کار کے اندر سگریٹ نوشی آلودگی میں خطرناک اضافہ کرتی ہے

والدین کو سکھانا چاہیے کہ وہ دوران سفر گاڑی کے اندر سگریٹ نوشی نہ کریں


Muhammad Akhtar October 26, 2012
جن گاڑیوں میں بچے بیٹھے ہوتے ہیں ان میں سگریٹ نوشی کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جانی چاہئے۔ فوٹو: فائل

سائنسدانوں نے ایک حالیہ سٹڈی میں قرار دیا ہے کہ اگر کار کے اندر سگریٹ نوشی کی جائے تو آلودگی اپنی مقررہ حد سے خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے چاہے کار کے شیشے کھلے ہوں یا اس کا ائیرکنڈیشنڈ چل رہا۔کار کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھے بچے اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

جبکہ اگلی سیٹ پر بیٹھا کوئی فرد سگریٹ نوشی کررہا ہو، سکاٹش سائنسدانوں کی ٹیم نے اس سلسلے میں کار کے سفر کے دوران سگریٹ نوشی کے حوالے سے 85 ریڈنگز لیں تو آلودگی کا ریکارڈ عالمی ادارہ صحت کی مقرر کردہ حد سے بڑھا ہوا پایا گیا۔برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اس سٹڈی کے مطابق کار کے اندر ہر قسم کی تمباکو نوشی پر پابندی ہونی چاہیے۔فی زمانہ برطانیہ اور دیگر ملکوں میں کار کے اندر سگریٹ نوشی کی اجازت ہے۔یونیورسٹی آف ایبرڈین کے ڈاکٹر سین سامپل کا کہنا ہے کہ بچے خاص طورپر آسان شکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کی سانس کی رفتار تیز ہوتی ہے اور قوت مدافعت پوری طرح مکمل نہیں ہوتی اور وہ یہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے کہ سگریٹ کے دھوئیں سے دور ہٹ جائیں۔

محققین نے سگریٹ نوشی کے دوران کار کے اندر پیدا ہونے والی آلودگی کا جائزہ لینے کے لیے گاڑیوں کی پچھلی سیٹوں پر ایک آلہ منسلک کردیا جس کے بعد آلودگی کو چیک کیا گیا تو وہ عالمی ادارہ صحت کی مقرر حد سے تین گنا زیادہ پائی گئی جو کہ بہت زیادہ ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ہمارا یقین ہے کہ جن گاڑیوں میں بچے بیٹھے ہوتے ہیں ، ان میں سگریٹ نوشی کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جانی چاہیے۔

یہاں تک کہ اگر کار ڈرائیور صرف ایک سگریٹ پیتا ہے اور گاڑی کے شیشے کھلے ہوتے ہیں تو تب بھی سفر کے دوران سگریٹ سے خارج ہونیوالے دھوئیں سے جو آلودگی پیدا ہوتی ہے وہ مقرر کردہ حد سے زیادہ ہوتی ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔ دوسری جانب اس حوالے سے قانون سازی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ والدین کو سکھانا چاہیے کہ وہ دوران سفر گاڑی کے اندر سگریٹ نوشی نہ کریں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکیں اور وہ ایسا کرتے بھی ہیں لہذا اس حوالے سے مزید قانون سازی کی ضرورت نہیں۔

سگریٹ نوشوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیم کے ڈائریکٹر سائمن کلارک کے مطابق ہم لوگوں کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کرتے کہ وہ کار کے اندر سگریٹ نوشی کریں جبکہ اندر بچے بھی موجود ہوں تاہم ہم گاڑیوں میں سگریٹ نوشی کے خلاف کسی قانون سازی کی شدت سے مخالفت کریں گے۔ان کا کہنا ہے کہ تحقیق کے مطابق چوراسی فیصد افراد بچوں کی موجودگی کی صورت میں گاڑی میں سگریٹ نوشی نہیں کرتے اس لیے قانون سازی مناسب نہیں ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ شہری حقوق کے حوالے سے یہ ایک ممنوعہ علاقے میں داخلہ ہوگا کیونکہ اکثر لوگ گاڑی کے اندر کی جگہ کو اپنی نجی ملکیت سمجھتے ہیں ۔

اگر آپ گاڑی کے اندر والدین کی سگریٹ نوشی پر پابندی لگاتے ہیں تو کل آپ گھر کے اندر بھی والدین کی سگریٹ نوشی پر پابندی لگائیں گے۔تاہم رائل کالج آف فزیشن کے پروفیسر جان برٹن کا کہنا ہے کہ بچوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ اعدادوشمار کے مطابق ہرسال ایسے کم عمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جو سیکنڈ ہینڈ سموک سے متاثر ہوتے ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی کی مخالفت اس لیے بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ قانون سازی کا مقصد نیک نیتی اور آنے والی نسل کا تحفظ ہے۔ ایساصرف عوامی صحت کے تحفظ کے لیے کیا جائے گا جس پر شاید کسی کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

عوامی صحت کے لیے کام کرنیوالی ایک این جی او ''اونلی ہیلتھ '' کے چیف آرگنائزر سینٹ سیزر کا کہنا تھا کہ شہری آزادیاں اپنی جگہ اہم ہیں لیکن صحت سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہوسکتی۔انہوں نے کہا کہ صحت مند نسل ہی آگے چل کر اپنے حقوق کا تحفظ کرسکتی ہے اس لیے ہمیں اسی پر فوکس رکھنا چاہیے۔ اگر اعدادوشمار اور تحقیق سے یہ چیز سامنے آرہی ہے کہ گاڑیوں میں سگریٹ نوشی کی وجہ سے فالج ، ہارٹ اٹیک اور کینسر کے واقعات بڑھ رہے ہیں تو قانون سازی کو شہری آزادیوں پر فوقیت دی جانی چاہیے۔

فالج سے دوچار شہریوں کے اعدادوشمار میں اضافے کو دیکھ کر با آسانی کہا جاسکتا ہے کہ ہم سے کہیں نہ کہیں غلطی ہورہی ہے۔فالج کا حملہ اچانک ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات تاعمر قائم رہتے ہیں اور بہت سے لوگ ہمیشہ کے لیے معذوری سے دوچار ہوجاتے ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں ایسے ممالک اور خطوں میں کم عمر افراد میں فالج اور دل کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے جہاں سگریٹ نوشی کے حوالے سے واضح قانون سازی موجود نہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ان کی تعداد گھٹ رہی ہے۔امریکہ میں گذشتہ عشرے کے دوران فالج کے واقعات میں کمی ہوئی ہے ۔اس کے علاوہ برطانیہ میں بھی گذشتہ بیس سال کے دوران فالج کے واقعا ت میں چالیس فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔اس کمی کی وجہ ایک تو لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی میں اضافہ ، تشخیص میں بہتری اور دوسرے سگریٹ نوشی کے خلاف واضح قانون سازی شامل ہے۔

سٹڈی کے مطابق امریکہ میں فالج کے واقعات کے حوالے سے جو تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ اب اس کا شکار ہونیوالے افراد کی عمر کم ہورہی ہے تاہم ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ سٹڈی کے نتائج کو احتیاط سے پرکھنے کی ضرورت ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن کے نیورالوجسٹ ڈاکٹر ڈیوڈ ویرنگ کا کہنا ہے کہ فالج کو عام طور پر بوڑھے افراد کی بیماری سمجھا جاتاہے تاہم مذکورہ سٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ اب نوجوان بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ان کے مطابق اگر سٹڈی کے نتائج درست ہیں تو اگر ان کا اطلاق دیگر آبادی پر بھی ہوتا ہے تو یہ بہت اہم ہوسکتے ہیں کیونکہ نوجوان افراد میں فالج کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور برطانیہ میں طرز زندگی لگ بھگ ایک جیسا ہے جس کا مطلب ہے کہ دونوں ملکوں کو متوازی ٹرینڈز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور مستقبل میں صحت کے حوالے سے ایک بڑا بحران جنم لے سکتا ہے لہذا ان ملکوں میں سگریٹ نوشی کے حوالے سے مزید سخت قانون سازی اور پابندیوں کی ضرورت ہے کیونکہ سگریٹ نوشی فالج کی اہم وجوہات میں شامل ہے۔

بُری خبریں خواتین کی دبائو سے نمٹنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں

اسٹڈی کے مطابق ایسی خبریں جن میں قتل وغارت کے واقعات یا دیگر جرائم اور منفی نوعیت کی اطلاع ہو، خواتین پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں اور ان میں دبائو سے بھرپور ماحول سے نمٹنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں۔ سٹڈی کے مطابق اگر خواتین اخبار میں بْری خبریں پڑھیں تو ان میں مردوں کے مقابلے میں دبائو کو جنم دینے والے ہارمون زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ ساٹھ افراد پر کی گئی تحقیق جو کہ ایک جریدے میں شائع ہوئی،کے مطابق مردوں میں یہ دبائو عورتوں کے مقابلے میں کہیں کم ہوتا ہے۔سٹڈی سے دونوں جنس کے انسانوں میں موجود دلچسپ فرق واضح ہوتا ہے۔

کینیڈا میں کی گئی تحقیق کے سلسلے میں اخبارات کی منفی نوعیت کی خبریں جیسے قتل و دیگر جرائم اور عام خبروں جیسے فلم کے پریمئیر وغیرہ، کو جمع کیا گیا۔مرد و خواتین کو دونوں اقسام کی خبریں پڑھنے کے لیے دی گئیں اوراس کے بعد ان پر مرتب ہونے والے دبائو کے ٹیسٹ کیے گئے۔سٹڈی کے دوران ان کے دبائو کے ہارمونز کورٹیسول کو ٹیسٹ کیاجاتا رہا۔

محققین میں شامل یونیورسٹی آف مانٹریال کی ایک محقق میری فرانس میرین کے بقول اگرچہ دبائو بڑھنے کی واحد وجہ اخباری خبریں نہیں تاہم خواتین میں ان کا کردار خاصا واضح تھا۔مردوں میں ان خبروں سے کورٹیسول کی سطح میں اضافہ نہ ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ خبروں سے بچنا مشکل ہے کیونکہ خبریں مہیا کرنے والے میڈیا ذرائع کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے اور تمام خبریں بری ہوں تو یقینی بات ہے کہ ان کا کچھ نہ کچھ اثر ہوگا۔سائنس دانوں کے مطابق فطری طور پر خواتین میں یہ صلاحیت زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو درپیش خطرات سے آگاہ ہوں جو کہ دبائو کے لیے ان کے ردعمل کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔

کنگز کالج لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف سائیکاٹری کے پروفیسر ٹیری موفٹ کا کہنا ہے کہ سیلف رپورٹ سٹڈیز کے مطابق خواتین کا ماننا ہے کہ وہ مردوں کے مقابلے میں دبائو کوزیادہ لیتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ سٹڈی دبائو کے ہارمون کے حوالے سے دلچسپ اور نئے شواہد پیش کرتی ہے اوراس کے نتیجے میں ماہرین کو دبائو کے حوالے سے مرد وخواتین کے بارے میں ایک معمے کاسامنا ہے۔گروپ کے طورپر خواتین دبائو کے حوالے سے زیادہ ری ایکٹو ہوتی ہیں ۔دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹڈی کی سطح بہت چھوٹی ہے اوراسے مزید قابل اعتماد بنانے کے لیے اور بڑے پیمانے پر سٹڈی کرنا ہوگی۔

چاکلیٹ کھائیے ، نوبل انعام جیتئے

چاکلیٹ کے حوالے سے آپ نے بہت سی ریسرچ پڑھی ہوں گی لیکن چاکلیٹ کو اب تک سب سے زیادہ داد جس ریسرچ سے ملی ہے وہ دنیا کے معتبر ترین طبی جریدے ''نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسن'' میں شائع ہوئی ہے۔اس ریسرچ کے مطابق نوبل انعام کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ جن ملکوں میں جتنی زیادہ چاکلیٹ کھائی جاتی ہیں ، ان ملکوں کے لوگوں نے سب سے زیادہ نوبل انعام جیتے ہیں۔یہ نتیجہ ان ملکوں کی آبادی اور نوبل انعامات کی تعداد کے تناسب سے قائم کیا گیا ہے۔تحقیق کے مطابق جن ملکوں میں سب سے زیادہ چاکلیٹ کھائی جاتی ہے انہوں نے سب سے زیادہ نوبل انعامات حاصل کیے۔تحقیق کے مطابق چاکلیٹ میں ایسے مادے پائے جاتے ہیں جو ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں خاص طورپر ڈارک چاکلیٹ تو اس حوالے سے بہت فائدے مند ہے۔

چاکلیٹ کھانے اور اپنی آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ نوبل انعام جیتنے والا ملک سوئیٹرزلینڈ ہے۔ اس کے بعد سویڈن اور پھر ڈنمارک کا نمبر ہے۔امریکہ جس نے یوں تو سب سے زیادہ نوبل انعام جیتے ہیں لیکن چاکلیٹ کھانے اور آبادی کے اعتبار سے یہ ملک درمیان میں کہیں جاکر آتا ہے۔تجزیہ کار ڈاکٹر فرانز میسرلی کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے اس معاملے میں آگے نکلنا ہے تو امریکی قوم کو چاکلیٹ کھانے کی مقدار سالانہ 275 ملین پونڈ تک لے جانا ہوگی۔

انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ سوئٹزرلینڈ کے لوگ جتنی چاکلیٹ کھاتے ہیں وہ حیران کن ہے۔سوئٹزرلینڈ میں اوسطاً ہر مرد عورت اور بچہ سالانہ چاکلیٹ کے 120 بار کھاتا ہے اور ہر بار تین اونس کا ہوتا ہے۔میسرلی نے مزید کہا کہ انہوں نے نتیجہ اعدادوشمار کی بنیاد پر قائم کیا ہے اوراس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

نوبل فائونڈیشن کا دفتر سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ہے جو ہر سال مختلف شعبوں میں نوبل انعامات کا اعلان کرتی ہے۔یہ بات ابھی تک واضح نہیں کہ چاکلیٹ کھانے اور نوبل انعامات حاصل کرنے کے درمیان تعلق ہے تاہم نوبل انعام حاصل کرنے والی شخصیات نے اس ریسرچ کو سراہا ہے۔

2001ء میں طبعیات کا نوبل انعام جیتنے والے امریکی ایرک کورنل نے کہا کہ وہ اپنے نوبل انعام کا کریڈٹ چاکلیٹ کو ہی دیں گے جو وہ بہت مقدار میں کھاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک چاکلیٹ آپ کو بیوقوف بناتی ہے جبکہ ڈارک چاکلیٹ ذہانت میں اضافہ کرتی ہے۔

آڑو کے غذائی فائدے

قارئین آڑویقینا ً آپ کے لیے بہت مرغوب پھل ہوگا لیکن شاید آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ یہ کس قدر مفید پھل ہے اور اس میں کون کون سے وٹامنز پائے جاتے ہیں۔آڑو اصل میں چین کا پھل ہے جہاں سے یہ زمانہ قدیم میں شاہراہ ریشم کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلا۔آئیے آپ کو اس کے غذائی فوائد کے بارے میں بتاتے ہیں:

٭آڑو جہاں انتہائی لذیذ پھل ہے وہاں اس میں کیلوریز کی مقدار بہت کم ہے جبکہ اس میں حیوانی چکنائی کے خواص رکھنے والی سیرشدہ یا سیچوریٹڈ چکنائی بھی نہیں ہوتی۔سو گرام آڑو میں صرف انتالیس کیلوریز پائی جاتی ہیںتاہم یہ مختلف صحت بخش وٹامنز اور معدن سے بھرپور ہوتے ہیں۔

٭ یہ انٹی آکسیڈنٹ سے بھرپور پھل ہے۔سو گرام آڑو میں 1814 ٹی ای انٹی آکسیڈنٹ مادے پائے جاتے ہیں۔

٭ تازہ آڑو میں معتدل مقدار میں انٹی آکسیڈنٹ اور وٹامن سی ہوتا ہے۔وٹامن سی میں انٹی آکسیڈنٹ اثرات پائے جاتے ہیں اور یہ جسم کے کئی افعال کے لیے ضروری ہوتا ہے جیسے کہ connective tissue synthesis وغیرہ۔جن خوراکوں میں وٹامن سی بکثرت پایا جاتا ہے، وہ جسم کو انفیکشن کے خلاف بہتر مزاحمت کے لیے تیار کرتی ہیں اور نقصان دہ فری ریڈیکلز سے بچاتی ہیں۔

٭ تازہ آڑو میں معتدل مقدار میں وٹامن اے اور بیٹا کیروٹین بھی ہوتا ہے۔بیٹا کیروٹین ایک پرو وٹامن ہے جو وٹامن اے کو جسم کا جزو بدن بنانے میں مدد دیتا ہے۔ وٹامن اے بصارت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔یہ صحت مند جلد کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔وٹامن اے سے بھرپور غذائوں کا استعمال پھیپھڑوں اور منہ کے کینسر سے بچنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

٭ آڑو دیگر کئی وٹامنز جیسے پوٹاشیم ، فلورائیڈ اور آئرن سے بھی بھرپور ہوتا ہے۔آئرن خون کے سرخ خلیات کی تشکیل کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ فلورائیڈ ہڈیوں اور دانتوں کا بھی ایک اہم جزو ہے اور دانتوں کو بھی بیماریوں سے بچاتا ہے جبکہ پوٹاشیم خلیات اور جسمانی مائعات کا اہم جزو ہوتا ہے اور دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر کوریگولیٹ کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں