قربانی کے جانوروں کی آن لائن خریداری کا نیا رجحان

عید سے کئی روز قبل جانورکی خریداری اور اس سے وابستہ سرگرمیاں معدوم ہو رہی ہیں


Rana Naseem October 26, 2012
پاکستان میں سینکڑوں ایسی ویب سائٹس بن چکی ہیں، جہاں سے آپ گھر بیٹھے بکرا، گائے، دنبہ، چھترا اور اونٹ جیسے حلال جانور قربانی کے لئے خرید سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

انسان کے ہاتھوں ہونے والے انکشافات اور ایجادات نے خود اس کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

اور آج وہ سب کچھ ممکن ہے جو کچھ عرصہ قبل ناممکن تھا۔ جدید دور کی ایجادات میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان میں 3 کروڑ کے لگ بھگ افراد انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں اور ان صارفین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جو کہ ایک اچھی بات ہے۔ عصر حاضر میں انٹرنیٹ نے تقریباً ہر شعبے میں اپنی جگہ بنا کر اس کی مشکلات کو آساں کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

پاکستان میں عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی خریداری شہریوں کے لئے ہمیشہ ہی ایک مسئلہ رہی ہے، لیکن انٹرنیٹ نے پڑھے لکھے لوگوں کے لئے یہ مسئلہ کسی حد تک حل کردیا ہے اور اب آپ بکر منڈی یا بڑے شہروں میں قربانی کے جانوروں کے لئے لگائی گئی عارضی منڈیوں میں جا کرگھنٹوں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے صرف چند منٹوں میں انٹرنیٹ پر مطلوبہ اور پسندیدہ جانور خریدے جا سکتے ہیں۔

پاکستان میں سینکڑوں ایسی ویب سائٹس بن چکی ہیں، جہاں سے آپ گھر بیٹھے بکرا، گائے، دنبہ، چھترا اور اونٹ جیسے حلال جانور قربانی کے لئے خرید سکتے ہیں۔ جانوروں کی آن لائن خریداری صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خلیجی ریاستوں اور امریکہ میں بھی کی جاتی ہے۔ ویب سائٹ پر جانوروں کی تصاویر، دانت، وزن، رنگ، نسل، عمر اور قیمت سمیت تمام معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ آپ اپنی استطاعت اور پسند کے مطابق جانور خرید سکتے، جو آپ کو ایک یا دو روز کے اندر آپ کے دیئے ہوئے پتہ پر پہنچا دیا جائے گا۔ جانور کی قیمت کی ادائیگی، ہینڈ کیش، ڈیبٹ کارڈ یا منی ٹرانسفارمر، کسی بھی طرح سے کی جا سکتی ہے۔

یہی ویب سائٹ قصاب کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔ اگر خریدار یہ جانور رشتے دار یا کسی خیراتی ادارے کو دینا چاہتے ہیں، تو ویب سائٹس اس کی بھی یقین دہانی کراتی ہیں کہ جانور مطلوبہ جگہ پہنچادیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایسی ویب سائٹس مکمل جانور کی خریداری کیساتھ اجتماعی قربانی میں ''حصہ'' کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں۔ کچھ ویب سائٹس یہ بھی پیشکش کرتی ہیں کہ وہ خود اس کو ذبح کر کے گوشت مستحقین میں تقسیم کردیں گی۔ جس کی مکمل ویڈیو صارف کو فراہم کی جاتی ہے۔ جانورکی حتمی اور مناسب قیمت، بحث سے چھٹکارا اور وقت کی بچت جیسی خوبیوں کے باعث ان ویب سائٹس کی مقبولیت اور اہمیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

قربانی کے جانوروں کی آن لائن خریداری پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے ویب سائٹس پر مفتی تقی عثمانی سمیت دیگر مفتی صاحبان کے فتوے بھی جاری کئے گئے جن میں انٹرنیٹ کے ذریعے قربانی کے جانور کی خریداری کو جائز قرار دیا گیا ہے۔

جانوروں کی آن لائن خریداری کا کام کرنے والے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ 2006ء میں جب اس کام کا باقاعدہ آغاز ہوا تو اس وقت لوگوں میں اس کے بارے میں اتنی آگاہی نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس کی بھرپور تشہیر کی، جس کے بعد فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ سال بھر آن لائن جانور فروخت کرتے ہیں، مگر عید پر اس کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اہلکار کے مطابق ان کی ایک ویب سائٹ سے گزشتہ عیدالاضحیٰ پر 3 ہزار چھوٹے بڑے جانور فروخت ہوئے تھے۔ اب ان کو امید ہے کہ اس سال یہ تعداد دوگنا ہوجائے گی۔ مذکورہ ویب سائٹس کے کام سے جڑے ایک اور اہلکار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جانوروں کی آن لائن خریداری کا کام حوصلہ افزاء ہے اور ہمیں بہت اچھا رسپارنس مل رہا ہے۔ اہلکار کے مطابق ملک میں امن و امان کی ابتر صورتحال بھی جانوروں کی آن لائن خریداری میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔

آن لائن مویشی منڈی سے جانور خریدنے والے چند شہریوں کا کہنا ہے کہ آن لائن خریداری نے انہیں بہت بڑی درد سر سے بچا لیا ہے۔ اب ہمیں بکر منڈیوں میں دھکے کھانے کی ضرورت ہے نہ کسی قسم کا دھوکہ ہو جانے کا ڈر ہے۔ آن لائن خریداری پر قیمت اور معیار دونوں طرح کی گارنٹی دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس خریداری پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کی منڈی میں جانور کے وزن کے مطابق قیمت وصول کی جاتی ہے، جس پر وہ مطمئن ہیں۔ لوگوں کی کثیر تعداد شہروں میں اور شہروں سے باہر بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پر خریدار اگر جانور دیکھنے کے بعد مطمئن نہ ہو تو وہ اپنی مرضی کا دوسرا جانور بھی لے سکتا ہے۔

خریداروں کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی سہولت کے لئے ملک کی لاء اینڈ آرڈر اور معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے قربانی کے جانوروں کی آن لائن خریداری کو فروغ دے۔ جبکہ اس کے برعکس دوسرے مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ آن لائن خریداری میں دھوکہ بازی کا زیادہ احتمال ہے۔ ہم اس قسم کی خریداری پر یقین نہیں رکھتے اور بکر منڈی میں جاکر خود جانور دیکھ بھال کر خریدنے کر ترجیح دیتے ہیں۔ قربانی ہمارا ایک اہم مذہبی فریضہ جس کے لئے اگر تھوڑی بہت پریشانی اٹھا بھی لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

شریعت کے مطابق کسی بھی چیز کی خریداری حقیقی اور موجود اثاثوں پر ہونی چاہیے:مفتی محمد یونس

قربانی کے جانوروں کی آن لائن خریداری کے حوالہ سے مفتی محمد یونس نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شریعت کے مطابق کسی بھی چیز کی خریداری حقیقی اور موجود اثاثوں پر ہونی چاہیے۔ قربانی کے جانور کی آن لائن خریداری اس وقت جائز ہے، جب یہ صرف اپنی ذات کے لئے ہو۔ اسے آگے فروخت کرنے کا ارادہ نہ ہو۔ جانور کو ٹھوس شکل میں دیکھنے کے بعد اس کی قیمت ادا کی جائے۔ فرضی سودے بازی درست نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیزوں کی خرید و فروخت کے عمل میں ایک بار اس چیز پرقبضہ ضروری ہے، پھر آپ اسے آگے فروخت کر سکتے ہیں۔

آن لائن قربانی اور پھر اس گوشت کی کسی خیراتی ادارے یا مستحق لوگوں کو فراہمی کے سوال پر مفتی محمد یونس نے بتایا کہ صارف کی اجازت سے شریعت کو مطلوب اوصاف کے مطابق جانور کی قربانی کا یہ طریقہ کار درست ہے، اسے ہم غلط نہیں کہہ سکتے۔ مگر اس میں ایک چیز انتہائی اہم ہے اور وہ ہے اعتماد۔ اگر صارف کو اس ویب سائٹس انتظامیہ کی دیانتداری پر مکمل اعتماد ہے، تو ایسے قربانی بھی جائز ہے اور اس قربانی کے گوشت کی تقسیم بھی درست ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس طریقہ کار کے تحت جانور ذبح ہونے کے بعد اگر متعلقہ شخص کو معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور میں شریعت کے مطابق اوصاف موجود نہیں تھے، تو یہ قربانی نہیں ہوئی۔ صاحب نصاب پر دوبارہ قربانی کرنا واجب ہے، لیکن اس دھوکہ بازی یا غفلت کا ذمہ دار متعلقہ ادارہ ہوگا۔ وہ ادارہ ہی اس غیر شرعی قربانی کا بوجھ اٹھائے گا۔ قربانی کے مخصوص ایام ابھی باقی ہوں تو صاحب نصاب دوبارہ قربانی دے گا اور اگر عیدالاضحیٰ کے ایام گزر چکے ہیں، تو اسے اتنی رقم کا صدقہ کرنا ہوگا۔

آن لائن جانوروں کی خریداری کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

پاکستان میں جانوروں کی آن لائن خریداری کے حوالہ سے کام کا آغاز 2005ء میں اس وقت ہوا، جب مویشی پال حضرات نے پرائس ٹیگ کے ساتھ اپنے جانوروں کو نمائش کے طور پر پیش کیا۔ بحث و مباحثہ سے بچنے اور سہولت کے جلد حصول کی ضرورت نے بڑی تیزی سے اس رجحان کی ترویج کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف فارم ہائوسز کے مالکان نے غیر ملکیوں کے لئے خصوصاً اور مقامی افراد کے لئے عموماً ویب سائٹس بناکر آن لائن کاروبار کا آغاز کردیا۔

پھر وقت گزرنے کے ساتھ مقابلہ کے رجحان کے باعث اس سہولت کے طریقہ کار اور جانوروں کے نرخ میں ردوبدل بھی ہونے لگی۔ 2006ء میں پہلی بار باقاعدہ طور پر پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی خریداری کے لئے ویب سائٹ کا قیام عمل میں لایا گیا، جس نے کریڈٹ کارڈ اور کیش ٹرانسفارمر کے دیگر طریقوں کے ذریعے جانوروں کی فروخت کا آغاز کیا۔ گزشتہ 2سال میں قربانی کے جانوروں کی آن لائن خریداری میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب 2012ء میں قربانی کے جانوروں کی آن لائن خریداری کے لئے سینکڑوں ویب سائٹس بن چکی ہیں۔

قربانی کے جانوروں کی خریداری کے بدلتے ہوئے رجحانات کی وجہ سے عیدالاضحی کا مذہبی اور روایتی پن متاثر ہو رہا ہے

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری بہت سی اچھی روایات دم توڑ رہی ہیں اور نتیجتاً معاشرہ اخلاقی اقدار اور اتحاد و یگانگت کے اوصاف سے محروم ہو رہا ہے۔ قربانی کے جانورں کی خریداری کے بدلتے اور جدید رجحانات کی وجہ سے عیدالاضحیٰ کا مذہبی اور روایتی پن بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ویب سائٹس اور مختلف تنظیموں کے ذریعے قربانی کے جانوروں کی خریداری ہمیں کس طرف لے جارہی ہے؟ خریداری کے ان طریقوں سے کیا ہم خود کو سچی اور حقیقی خوشیوں سے محروم نہیں کررہے؟ آج سے صرف 15سے20 سال قبل، عید سے کئی روز پہلے جانور کی خریداری اور پھر اس کی خدمت کو نہ صرف مذہبی فریضہ بلکہ اپنی شاندار روایات کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔

35 سے 40 سال قبل ہر گھر کے سامنے بکرا کھڑا ہونے کو قابل فخر سمجھا جاتا تھا۔ لوگ جانوروں کی خریداری کے لئے ٹولیوں کی صورت میں جاتے اور ایک جگہ سے جانور خرید کر انہیں ایک ساتھ لایا جاتا۔ جس سے اتحاد و اتفاق کے جذبہ کو پروان چڑھنے میں مدد ملتی۔ قربانی کے جانوروں کو مہندی لگانا، جھانجھر پہنانا اور رنگ برنگے ''پٹے'' پہنا کر گلیوں میں گھمانا، یہ سب وہ روایات تھیں جو نہ صرف ننھے منے بچوں بلکہ بڑوں کے لئے بھی باعث مسرت ہوتیں۔

لاہور جیسے شہر میں تو یہ روایات بھی تھیں کہ لوگ ٹولیوں کی صورت میں اپنے بکروں کو درباروں پر سلام کرانے لے جاتے۔ ان ٹولیوں کے ساتھ بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی۔ لیکن افسوس اب یہ سب روایات آہستہ دم توڑتی چلی جارہی ہیں۔ ہماری اکثریت عید سے کئی روز قبل قربانی کا جانور لا کر گھر باندھنے کو بوجھ تصور کرتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ عید سے صرف ایک یا دو روز قبل ہی جانور خرید کر گھر لایا جائے، ہم میں سے بہت سے جانور خرید کر باڑوں یا ڈیروں پر چھوڑ دیتے ہیں اور جانور کو عید کی صبح ہی گھر پر لایا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں