ذرا نم ہو

ہر بڑے شاعر کی طرح علامہ اقبال کے بھی کئی مصرعے بیک وقت ’’اقوال زریں‘‘ اور پیش گوئیوں کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔


Amjad Islam Amjad November 22, 2015
[email protected]

ہر بڑے شاعر کی طرح علامہ اقبال کے بھی کئی مصرعے بیک وقت ''اقوال زریں'' اور پیش گوئیوں کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ایسے ہی تاریخ ساز اور عہد آفریں مصرعوں میں سے ایک ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی، بھی ہے کہ ہم اپنی آنکھ سے ایسے علاقوں، برادریوں اور طبقوں میں سے غیر معمولی عملی اور عملی قابلیت کے نوجوانوں کو ابھرتا دیکھ رہے ہیں ۔

جہاں تعلیم اور بالخصوص جدید علوم کی تعلیم کا سرے سے تصور ہی موجود نہیں تھا غربت، افلاس، جہالت اور کنوئیں کے مینڈک جیسی محدود اور بے مقصد زندگی گزارنے کے باعث یہ لوگ صدیوں سے موجود تو تھے لیکن ''اقرا'' کی لذت، رحمت اور اہمیت سے یکسر بے خبر تھے۔ رنگ و نسل، زبان اور عقیدے کی ''مقامیت'' کے باعث یہ خلق خدا نہ تو کسی قومی اور اجتماعی دھارے کا حصہ بن پائی تھی اور نہ ہی اپنے دفاع کی کھڑکیاں کھولنے پر تیار اور آمادہ تھی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قیام پاکستان کے بعد اولین توجہ ان کی ترقی اور اصلاح پر دی جاتی تا کہ ہم اس قومی وحدت کی تعمیر اور تشکیل کر سکتے جو اس وقت تک بوجوہ صرف مذہبی اشتراک تک ہی محدود تھی لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاسی رہنماؤں، دانشوروں اور سماجی علوم کے ماہرین میں سے کسی طبقے نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی جس ناقص تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم کو سرکاری سرپرستی میں نیم دلی سے رائج کرنے کی کوشش کی گئی۔

، وہ بھی اس خلا کو پر نہ کرسکا اور رہی سہی کسر بلا سوچے سمجھے اور متبادل انتظامات کیے بغیر تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے نے پوری کر دی کہ گدھے گھوڑے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے باعث ہر چیز انتشار اور بے سمتی کا شکار ہو گئی اور یہیں سے اچھے، درمیانے، کمزور اور نمائشی انگلش میڈیم اسکولوں کے اس سیلاب کو راستہ ملا جس کی وجہ سے گوناگوں نظام ہائے تعلیم ایک ہی وقت میں نہ صرف رائج ہو گئے بلکہ تعلیم کا شعبہ قومی خدمت اور ذمے داری کے دائرے سے نکل کر ایک صنعت اور کاروبار کی شکل اختیار کر گیا جس کی وجہ سے قومی دولت اور مشترکہ کلچر کا تصور مزید دھندلا ہوتا چلا گیا۔

عمر عزیز کا بیشتر حصہ تعلیم و تدریس میں گزارنے کے باعث میرے لیے بھی یہ صورت حال بہت تشویشناک تھی جس کا اظہار میں اکثر نجی گفتگو اور اپنی تحریروں کی معرفت کرتا رہتا تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے اندازہ ہونے لگا کہ میں اس ردعمل کے میدان میں تنہا نہیں ہوں بلکہ میری طرح بلکہ مجھ سے کہیں زیادہ بے شمار اہل دل اور صاحبان فکر و نظر ایسے ہیں جو اس صورت حال کی اصلاح کے لیے سرگرم ہیں اور بہت سی تنظیمیں اور ادارے تعلیم کے فروغ اور باصلاحیت مگر کم وسائل کے حامل طلبہ و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

کم فیسوں والے تعلیمی اداروں کے قیام اور اساتذہ کی تربیت پر بھی بہت کام ہو رہا ہے۔ بچوں کو بہتر انسان اور اچھے شہری بنانے پر بھی توجہ دی جا رہی ہے اور ان کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ بھاری فیسوں اور بیشتر نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں کے پھیلاؤ نے مالکان، اساتذہ، والدین اور طلبہ سب کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ ان اسکولوں کے مالکان کے نزدیک بچے اور ان کے والدین Client اور اساتذہ Facilitator بن گئے ہیں۔ بلاشبہ اس گلوبل ولیج میں زندہ رہنے اور ایک انٹرنیشنل شہری بننے کے لیے ہمیں انگریزی زبان سیکھنے اور مغربی طرز حیات کو جاننے کی ضرورت ہے۔ مگر کیا اس کے لیے اردو اور دوسری پاکستانی زبانوں اور اپنی علاقائی اور مقامی تہذیبوں اور اخلاقی اور مذہبی اقدار سے رو گردانی ضروری ہے؟ کیا نیشنل ہوئے بغیر انٹرنیشنل ہوا جا سکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کو سمجھے اور جن کا جواب دیے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل ممکن ہی نہیں۔

گزشتہ ہفتے کے دوران مجھے تعلیم سے متعلق دو ایسی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا جن میں اسی سوال کا جواب دینے کی کامیاب اور بھر پور کوشش کی گئی ہے۔ پہلی تقریب الفلاح اسکالر شپ اسکیم اور الخدمت فاؤنڈیشن کی طرف سے ایوان اقبال میں منعقد کی گئی جس کے اصل مہمانان خصوصی وہ طلبہ و طالبات تھے جنھوں نے ان غیر سرکاری وظائف کی مدد سے نہ صرف اپنی تعلیم مکمل کی بلکہ اب ان میں سے ایک ہزار کے قریب نوجوان لڑکے لڑکیاں ڈاکٹر، انجینئر، ایم بی اے، قانون، ایم اے اور ایم ایس کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اچھی ملازمتوں پر فائز ہو چکے ہیں۔ میں اور انور مسعود بھی مختلف وقتوں میں الفلاح اسکالر شپ اسکیم اور اب ''الخدمت'' کے بھی سربراہ میاں عبدالشکور کے ساتھ امریکا، اسپین، اٹلی، ناروے اور برطانیہ میں فنڈ ریزنگ کے لیے کامیاب دورے کر چکے ہیں۔ اس وقت بھی پانچ ہزار سے زیادہ باصلاحیت اور غریب طلبہ و طالبات ان وظائف سے فیض یاب ہو رہے ہیں جو ان کے دوران تعلیم ہر طرح کے اخراجات کے کفالت کرتے ہیں۔

اسی طرح کی ایک تقریب الحمراء آرٹ کونسل کے ہال نمبر 2 میں منعقد ہوئی جس کی صدارت پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے کی۔ اس کا مقصد غزالی پریمئر کالج کے ان طلبہ و طالبات کی نقد انعامات سے حوصلہ افزائی تھی جنھوں نے میٹرک کے حالیہ امتحانات میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کا اہتمام کالج کمیٹی کے سربراہ میجر رفیق حسرت، پروفیسر اشتیاق گوندل، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے سیکریٹری عامر جعفری اور ان کے چند ''دامے درمے قدمے سخنے'' مددگار ان احباب اور رفقا نے کیا تھا جن کی کوششوں سے یہ مثالی ادارہ آج سے اڑھائی برس قبل قائم ہوا۔ مثالی میں نے اس لیے کہا کہ اس کے قیام کا مرکزی خیال اقبال اور قائداعظم کی اسی تحریک سے منسلک ہے جس کے نتیجے میں ہمیں یہ آزاد پاکستان نصیب اور عطا ہوا۔

اس بورڈنگ اسکول نما کالج میں چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت، ہنزہ اور آزاد کشمیر سے 120 کے قریب ایسے بچوں کو منتخب کر کے مفت تعلیم، رہائش اور دیگر اخراجات کی سہولت مہیا کی جاتی ہے جو بوجوہ ان کے والدین افورڈ نہیں کر سکتے۔ مختلف علاقوں، زبانوں، تہذیب اور مقامی روایات سے تعلق رکھنے والے ان بچوں کو ایک عمارت میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے اور رہنے کا موقع دیا جاتا ہے تا کہ ان میں یگانگت اور محبت کو فروغ دیا جا سکے اور آٰگے چل کر یہ بچے اپنی اپنی انفرادی اور علاقائی پہچان رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے رشتۂ اشتراک میں بھی بندھے چلے جائیں جو قومی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ رب کریم اس سعی میں شامل تمام احباب کی مدد اور حفاظت کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں