سیاسی تشکیلات کے مسائل
سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی نظام کے قیام کے لیے ہونے والے انتخابات کے دو مراحل طے ہوگئے ہیں
سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی نظام کے قیام کے لیے ہونے والے انتخابات کے دو مراحل طے ہوگئے ہیں۔ تیسرا اور آخری مرحلہ بھی دسمبر کے پہلے ہفتے میں مکمل ہوجائے گا۔ ان دو مراحل میں ووٹنگ کا وہی رجحان دیکھنے میں آیا جو2013ء کے عام انتخابات کے دوران سامنے آیا تھا۔ یعنی عوام نے زیادہ تر انھی جماعتوں کو بلدیاتی نظام کے لیے اپنا مینڈیٹ دیا،جنھیں وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حق نمایندگی دے چکے تھے۔
اسلیے یہ توقع کی جارہی ہے کہ تیسرے مرحلہ میں بھی یہی رجحان برقرار رہے گا۔ اس سے قبل بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی کم و بیش ایسا ہی رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دو برسوں کے دوران عوام کی سوچ اور رویوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ووٹر کی اس روش اور رویے نے بہت سے سوالات بھی پیدا کیے ہیں، جن پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
جو سیاسی منظر نامہ 2013ء کے بعد سے ہمارے سامنے آیا ہے، اس کے مطابق ماضی کی اہم ترین قومی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی سکڑ کر دیہی سندھ تک محدود ہوچکی ہے۔ مسلم لیگ (نواز) ملک کے دیگر صوبوں میں چھوٹے موٹے حلقے (Pockets)ضرور رکھتی ہے، مگر اس کی مقبولیت کا اصل مرکز پنجاب ہے۔
تحریک انصاف کا اصل اثر و نفوذ خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب میں ہے جب کہ سندھ اور بلوچستان میں اس کا وجود محض واجبی سا ہے۔ دوسری طرف سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی مقبولیت کو کم کرنے اور تحریک انصاف کو اربن سندھ میں مسلط کرنے میں ابھی تک کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔ چنانچہ جو سیاسی منظر نامہ پورے ملک میں2013ء میں تشکیل پایا تھا، تقریباً وہی بلدیاتی انتخابات میں بھی نظر آرہا ہے۔
اس سیاسی منظر نامے کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیں تو بہت سے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں جو روایتی ذہن رکھنے والی قوتوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ فیصلہ ساز قوتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ طاقت کے زعم میں انھوں نے ہمیشہ غلط فیصلے کیے ہیں جن کا خمیازہ پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑا ہے۔ زمینی حقائق سے ماورا فیصلوں ہی کا نتیجہ تھا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔ سندھ کئی دہائیوں سے بے چینی کا شکار چلا آرہا ہے۔جب کہ بلوچستان میں ہر چند برس بعد شورشیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔
آج تھمی ہوئی ہوا کو طوفان کا ٹل جانا سمجھ کر بغلیں بجائی جارہی ہیں حالانکہ یہ سکوت عارضی معلوم ہورہا ہے کیونکہ معاملہ سیاسی حقوق کی فراہمی سے جڑا ہوا ہے جو ریاست دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ جب تک یہ حقوق نہیں ملتے مستقبل اور پائیدار امن کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یاد رہے کہ ایوب خان بھی بوڑھے نوروز خان کے بیٹوں کو پھانسی پر لٹکا کر خوش ہوگئے تھے کہ بلوچستان پرقابو پالیا۔ بھٹو مرحوم نے بھی میر غوث بخش بزنجو مرحوم اور سردار عطا اللہ مینگل مرحوم کی حکومت ختم کرکے یہ سمجھ لیا تھا کہ بلوچستان ان کی مٹھی میں آ گیا ہے ۔
پرویزمشرف بھی نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد مطمئن ہوگئے تھے مگر یہ تمام تصورات سراب ثابت ہوئے۔جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو مسلم لیگ(ن) کی منتخب حکومت کو میڈیا ٹرائیل کے ذریعہ ختم کرکے اس جگہ تحریک انصاف کو مسلط کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ عوام پروپیگنڈے کے بجائے اپنی اجتماعی دانش پر اعتماد کرتے ہیں ۔ پنجاب کا سرمایہ دار اور ابھرتی ہوئی مڈل کلاس تحریک انصاف پر ابھی مکمل اعتماد کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف میں واضح پالیسی اور Persistenceکا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ اس کا تنظیمی ڈھانچہ بھی خاصا کمزور ہے۔ اس کے علاوہ دو برسوں کے دوران خیبر پختونخوا میں اس کی کارکردگی بھی کوئی مثالی نہیں رہی ہے۔ بہر حال یہ طے ہے کہ آنے والے برسوں کے دوران تحریک انصاف کی سیاست کا اصل مرکز و محور پنجاب ہی ہوگا جو مسلم لیگ(ن) کی پریشانی کا اصل سبب ہے۔
اب جہاں تک سندھ کا تعلق ہے، تو یہاں دیہی اور شہری کی تفریق کو ختم کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی بلکہ فیصلہ ساز قوتوں اور سیاسی جماعتوں دونوں ہی نے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر دیہی اور شہری کی تفریق کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں انتظامی کے ساتھ سیاسیStatus quo بھی برقرار ہے۔
کسی قومی یا قوم پرست سیاسی جماعت میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کا متبادل بن سکے۔ سندھی عوام اپنے اجتماعی مفادات کی خاطر پیپلز پارٹی کے سوا کسی اور جماعت پر اعتماد کرنے کے لیے فی الحال آمادہ نہیں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس طرح وفاق سندھ کے وسائل کا بے جا تصرف کر رہا ہے اور جس انداز میںفیصلہ ساز قوت سندھ کے منتخب نمایندوں کو ہدفِ ملامت بنا رہی ہے، یہ رویہ سندھی عوام کو پیپلز پارٹی سے جڑے رہنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔
دوری طرف اربن سندھ میں بھیبعض اقدامات کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ریاستی منصوبہ ساز اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر سیاسی قیادت کو پنجاب منتقل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ اربن سندھ میں تحریک انصاف کو مسلط کیا جائے۔
تاکہ بظاہر ہر سطح پر مقامی لوگ منتخب ہوکر آئیں لیکن عمران خان کی قیادت میں کراچی کی ڈوریاں پنجاب سے ہلائی جائیں چونکہ تحریک انصاف میں اختلاف رائے کا کلچر نہیں ہے، اسلیے کوئی مقامی منتخب نمایندہ شہر کے مفاد میں لب کشائی کی جسارت نہیں کرسکے گا اور تمام فیصلے اسلام آباد کیے جانے لگیں گے۔
اس جماعت میں عدم برداشت کی دو واضح مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جسٹس وجہیہ الدین صدیقی جیسی جید شخصیت کو اختلاف کرنے پر دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کرپھینک دیا گیا۔ دوسری مثال ریحام خان کی ہے، جنھیں پارٹی سیاست میں دلچسپی لینے پر طلاق دیدی گئی۔ تحریک انصاف کا یہ اندرونی ماحول اسٹبلشمنٹ کو سوٹ کرتا ہے۔
صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن کی وجہ سے گو کہ بعض جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے۔ لیکن جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، اس سے اس تاثر کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ اس کا اصل مقاصد ایک مخصوص کمیونٹی میں مقبولیت رکھنے والی سیاسی جماعت کو نشانہ بناکر ختم کرنا ہے۔
ساتھ ہی کراچی کے شہریوں میں یہ سوچ بھی شدت کے ساتھ فروغ پا رہی ہے کہ بعض حلقے بظاہر کراچی کو منی (Mini) پاکستان کہتے ہیں، مگر اصل میں وہ اس شہر کو (Money) پاکستان سمجھتے ہوئے اس کے وسائل پر قبضہ جمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ عوام یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ کراچی میں جاری کھیل ایوب خان کی شروع کردی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔جس کی وجہ سے کراچی سمیت اربن سندھ میں عدم تحفظ کا احساس تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہاہے۔
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں کارروائیوں کے ذریعہ لایا گیا امن وامان دیر پا نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لیے بعض اہم سیاسی و انتظامی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ایک میگا سٹی کا انتظام کسی چھوٹے شہر یا قصبے کے طور پر نہیں چلایا جاسکتا جیسا کہ کراچی میں کیا جارہا ہے۔
دنیا بھر میں اس قسم کے شہروں کے لیے ایک مکمل بااختیار مقامی انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں بعض مصلحتوں اور مخصوص سیاسی مقاصد کی خاطر کراچی کے لیے ایک بااختیار انتظامی ڈھانچہ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر چند برس بعضآپریشن یا کاروائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس طرح نہ تو پائیدار امن قائم ہوتا ہے اور نہ ہی مسائل کے حل کی سمت کوئی ٹھوس پیش رفت ہو پاتی ہے۔
درج بالا صورتحال کی وجہ سے پاکستان میں وقت گذرنے کے ساتھ قومی سیاست کا تصور معدوم ہوچکا ہے۔ اس کا بیج 1985میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعہ بویاگیا تھا جو اب تناور درخت بن چکا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو چاروں صوبوں کے عوام کے تمام طبقات اور کمیونٹیز میں کم وبیش یکساں قبولیت رکھتی ہو۔ ہر جماعت مخصوص صوبوں یا علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
غالباً منصوبہ ساز قوت کی بھی یہی خواہش ہے کہ کوئی جماعت ملک گیر قبولیت حاصل نہ کرنے پائے بلکہ اس کی شناخت علاقائی ہو ۔اس طرح وفاق میں قائم ہونے والی حکومت اس کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہوگی ۔یہ سوچ کس حد تک قابل عمل ہے اور ملک کے مستقبل پر اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے؟ ریاستی منصوبہ سازوں نے کبھی اس پہلو پر غور نہیں کیا ہے جس کا خمیازہ بہر حال پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں اور شاید طویل عرصہ تک بھگتتے رہیں۔
لہٰذایہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علاقائی بنیادوں پر سیاست مختلف کمیونٹیز کی وقتی ضرورت تو ضرور ہوسکتی ہے، مگر پائیدار قومی منصوبہ سازی کے لیے سازگار نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کی جگہ دوسری سیاسی جماعت کو جبراً مسلط کرنے اور قیادت کو کہیں اورمنتقل کرنے کا عمل بھی قومی مفاد میں سود مند نہیں ہوتا۔ ا س لیے غیر جمہوری قوت کو چاہیے کہ وہ سیاسی عمل میں مداخلت سے گریز کرے اور عوام کو آزادانہ اپنے فیصلے کرنے دے۔ اسی طرح ایک بہتر اور پائیدار سیاسی نظام تشکیل پانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔