع کر کے شام کو بھیجے۔ اسرائیل کو بھی یہ اچھا لگا۔ اسرائیل مغرب کو مسلم انتہا پرستوں سے ڈرا کے اپنے فلسطین پر کیے ظلم پر رعایت لیتا رہا۔ اور اس طرح شام و عراق خانہ جنگی میں ISIS گھس آئی ، کروڑ سے بھی زیادہ شام کے شہری نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ مصر میں مسلم انتہا پرستوں کو کچلنے کے لیے ایک آمر کی ضرورت تھی۔ جمال ناصر کا مصر، صدام حسین کا عراق سیکولر تو تھا مگر آمریت نے اندر ہی اندر سے زبوں حال کردیا تھا۔ اور پھر یوں وہاں مذہبی انتہا پرستی نے شکل بنائی۔ لیبیا سے آمر کو ہٹایا تو گیا مگر اس کے بعد کے لیبیا کے لیے تو کوئی بھی واضح پروگرام نہ تھا۔
مغرب کوئی آسمان سے اچانک نہیں بنا تھا، یونان و بغداد کی تہذیب کا تسلسل تھا مغرب۔ ہاں مگر مغرب میں جو ذمے داری عائد ہوتی تھی وہ ذمے داری مغرب ادا نہ کرسکا۔
مغرب کو اب دو ٹوک و واضح موقف اپنانا ہوگا۔ آمریتوں پر، بادشاہتوں پر، انسانی بنیادی حقوق شکنی کرنے والے ممالک پر۔ کیوں کہ غربت، انتہا پرستی کو جنم دیتی ہے، غربت کرائم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ غربت کی کوئی وجہ نہیں ہوتی ، غربت ریاست کے اندر بری حکمرانی و لوگوں کے مختص فنڈ ہڑپ کرنے کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔
غربت ناانصاف سماج کا کڑوا ثمر ہے ۔ مدرسوں کو پروان چڑھایا گیا، یہ مدرسے جہاں صرف غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں وہ آئے بھی غریبوں کی بستیوں سے ، جب ریاست ان غریب کے بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتی وہاں یہ روٹی کپڑا و مکان بھی دیتے ہیں، وہ وعدہ جو بھٹو نے کیا تھا اور اب کی بار یہ پارٹی سندھ میںNeo feudelکے مفاد کی ترجمان بنی بیٹھی ہے۔ اور یوں دنیا کا بٹوارہ ہوا۔ ایک انصاف دینے والے سماج ہیں اور دوسری طرف انصاف چھیننے والے ہمارے جیسے سماج ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا ایک ہے اس کے ماحولیاتی حوالے سے مسائل ایک ہیں اور جب تک اس کو ایک سمجھ کر، ریاستوں و سرحدوں سے بڑا ہوکر نہ دیکھا گیا تو یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔