کون کرے یہ کام
وطن عزیز بے شمار قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، حال ہی میں ایک سروے رپورٹ سامنے آئی ہے
ISLAMABAD:
وطن عزیز بے شمار قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، حال ہی میں ایک سروے رپورٹ سامنے آئی ہے، جس کے مطابق پاکستان میں ہزاروں کھرب بیرل تیل اور ہزاروں کھرب مکعب فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں، یہ تو تازہ دریافت ہے اس سے قبل بھی پاکستان کے پاس قیمتی پتھروں،کوئلے، تیل، گیس، تانبا اور سونے کے علاوہ دیگر معدنیات کے ذخائر موجود رہے ہیں، مگر بد قسمتی سے ان ممالک سے زیادہ تو کیا برابر بھی ہم ترقی نہ کرسکے جو قدرتی وسائل سے بڑی حد تک محروم ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ ہر صاحب عقل و فہم اس کے جواب سے آگاہ ہے کہ شرح خواندگی، جدید سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر علوم کے ماہرین کی کمی ہے اور ان دونوں وجوہات کی جڑ ایک ہی ہے اس لیے ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا، ذمے داران کیوں قوم کو اپنے پیروں پرکھڑا نہیں ہونے دیتے اور مختلف علوم میں مطلوبہ تعداد میں ماہرین کا کال کیوں پڑگیا ہے؟
ماہرین تو بعد کی بات ہے پہلے شرح خواندگی میں اضافہ ضروری ہے۔میرے بیشتر اظہاریوں میں اس صورتحال کی کچھ نہ کچھ نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ ہمارے ملک پر ایک مخصوص ذہنیت کے طبقے کا قبضہ ہے، بظاہر تو ہمارے یہاں جمہوریت رائج ہے اور سیکڑوں چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں بھی معرض وجود میں آچکی ہیں مگر یہ سب کی سب مختلف ناموں سے اسی مخصوص طبقے کی نمایندہ ہیں، عوام میں خواندگی نہ ہونے کے باعث وہ ان میں سے جس بھی جماعت کو اچھا سمجھتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے جس کا امیدوار ان کا رشتے دار، دوست یا برادری کا فرد ہوتا ہے اس کے منشور، ارادوں اور عزائم سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی ان ہی کو منتخب کرلیتے ہیں ۔ مختلف ناموں سے نشستیں حاصل کرنے کا مقصد بھی قبضہ گروپ کا ایک خاص نقطہ نظر ہوتا ہے کہ نشست ہمارے ہاتھ سے نہ نکلے۔ ان کے در پردہ عزائم سے لا علم عوام ان کے ظاہری فرق کو محسوس نہ کرتے ہوئے مختلف جماعتوں کے امیدواروں کوکامیاب کریں تو وہ سب حقیقتاً ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں۔
طبقہ اعلیٰ یعنی وطن کے قبضہ گروپ کا انداز فکر یہ ہے کہ عوام کو جدید علوم سے دور رکھا جائے تاکہ وہ اچھے برے جھوٹ سچ اور حق و باطل کے درمیان تمیزکرنے سے ہمیشہ نا آشنا رہیں، اور اس گروہ کے زیر اثر ان کی مرضی و مفاد اکے لیے کام کرتے رہیں، یوں ان کی دال روٹی چلتی رہے۔ جو کچھ موجودہ وسائل سے حاصل ہوتا ہے، وہ ان کے لیے اتنا ہے کہ تمام غیر ممالک کے بینکوں میں ان کی دولت محفوظ ہے اورکئی ممالک میں قیمتی جائیدادیں بھی رکھتے ہیں ، عوام کو تو بھوکے ننگے رہنے کی عادت پڑچکی ہے یا بقول غالبؔ ۔
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
تو جس ملک میں جمہوریت کے نام پر طبقاتی نظام رائج ہو وہاں موجود ذخائر نکال کر ملکی ترقی وخوشحالی کا خیال کسے آسکتا ہے؟ اس ذہنیت کی عکاسی اس مشہور واقعے سے واضح ہوسکتا ہے، جو نواب آف کالا باغ سے منسوب ہے کہ ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ ملکی نظام تعلیم درست کرکے علم کے دروازے سب کے لیے کیوں نہیں کھولے جاتے تو نواب صاحب جو اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر تھے کو غصہ آگیا اور فرمانے لگے کہ یہ آپ لوگ سب کو تعلیم دلوانے کے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہیں اگر تعلیم سب کے لیے عام کردی جائے تو پھر تمام پڑھے لکھے افراد کو نوکریاں بھی دینی پڑیںگی، پھر ہماری زمینوں اورگھروں میں کام کون کرے گا؟
جب کسی بھی ذریعے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ہماری سر زمین کے سینے میں تو اتنی دولت پوشیدہ ہے تو بحالت مجبوری اس کو نکالنے کے لیے قلتِ اسباب و صلاحیت نہ ہونے کے پیش نظر غیر ملکی کمپنیوں اور اداروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو ہمارے اثاثوں سے خود زیادہ مستفیض ہوتی ہیں جب کہ ہمیں ان کی خدمات خاصی مہنگی پڑتی ہیں کیوں کہ جو سرمایہ ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ اس قدر کم ہوتا ہے جس کو ان معدنیات کی قدر و قیمت کے برابر ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔سرمایہ اگر کم بھی ہو لیکن وہ عوامی بہبود پر خرچ ہو تو بھی ان کے کچھ نہ کچھ مسائل تو حل ہوسکتے ہیں۔ مگر ہوس دولت کے مرض میں مبتلا جن کا دست شفقت ان تمام منصوبوں پر ہوتا ہے وہ یہ تھوڑا سرمایہ (جو کچھ اتنا کم بھی نہیں ہوتا) بھی اپنی جیب میں ڈالتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم مزید پیچھے کی جانب گامزن ہیں، بظاہر شرح خواندگی میں اضافہ بھی ہمارے لیے سود مند ثابت نہ ہوسکا کیوں کہ نظام تعلیم ہی ایسا ہے کہ جو لوگوں میں اہلیت اور احساس ذمے داری میں اضافے کا باعث نہیں ہے ڈگری یافتہ اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوکر اس ادارے کو ترقی دینے کی بجائے ٹھپ ہی کردیتے ہیں کیوں کہ یہ لیاقت و اہلیت اور ذمے دارانہ رویہ سے عاری ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے تمام بڑے بڑے ادارے جو اپنے قیام کے وقت عالمی شہرت کے حامل تھے آج ان میں اسی طبقہ اعلیٰ کے سفارشی یا ان کے نا اہل بھائی بھتیجوں کے باعث ناکام ترین ادارے قرار پارہے ہیں لہٰذا ان کی نجکاری پر غور کیا جارہاہے نجکاری کی صورت میں بھی زیادہ تر حصے اسی طبقے کے پاس جائیںگے لہٰذا چٹ بھی ان کی پٹ بھی ان کی ہی رہے گی۔ سب سے پہلے تو حکومت غیر ترقیاتی منصوبوں پرکھربوں روپے خرچ کرنے (مثلاً بلٹ ٹرین، میٹروبس اور موٹرویز) کی بجائے اس کم خرچ میں مختلف شعبوں میں اچھی کارکردگی کے حامل طلبہ کو اپنے خرچ پر ترقی یافتہ ممالک بھیجے اور انھیں جدید علوم و ٹیکنالوجی میں مہارت کے کورسزکروائے واپسی پر ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرے۔ اگر ہر سال مطلوبہ تعداد میں ایسے افراد مہارت حاصل کرکے وطن کے لیے اپنی خدمات وقف کریں تو چند ہی سال میں ہم دوسروں پر انحصارکرنے کے بجائے اپنی افرادی قوت و اہلیت سے اپنے ذخائر سے بلا کسی اور کا احسان اٹھائے فیض یاب ہوسکتے ہیں۔
نظام تعلیم کی ہزار خامیوں کے باوجود ذہانت و صلاحیت کی ہمارے یہاں کمی نہیں ہمارے کئی طلبہ عالمی سطح پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ اﷲ کی خاص عنایت سے ہمارے پاس ساٹھ فی صد سے زائد نوجوان افراد بھی ہیں مگر ہماری غفلت کے باعث ان سے تعمیری کام لینے کے لیے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں اور نہ ان میں احساس ذمے داری پروان چڑھانے کے لیے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے ہم پہلے بھی یہ تجویز پیش کرچکے ہیں کہ ناگہانی ارضی و سماوی آفات (زلزلہ، سیلاب، دہشتگردی) کے بعد بحالی کے کاموں میں نوجوانوں کو شامل کرکے ایک جانب ان کے اندر جذبہ خدمت اور احساس ذمے داری کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے اور دوسری جانب تازہ خون نسبتاً زیادہ تندہی اور برق رفتاری سے یہ کام انجام دے سکتا ہے اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ قومی وسائل کے حصول کے لیے بھی نوجوانوں کو شامل کیا جائے تو ایک جانب بے روزگاری میں کمی اور دوسری جانب با آسانی کام کو انجام دیا جاسکتا ہے۔
اگر ملکی ترقی و خوشحالی مقصود ہو تو کسی بھی مشکل کو جواز نہیں بنایاجاتا بلکہ اپنے موجود وسائل سے ہی مسائل کو حل کرنے کی بھرپور اور پر خلوص کوشش کی جائے تو بہت جلد ملک کے تمام مسائل دور ہوسکتے ہیں اگر ملک سے محبت اور عوام سے ہمدردی ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقی و خوشحالی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اس قبضہ گروپ سے نجات حاصل کی جائے، سوال یہ ہے کہ اس طبقے کے خاتمے کی کوشش کون کرے یعنی شیرکے جبڑے میں کون ہاتھ ڈالے؟