سولہ دسمبر کے غازی حکومتی توجہ چاہتے ہیں
،ولید کا علاج مکمل ہونے کے لیے مزید دو سال لگیں گے،
ISLAMABAD:
گزشتہ ہفتے کے کالم میں سولہ دسمبر کی آمد کا ذکر سانحہ پشاورکے حوالے سے کیا تھا بہت سے کرم فرماؤں نے اس کالم کے حوالے سے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا،ٹیکسٹ پیغامات کے علاوہ ای میلز بھی موصول ہوئیں اور چند دوستوں نے ٹیلی فون کر کے یہ خواہش ظاہر کی کہ اگلے کالم میں شہداء آرمی پبلک اسکول کے ان بچوں سے متعلق لکھا جائے جو شدید زخمی تھے اور بتایا جائے کہ ان میں کتنے صحت یاب ہو چکے اور کتنے آج بھی مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ خیبر پختون خوا حکومت کے علاوہ وفاقی اورکسی دوسرے صوبے کے حکم رانوں نے زخمی بچوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کی یا نہیں؟ میں خود بھی یہ جاننے کی کوشش میں تھا، ایسے میں شہداء کے والدین کی جانب سے متعدد اخبارات میں خبریں بھی دیکھنے کو ملیں جن میں ان کا غصہ جھلکتا دکھائی دے رہا تھا۔ پھر شہر کے واحد ثقافتی مرکز نشتر ہال میں والدین کا اکٹھ بھی ہوا جہاں دھواں دار تقاریر ہوئیں اس بارے میں اگلے کالم میں تفصیل سے ذکر ہو گا البتہ دسمبر پھر آنے کو ہے لیکن شہدائے اے پی ایس کے والدین کے دکھ درد ہیں کہ ختم ہونے کونہیں آ رہے۔
سولہ دسمبر2014 ء کی صبح جو سرکاری اعداد و شمار دستیاب ہیں ان کے مطابق اس دن 134 بچے شہید ہوئے جب کہ132 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے جنھیں مختلف اسپتالوں میں داخل کروایا گیا ان میں سے 18 بچوں نے دوران علاج جام شہادت نوش کر لیا ،باقی لیڈی ریڈنگ اور سی ایم ایچ پشاور میں زیر علاج رہے ان میں سے دو بچوں کو علاج کے لیے برطانیہ بھیجا گیا، ایک بچے کے اخراجات وفاقی حکومت نے برداشت کیے ، دوسرے بچے کا علاج بحریہ ٹاؤن کے چئیرمین ملک ریاض نے اپنے ذمے لیا جب کہ تیسرے بچے کا علاج پاکستان آرمی نے کروایا،پنجاب حکومت نے بھی چند بچوں کو لاہور کے میو اسپتال میں علاج کے لیے سہولت فراہم کی لیکن والدین کے مطابق اس سے بچوں کو افاقہ نہیں ہوا،مجھے اس واقعہ کے چند دن بعد کے وہ لمحے کبھی نہیں بھولیں گے جب احمد نوازکو دیکھنے لیڈی ریڈنگ اسپتال گیا اس کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی،پاؤں اور ٹانگیں سوجھ چکی تھیں اور درد کے مارے احمد نواز کی چیخوں سے دل دہل جاتا تھا، اس کے والد نواز خان کی صرف یہی اپیل تھی کہ ایک بیٹا تو شہید ہو گیا ہے کم از کم دوسرے کی جان بچانے کے لیے تو اسے بیرون ملک بھیج دیا جائے اور پھر وزیر اعظم نواز شریف کو بھی رحم آ ہی گیا جنہوں نے اس کے علاج کا بندوبست کرنے کے احکامات دیے اور آج ماشاء اللہ احمد نواز نارمل زندگی کی جانب واپس لوٹ رہا ہےْ
البتہ اس کے والد نواز خان کو شکوہ ہے کہ شاید وفاقی حکومت اس کے بیٹے کو برمنگھم بھجوا کر بھول گئی ہے کیوںکہ برطانیہ میں علاج خاصا مہنگا ہے اور جب تک اسپتال میں ایڈوانس رقم جمع نہ کروائی جائے علاج ممکن نہیں ہوتا ان سے رابطہ تو نہیں ہو سکا لیکن ان کے بعض دوستوں سے سنا ہے کہ احمد کے علاج کے لیے فوری رقم کی ضرورت ہے، سی ایم ایچ میںانتہائی باہمت آٹھویں جماعت کے طالب علم ولید گلزاربھی زندگی بھر دل و دماغ سے نہیں نکل سکے گا جس نے بڑی بہادری سے موت کو شکست دی ،اس باحوصلہ بچے کے چہرے سے چھ گولیاں آر پار ہو گئی تھیں، بازو اور پاؤں پر بھی گولیاں لگیں ،ولید گلزار کا جبڑا مکمل طور پر ختم ہو گیا اور چہرہ فلیٹ ہو گیا تھااس کے والد گلزار محمد کا غم دیکھا نہیں جاتا تھالیکن بہادر بیٹے کے بہادرباپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور پھر رب کائنات نے بھی ان کی سن لی، ولید گلزار کے علاج کا بیڑہ پاک فوج نے اٹھایا اسے برمنگھم کے اسی کوئین ایلزبتھ اسپتال بھیجا گیا جہاں ملالہ کو نئی زندگی ملی تھی،ڈاکٹروں نے ٹانگ سے ہڈی کاٹ کر ولید کا جبڑا بنا دیا ہے اب دوسرے مرحلے میں اس کے دانت لگائے جائیں گے اورپھر تیسرے مرحلے میں اس کے چہرے کی کاسمیٹک سرجری ہوگی۔
،ولید کا علاج مکمل ہونے کے لیے مزید دو سال لگیں گے، اب ولید بات چیت کے قابل ہو گیا ہے اس کی ماں اسے دن میں کئی بار ہلکی خوراک کھلاتی ہے، اس کا خیال رکھتی ہے کہ جس کا بیٹا بہادر ہو جس کا شوہر قابل فخر ہو تو وہ کیوں نہ ایک عظیم ماں قرار پائے،خود گلزار محمد نے کوشش کی کہ ولید کو اسکول لے کر جائے کئی بار لے کر بھی گئے لیکن ابھی تو سال نہیں گزرا جب وہ اسٹیج پر کمپئرنگ کر رہا تھا ،اس نے جونہی فرسٹ ایڈ کی بریفنگ کے لیے اناؤنسمنٹ کی کہ عقب سے اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی اور پھر جو مناظر تھے آخر وہ کیسے اتنی جلدی ایک معصوم کے ذہن سے نکل پائیں گے چنانچہ بہت ہی پیارا ولید معمول کی زندگی کی جانب لوٹ رہا ہے، سولہ دسمبر کے باقی132 غازی حکومت کی توجہ کے منتظر ہیں،ان میں سے35 بچوں کے لیے میڈیکل بورڈ تجویز کیا گیا ہے ، 15 بچوں کا بورڈ ہو چکا ہے جب کہ 20 بچے میڈیکل بورڈ کی نظر کرم کے منتظر ہیں جن کا میڈیکل بورڈ ہو چکا ہے ان میں اب تک صرف تین کو بیرون ملک علاج کے لیے وفاقی حکومت سے سفارش کی گئی ہے اب یہ علم نہیں کہ گیارہ ماہ کے بعد بھی انھیں بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کب کیا جاتا ہے؟
ان تمام 132 بچوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے کیوںکہ ان میں سے کئی بچے یرقان اور خارش کا شکار ہیں، ان کا پاکستان کے مختلف اسپتالوں میں علاج بھی کیا گیا لیکن انھیں افاقہ نہیں ہوا۔ان غازیوں میں سات قابل فخر اساتذہ بھی شامل ہیں اور المیہ تو یہ بھی ہے کہ ایک بچہ اپنے اخراجات پر دبئی علاج کے لیے گیا اب اسے اسپتال والوں نے مزید تین بار بلانے کا کہا ہے لیکن اس کا والد حسرت و یاس کی تصویر بنا سوچ رہا ہے کہ ساری جمع پونجی تو خرچ ہو چکی اب مزید تین بار وہ علاج کی رقم کہاں سے دے گا، میں قطعی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جنھیں بے رحم دہشت گرد نہ مار سکے جنہوں نے ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت کے لیے گولیوں کے سامنے اپنے سینے کھول کر رکھ دیے، آخر ہم ان بچوں کو کیوں موت کی وادیوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں؟جن کی قربانیوں سے ساری سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف متحد ہو گئیں ،دہشت گردوں کو بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا تو پھر کیوں ہم آنکھیں بند کرنے لگے ہیں؟
عجیب تماشہ ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا،موٹر وے اور بلند و بالا عمارتیں اپنی جگہ لیکن ان بچوں کو علاج کے لیے بھجوانے کا بندوبست بھی تو حکومت وقت کی ذمے داری ہے ،وفاقی اور صوبائی حکومت کسی بھی طور یہ ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتیں ،یوں لگتا ہے کہ سولہ دسمبر تک کے اگلے کالم انھی حوالوں سے ہوں گے کہ شاید کسی کو تو میرے شہر بے مثال کے عظیم اور قابل فخر بچوں کی زندگیاں بچانے کا خیال آ ہی جائے!