ایوب خان کے گولڈن بال

جب ملک کی اتنی بڑی جامعہ میں تعلیم اور تحقیق کا یہ عالَم ہو تو پھر اور کسی سے کیا شکوہ۔


Rizwan Tahir Mubeen November 27, 2015
جامعہ کو چھوڑئیے، عام زندگی میں بھی کہا جاتا ہے کہ ’’جب سے فلاں کے کرتوت دیکھے ہیں تو شکل سے بھی نفرت ہوگئی ہے، بھلا کوئی تو بتائیے کہ کارکردگی کا شکل سے کیا تعلق؟ فوٹو :فائل

نئی شش ماہی کی پہلی کلاس، تحقیق پڑھانے والے استاد برہم ہیں کہ سوائے ایک دو کے کسی نے بھی گذشتہ شش ماہی میں صحیح جوابات نہیں دیئے، سرزنش سے بات شروع ہوئی کہ تحقیقی ذہن اور تحقیقی سوچ ہی نہیں، تذکرہ ہوا کہ متعلقہ مواد کا، موضوع آیا پاک امریکا سربراہی ملاقات، جیسے آج امریکی ہمیں گھانس نہیں ڈالتے، پہلے بڑی سیوا کرتے تھے، میری سماعت چوکنّا ہوئی۔

استاد نے تاریخ کا دریچہ کھولا، خاک میں اٹا یہ ورق پہلے آمر جنرل ایوب خان کا تھا، مدح سرائی شروع ہوئی تو میرے اندر جمع ہونے والی تلخی چہرے سے ابلنے لگی۔ صاحب، وہ امریکا گئے تو اتنا بڑا جلوس، ایسا قافلہ، اتنے شہریوں کی واہ واہ وغیرہ۔

ذکر بہرحال یہ حقیقت کا تھا، مگر وہ زمانہ ہی اور تھا اور پھر معمارِ پاکستان پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو چھوڑ کر قانون شکن کا انتخاب کوئی معمولی بات تو نہ تھی۔ میں نے معاملہ پی جانے کی کوشش کی، یہ بات دفنا ہی رہا تھا کہ تحقیق کے استاد محترم گویا ہوئے،
''فلاں امریکی صدر آئے ایوب خان سے ملنے، کراچی سے اُن کا قافلہ گذرا، میں بھی صدر کے علاقے میں ایک اخبار کی طرف سے وہاں موجود تھا، کیا شان دار منظر تھا اور ایوب خان جیسا آدمی''۔

یہاں پہنچ کر استادِ محترم کی کھلتی بانچھوں سے مسرت چھپائے نہ چھپتی تھی،
''کیا زبردست شخصیت تھی، یہ لمبا قد اور سرخ و سپید رنگت اور گولڈن بال۔۔۔!''

اسی لمحے میں نے سختی سے اپنے جذبات اور آزادیِ اظہار کی گردن کو مروڑنے کی کوشش کی، لیکن اِس کے باوجود زبان سے کچھ نہ کچھ بڑبڑاتا ہی رہا، اُن کی کمزور سماعت کو دوش کہ ان تک نہ پہنچ سکا۔

بھلا ہو ایک بھلے مانس کا، اگرچہ بولا تو وہ اس پر تھا کہ ہماری کلاس بچوں کی طرح فقط سنتی رہتی ہے، کچھ بولتی ہی نہیں، قصہ مختصر کہ استاد محترم نے ''ڈرپوک'' کلاس کو علی الاعلان دعوت اختلاف دے ڈالی۔

بس پھر کیا تھا۔ پیمانہِ صبر زور سے چھلک پڑا اور کہہ ڈالا ''مجھے آپ کی ایوب خان کی اس مدح سرائی سے سخت اختلاف ہے''۔ حد ہوگئی، باوجود اختلاف کو قبول کرنے کے، پھر اصرار نام نہاد معاشی ترقی کا، اتنا سرمایہ آیا اور اتنی صنعتیں، اختلاف آمر اول کے نین نقش کے قصیدے پڑھنے پر تھا کہ آپ ایک 60 سالہ جامعہ کے بلند ترین درجے کے طلباء سے محو کلام، اپنی عمر بھی جامعہ سے 10،12 سال زیادہ، موضوعِ سخن بھی تحقیقی سوچ اور موضوع سے متعلقہ مواد کا حصول۔

شراب پینے پر ان کی ٹوپی بابائے قوم نے ضبط کی اور تاکید بھی کی اس کے عزائم سیاسی ہیں، نظر رکھنا، مگر نوکر شاہی کے گٹھ جوڑ نے کام دکھا دیا، لیاقت علی خان کو ٹھکانے لگایا اور تباہی شروع ہوئی۔ فوج میں 2 انگریز جرنیلوں کے بعد پہلے مسلمان چیف کی برتری تو تھی ہی، جنوری 1951ء میں کمان سنبھالی، پھر لاہور کے فسادات کے بعد 1953ء کا محدود مارشل لاء دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی برطرفی اور پہلی قانون ساز اسمبلی کی تحلیل سمیت بہت سے اہم معاملات میں ان کا حصہ، 1954ء میں پہلے باوردی وزیر دفاع بن کے انہوں نے کاروبار حکومت میں باقاعدہ فوجی مداخلت کی بنیاد ڈالی اور اس کے بعد 1958ء کی پہلی فوجی سرکار نے خرابیوں کی بنیاد رکھی۔

ملک میں اس قانون شکنی کا بانی، جس نے بنگالیوں کی علیحدگی پر مہر ثبت کی، بلوچستان میں نفرت انگیزی کا آغاز کیا، سردار نوروز خان کو قرآن کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے اتارا اور ان کی جان لے لی۔

وہ ایوب خان، جس کے فرزند نے 1965ء میں فاطمہ جناح کی حمایت پر اہل کراچی کے آشیاں خاکستر کئے، ان کی لاشیں گرائیں، جس نے قائد کے شہر سے دارالحکومت کا اعزاز چھین لیا، اب ایسی ترقی اور کامیابی کا کیا شمار، جس کے بعد اس سے بدتر تباہی اور بربادی مقدر بن جائے۔ ''بنیادی جمہوریت'' سے نام نہاد دستور سازی اور صنعت کاری تک، سب ہی تو ناپائیدار تھا مگر گفتگو ان کے قد کاٹھ اور حسن و جمال پر، نشست اگر حُسن کی ہوتی تو حرج نہ تھا، نو آموز طلبا کی بیٹھک میں بھی ایسی باتوں کی کچھ گنجائش تھی، مگر اِبلاغ عامہ کے یہ طلبہ ایم فل کے لئے تیار کئے جا رہے ہیں۔ انتہا دیکھئیے کہ گفتگو طلباء کی غیر تحقیقی سوچ پر اُن کی مایوسی کا بیان، مگر اسی نشست میں یہ کیا ہوا؟ دلیل تو چھوڑئیے، اصول کے کسی بھی پیمانے سے کوسوں دور۔۔۔۔۔

جامعہ کو چھوڑئیے، عام زندگی میں بھی کہا جاتا ہے کہ ''جب سے فلاں کے کرتوت دیکھے ہیں تو شکل سے بھی نفرت ہوگئی ہے'' مگر شاید حیرت بھی محو حیرت ہو کہ غیر منطقیت کی ایسی پٹی بندھی ہے کہ کارکردگی کے بجائے غیر علمی منظر کشی کر رہے ہیں۔ اگر ایسے ہی حُسن پرست ہیں تو کچھ اور نہیں صحافت کے اِن طالب علموں کو آزادی اظہار سے جڑے ان کے سیاہ کارناموں پر ہی خبردار کرتے کہ دوسری طرف معاملہ اتنا خراب ہے، کیا کیجیے، جب اتنی بڑی جامعہ میں تعلیم اور تحقیق کا یہ عالَم ہو تو پھر اور کسی سے کیا شکوہ!
[poll id="794"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں