فیض صاحب کی بے پناہ مقبولیت کیوں اور کیسے

شاعر گزر گیا۔ اپنے پیچھے کتنی داستانیں چھوڑ گیا۔ جمیل الدین عالی کی موت ایک ہنگامہ خیز شخصیت کی موت ہے


Intezar Hussain November 27, 2015
[email protected]

شاعر گزر گیا۔ اپنے پیچھے کتنی داستانیں چھوڑ گیا۔ جمیل الدین عالی کی موت ایک ہنگامہ خیز شخصیت کی موت ہے۔ یہ سوچنا پڑے گا کہ پاکستانی ادب کی تاریخ میں ایسی ہنگامہ خیز شخصیت کوئی دوسری بھی گزری ہے۔

جمیل الدین عالی کا طلوع اولاً ایک شاعر کا طلوع تھا۔ اردو شاعری میں ایک نئی آواز کی گونج جس نے بہت جلدی عجب رنگ سے اپنا جادو جگایا کہ ایک جادو اور اس کے دو رنگ یا شاید تین۔ غزلیں' دوہے گیت۔ یہ جادو اس عہد کے نقاد محمد حسن عسکری کے سر پر چڑھ کر اس طرح بولا کہ ''عالی نئی نسل کے ان دو ڈھائی شاعروں میں سے ہیں جن کی نشو و نما کا میں بغور مطالعہ کر رہا ہوں''۔ ان دو ڈھائی شاعروں میں پہلی آواز ناصر کاظمی کی تھی جس کے بارے میں عسکری صاحب نے خبر دی کہ اب وہ شاعر سامنے آیا ہے جس کی غزل میں آج کے عہد کی خوں ریزی اور ہجرت کے المناک سانحہ نے تخلیقی تجربہ میں ڈھل کر اپنی نمود کی ہے۔ بس اس انکشاف کے ساتھ ہی ناصر کی غزل کو پر لگ گئے۔

اس سے بڑھ کر عالی کے بارے میں انھوں نے اپنی توقعات یوں ظاہر کیں ''عالی کو ادبی تجربوں کا شوق ہمیشہ سے رہا ہے۔ اب انھوں نے ذرا جم کے اسالیب بیان کی طرف توجہ کی ہے اور اپنے لیے نئی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ نہ صرف غزل میں بلکہ اور اصناف سخن میں بھی۔ عالی کے دوہوں کا تلسی داس اور کبیر کے دوہوں سے مقابلہ و موازنہ کافی نہیں۔ عالی نے دوہے کو ایک نئی شکل میں زندہ کیا ہے۔ وہ ہرے بھرے اور جیتے جاگتے احساسات جو عالی کے دوہوں میں ملتے ہیں وہ ان کی غزلوں میں بھی دکھائی نہیں دیتے''۔

اس دھوم سے اس دیباچہ کے ساتھ عالی کا پہلا مجموعہ کلام ''غزلیں' دوہے' گیت'' کے عنوان سے مئی 1957ء میں شایع ہوا۔ اور یوں اپنے عہد میں ایک نئے شاعر کی دھوم پڑ گئی۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ؎

پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

جلد ہی مارشل لا آ گیا۔ عالی اور عسکری صاحب کا یہ اندیشہ صحیح ہوتا نظر آیا کہ ''لیکن عالی اپنی شاعری کو اتنی سنجیدہ چیز نہیں سمجھتے جتنی وہ دراصل ہے''۔ سو جلد ہی اس عزیز کی شاعری پس منظر میں چلی گئی اور اس شے نے ظہور کیا جس کا نام پاکستان رائٹرز گلڈ تھا۔ پھر عالی کا سارا جوش و خروش اس طرف منتقل ہو گیا۔ اور یوں عالی کی ہنگامہ خیز زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔

آمرانہ طاقت کی نمود کے ساتھ جواب میں تین قسم کے رویے سامنے آتے دیکھے گئے ہیں۔ اولاً مزاحمت کا رویہ۔ دوم یکسر بے تعلقی کا رویہ جو صوفیا سے مخصوص چلاتا ہے کہ مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت۔ صوفیا سے ہٹ کر یہ رویہ دنیائے ادب میں بھی اکثر راہ پا جاتا ہے۔ تیسرا رویہ مصلحت اور مصالحت۔ اس راہ چل کر کچھ بھلائی کے کام کرو۔ اور گلڈ کے راستہ سے جمیل الدین عالی نے ادیبوں کی بھلائی کے بہت سے منصوبے سوچے۔ معذور ادیبوں کی بھلائی کی اسکیمیں۔ ادبی تخلیقات کی حوصلہ افزائی بواسطہ انعامات۔ مرحوم ادیبوں کی بیواؤں کی امداد۔ یہ منصوبے بحسن و خوبی پروان چڑھے۔ باقی پروان چڑھتے چڑھتے رہ گئے۔ وجہ یوں سمجھو کہ ابھی تک تو قدرت اللہ شہاب ایوب خاں کی ناک کا بال بنے ہوئے تھے۔ اس بال سے رائٹرز گلڈ کی کشتی بندھی ہوئی تھی۔ آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ ناک کا بال ہی بدل گیا۔ اب الطاف گوہر اس ناک کے بال تھے۔ رائٹرز گلڈ شاہانہ توجہ سے محروم ہو گیا۔

گلڈ کا مستقبل تاریک ہوتا چلا گیا۔ مگر عالی نے ہمت نہ ہاری۔ راہ مضمون تازہ بند نہیں۔ عالی نے کن کن راستوں سے معذور ادیبوں کی' مرحومین کی بیواؤں کی' قوم و ملت کی مدد کرنے کے جتن کیے۔ اپنی جدوجہد میں انھوں نے قنوطیت کو قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ یہاں سے ایک رنگا رنگ زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ جس پر عالی کو داد بھی ملی۔ بیداد بھی ملی۔ اختلاف کے پہلو بھی بہت ہیں۔ داستان لمبی ہے۔ اسی میں عالی کی شخصیت بنتی بگڑتی نظر آتی ہے۔

خیر اس حساب سے عالی پر باتیں کرنے کی گنجائش بہت ہے۔ مگر ادھر فیض میلہ کی رنگا رنگی ہے۔ اس واسطے سے ایک ایسا مہمان ہندوستان سے وارد ہوا ہے جس سے فیض میلہ میں بھی ایک اور رنگ پیدا ہو گیا۔ یعنی فیض صاحب سے عقیدت اپنی جگہ۔ مگر شمس الرحمن فاروقی نے رسمی داد سے گزر کر سنجیدگی سے فیض صاحب کی شاعری اور شخصیت کا مطالعہ پیش کر ڈالا۔ آخر میں تو یہی ہونا چاہیے۔ رسمی داد اچھے اور سچے شاعر کو زیادہ وارا نہیں کھاتی۔

فاروقی صاحب نے صاف صاف یہ تو کہا کہ فیض کی شاعری اسقام سے مبرا نہیں ہے۔ وہ بھی ہیں۔ مگر ''فیض صاحب کے کلام میں تاثیر اتنی زبردست ہے کہ اس کے سامنے شعر گوئی کے سارے فن دھرے رہ جاتے ہیں''۔ اور یہ کہ ''فیض صاحب ترقی پسند ضرور تھے مگر ان کے شعری ذوق کی نشوونما اس زمانے میں ہوئی تھی جب حسرت موہانی غزل کو ایک حد تک مولانا حالی کے بتائے ہوئے راستے پر چلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بس اس کے ساتھ ہی انھوں نے فیض کی شاعری کو اردو شاعری و نیز فارسی شاعری کی روایات کے پس منظر میں جانچنا پرکھنا شروع کر دیا۔ نتیجہ کیا نکلا۔ یہ کہ ''مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلیف نہیں کہ فیض صاحب اگر ترقی پسند شعریات کا لحاظ ہر وقت نہ رکھتے تو ان کی دنیائے شعر بہت متنوع اور رنگا رنگ ہوتی۔ لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ فیض نے استعارے اور پیکر کو مرکزیت دے کر اپنی شاعری میں پھر بھی وہ قوت پیدا کر لی جو ترقی پسند شعریات کے بس کی نہیں تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انھیں فرد کا مجرد اور تنہا انسان کا احساس بہت شدید تھا۔ وہ 'عوام' کی بے شمار بھیڑ سے زیادہ ایک انسان' کے شاعر ہیں''۔

اگلی شام ہم نے فاروقی صاحب کو لمز یونیورسٹی میں 'غزل کی تہذیب' پر گفتگو کرتے دیکھا۔ کہہ رہے تھے کہ غزل شاعری کی سب سے مشکل صنف ہے۔ قافیہ ردیف کی پابندیاں۔ پھر دو مصرعوں میں پورے مضمون کو اس طرح بیان کرنا کہ جیسے وہ سانچہ میں ڈھل کر آیا ہے۔ ہر چند کہ اس کے روبرو گنے چنے الفاظ ہوتے ہیں۔ اور وہی جو ہم آپ بولتے ہیں۔ مگر جس طرح وہ شعر کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں تو کس طرح ان سے شعاعیں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں اور معنی ابلنے لگتے ہیں۔

یہ بات کرتے ہوئے انھوں نے غزل کے معترضین کے ایک ایک اعتراض کو لیا۔ ایک ایک بیان کو لیا اور ان کو ادھیڑتے چلے گئے۔

اور پھر اگلی شام کو ہم نے دیکھا کہ ٹی ہاؤس میں حلقہ ارباب ذوق کی محفل گرم ہے۔ سوال پہ سوال کیے جا رہے ہیں اور فاروقی صاحب جواب میں گل پھول بکھیر رہے ہیں۔ اصل میں یہاں نہ کوئی تقریر تھی نہ کوئی مقالہ پڑھا گیا۔ بس یہ ایک مکالمہ تھا اردو کے ایک بڑے نقاد اور حلقہ ارباب ذوق کے نوجوانوں کے بیچ۔ تب ہم نے آخر میں ٹکڑا لگایا کہ دوستو' اس مکالمہ کی معنویت کو سمجھو۔ اصل میں یہ لاہور اور الہ آباد کے بیچ مکالمہ ہے اور الہ آباد شہر کو تم آخر کیا سمجھتے ہو۔ ویسے تو وہ روایتی طور پر اکبرالہ آبادی اور امرودوں کے شہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مگر مت بھولو کہ یہ خطبہ الہ آباد کا بھی شہر ہے۔ اگر اس پر بھی نہ سمجھے تو علامہ اقبال کا یہ شعر تمہیں بہت کچھ سمجھائے گا۔ وہاں سے اکبر الہ آبادی نے لنگڑے آم کی ٹوکری بذریعہ پارسل بھیجی۔ اقبال نے شکریہ یوں ادا کیا ؎

اثر یہ تیرے اعجاز مسیحائی کا ہے اکبر
الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا

اور اب امرود اکبرالہ آبادی' خطبۂ الہ آباد کے بعد الہ آباد کی چوتھی چیز ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی بہت سخی نقاد ہیں۔ شاعر کو جب داد دیتے ہیں تو اس شان سے دیتے ہیں کہ اس شاعر کا سر غرور سے اونچا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے تئیں غالب کا ہمسر سمجھنے لگتا ہے۔

ارے ہاں فاروقی صاحب کے برابر ایک بی بی بیٹھی ہیں۔ چپ چاپ۔ شاید باپ کے ادب سے زبان بند کیے بیٹھی ہیں۔ ورنہ انھیں کیا بات کر نہیں آتی۔ وہ بھی نقاد ہیں۔ مگر ان کا قلم چلتا ہے انگریزی میں۔ یہ ہیں مہر افشاں فاروقی۔ شمس الرحمن فاروقی کی صاحبزادی۔ یہاں تو یعنی لمز کی محفل میں انھوں نے غالب کے نسخہ حمیدیہ پر اردو میں باتیں کی ہیں۔ بہت کچھ لکھا ہے انگریزی میں۔ ایک پوری کتاب محمد حسن عسکری پر لکھی ہے اس دعوے کے ساتھ کہ محمد حسن عسکری اردو زبان کے پہلے نقاد ہیں۔ لو ہم نے یہ کیا ذکر چھیڑ دیا۔ ساری بات ہم اگلے کالم میں لکھیں گے۔ پھر آپ سوچتے رہئے کہ انھوں نے یہ دعویٰ صحیح کیا ہے یا غلط کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں