سندھ بلدیاتی الیکشن میں پیپلزپارٹی کی فتح
اندرون سندھ پیپلزپارٹی کا گڑھ ہے جہاں کے عوام بھٹو خاندان پر جان نثار کرنے والوں میں سے ہے
PESHAWAR:
بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ تقریباً خیریت سے گزر گیا، اِکا دُکا واقعات تو ہوئے مگر اﷲ کا شکر کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ سندھ کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر انتخابی نتائج پر سب کی نظر تھی، کچھ سیاسی حلقے انتہائی حساس قرار دیے گئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ یہاں انتخابات کو سیکیورٹی رسک قرار دیا جارہاتھا، اندیشہ تھا کہ انتخابات کو ملتوی کردیا جائے مگر الیکشن کمیشن نے فوج اور انتظامیہ کی مدد سے اس مرحلے سے گزرنا بہتر جانا، بلدیاتی انتخاب کے ذریعے لوکل گورنمنٹ کے قیام کا مقصد اصل میں یہ ہوتا ہے کہ اقتدارکو نچلی سطح پر منتقل کرکے عوام الناس کو اس کے ثمرات سے فیض یاب کیا جاسکے مگر ہوتا اس کے برعکس ہے، برادریوں اور علاقائی تعلقات اور حکومتی طاقت کے بل بوتے پر ان انتخابات کی ہار جیت کو ذاتی انا کا مسئلہ بنالیا جاتا ہے۔
اندرون سندھ پیپلزپارٹی کا گڑھ ہے جہاں کے عوام بھٹو خاندان پر جان نثار کرنے والوں میں سے ہے اور اندھی عقیدت کی عمدہ مثال ہیں، مگر اس اندھی عقیدت میں کچھ عرصے سے ایک روزن کھل رہا تھا اور محسوس ہورہاتھا کہ اندرون سندھ پارٹی کی گرفت مرکز کی طرح کچھ کمزور ہوتی جارہی ہے اندرون خانہ اختلافات کے نتیجے میں ابھرنے والی بے چینی نے اس طرح پارٹی کی قیادت کو اپنی گرفت میں لیا کہ ان کا اعتماد اس حوالے سے متزلزل ہوگیا کہ جہاں ان کو اپنی جیت کے نتائج کی امید تھی وہاں بھی وہ اپنے دفاع کے لیے جدوجہد کرتے نظر آئے کہ کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اندرون خانہ کیا معاملات چل رہے ہیں ۔
کیوں کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے وفاقی حکومتی مشنری کو ایک الائنس کی صورت میںساتھ ملانے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو بدین میں زک اٹھانی پڑی اور 19 کی 19 سیٹیں مرزا کے کھاتے میں آگئیں، ذوالفقار مرزا نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے اپنا الگ کردار ادا کیا مگر مزے کی اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ بھٹو کا نعرہ انھیں بھی لگانا پڑا اور ایسے ووٹرز جو آصف زرداری سے ناخوش تھے انھیں ہمنوا بنانے میں اس ہی نعرے نے سیاسی کردار ادا کیا۔
آج کا اندرون سندھ کا ووٹر ابھی بھی سادہ اور معصوم ہے وہ ان وڈیروں، جاگیرداروں کی ذاتی اناکی جنگ میں نہ چاہتے ہوئے بھی حصہ دار بن جاتا ہے اور یہ سوال کرنے کی جرأت نہیں کرپاتا کہ جناب اگر آصف زرداری اور پیپلزپارٹی سے اتنا ہی اصولی اختلاف ہے تو آپ کافی عرصے ان کا حصہ کیوں بنے اور اگر اصولوں کی وجہ سے علیحدگی اختیار کی تو پھر اپنے فیملی ممبر سے استعفیٰ کیوں نہ دلوایا، جن لوگوں کے ساتھ ان کے اپنے گھروالے ہی ہمنوا نہیں بن سکے اور وہ ابھی بھی حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں تو باقی لوگ کیسے ان کے ساتھ ہوسکتے ہیں، مگر ہمارا ووٹر سادہ بھی ہے اور مظلوم بھی، ان کو اپنے حقوق سے آگاہی ہی نہیں ہے وہ صرف اشاروں پر چلتا اور اس کے نتیجے میں اپنی رائے نہیں بلکہ حکم کا غلام ہے کہ جس طرف اشارے کا حکم ہوجائے رائے بھی ادھر منتقل ہوجاتی ہے۔
ویسے اس انتخابی مرحلے میں ایک چیز یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ اکثر جگہوں پر پیپلزپارٹی کے لوگ روایتی تیزی دکھانے سے پرہیز کرتے نظر آئے اور سیاسی حکمت عملی کے طور پر خاموشی، رواداری سے کام لینے پر مجبور ہوگئے کیوں کہ بدین، گولارچی، ٹنڈو باگو وغیرہ میں ٹیم ورک کا فقدان تھا، پولنگ ایجنٹس مقامی طور پر دستیاب نہیں تھے۔
اس لیے کراچی کی ٹیم خصوصاً خواتین ونگ کو استعمال کرنا پڑا یہی وجہ ہے کہ صوبائی ممبر اسمبلی شمیم ممتا کافی متحرک اور نمایاں رہیں، انھوں نے اپنی ٹیم جس میں منیرہ شاکر، شمع باجی جیسی شخصیات شامل تھیں اور کراچی کے عہدیداران جن میں سر فہرست شاہدہ یاسمین، سدرہ وغیرہ شامل تھیں، پارٹی کو مضبوط پوزیشن دلانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ گولارچی کے علاقے ڈئبی وارڈ نمبر4 ملکوٹی میں تو عجیب صورتحال دیکھی گئی کہ پیپلزپارٹی کا حلقہ موجود ہونے کے باوجود جہاں 90فی صد ووٹر اس کا تھا پارٹی کے مقامی عہدیداروں نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا وہ بھی ایک نیا نظارہ تھا کیوں کہ ووٹنگ کی رفتار سست کی جارہی تھی۔
جس طرح ایک پولنگ ایجنٹ جوکہ مرکزی حکومت کی نمایندہ تھی اور صوبائی سطح پر اپنے مقامی نمایندے کو سپورٹ کررہی تھی اور سب پر حاوی تھیں مگر حیرت انگیز طور پر مقامی پیپلزپارٹی کے لوگوں نے جس رواداری کا ثبوت دیا یہ ایک اچھی روایت ہے اگر اس طرح کے دو چار مظاہرے حساس جگہوں پر دیکھنے میں آجائیں تو ایک نئی تاریخ رقم ہوسکتی ہے۔
جس طرح کچھ عرصے سے پیپلزپارٹی کی گرفت کمزور ہوتی جارہی تھی اور پی پی کے جیالوں اور قیادت کو خدشہ تھا کہ اندرون سندھ بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے تو ان نتائج سے قیادت اور جیالوں کو کافی حوصلہ ملا ہے مگر اس حوصلے کو جِلا اسی صورت میں مل سکتی ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کے لیے کام کریں، سارا دن بھوک پیاس میں دھوپ میں کھڑے ہوکر وہ اپنا قیمتی ووٹ دے کر ان کو جتوارہے ہیں تو ان کا حق ہے کہ ان کو سہولیات فراہم کی جائیں ۔
سندھ کے دور افتادہ علاقوں کو شہروں سے ملایا جائے مقامی سطح پر ایسے منصوبوں کا آغاز کیا جائے جو مقامی لوگوں کے لیے باران رحمت ثابت ہوں، ان کے مسائل حل ہوں تو ہی پیپلزپارٹی مرکز میں بھی اپنی فتح کو یقینی بناسکتی ہے۔ لوکل گورنمنٹ ایک ایسی راہ ہے کہ درست اور عوامی سطح پر کیے گئے ایسے فیصلوں کے ذریعے جن سے عوام کو بھرپور فائدہ پہنچے دوبارہ مرکز میں واپس آیا جاسکتا ہے۔