کچھ یادیں ڈھاکہ آرٹسٹوں کی
یہ وہ دور تھا جب مشرقی پاکستان میں بنگالی فلموں کے ساتھ ساتھ اردو فلموں کا بھی آغاز ہوچکا تھا۔
BRIVE-LA-GAILLARDE:
یہ وہ دور تھا جب مشرقی پاکستان میں بنگالی فلموں کے ساتھ ساتھ اردو فلموں کا بھی آغاز ہوچکا تھا۔ 1956 سے لے کر 1971 تک ڈھاکہ میں ڈیڑھ سو سے زیادہ بنگالی فلمیں بنائی جا چکی تھیں پھر پہلی اردو فلم بنانے کا اعزاز ہدایت کار احتشام کو جاتا ہے جب ڈھاکہ میں پہلی اردو فلم ''چندا'' کا آغازکیا گیا، اس فلم میں بنگالی فلموں کی اداکارہ جھرنا، شبنم کے نام کے ساتھ اداکاری کرتی نظر آئی تھی، موسیقار روبن گھوش نے بھی پہلی بار اردو فلم ''چندا''کی موسیقی دی تھی، انھی دنوں میری پہلی ملاقات کراچی کے مقامی ہوٹل میں اداکارہ شبنم، موسیقار روبن گھوش اور مزاحیہ اداکار سبھاش سے ہوئی تھی، شبنم، روبن گھوش شادی کے بعد ہی کراچی آئے تھے اور یہ کہا جاسکتا تھا کہ دونوں کی شادی کا یہ پہلا ہنی مون تھا۔ اس وقت شبنم بہت ہی دبلی پتلی اور دھان پان سی تھی، اسے اس وقت دیکھ کر کوئی یہ تصور ہی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک وقت وہ آئیگا کہ یہی اکھڑی اکھڑی اردو زبان میں گفتگو کرنیوالی اداکارہ شبنم لاہور فلم انڈسٹری پر اس طرح چھا جائے گی کہ فلم انڈسٹری پر راج کریگی اور یہ ڈھاکہ کا موسیقار روبن گھوش جب لاہور شفٹ ہوجائے گا تو ایک خاص موسیقار کا روپ دھار لے گا اور چند ہی فلموں میں موسیقی دیکر صف اول کے موسیقاروں میں شامل ہوجائے گا۔
اس دوران میں نے پاکستان کے مختلف اخبارات کے فلمی صفحات کے لیے شبنم، روبن گھوش اور مزاحیہ آرٹسٹ سبھاش دتہ کے انٹرویوز تفصیلی طور پر کیے تھے۔ سبھاش دتہ سے مل کر مجھے خوشی بھی ہوئی تھی اور حیرت بھی، میں اسے ایک مزاحیہ آرٹسٹ سمجھ رہا تھا مگر مجھے تو گفتگو کے دوران ایک فلمی شخص محسوس ہوا۔ سبھاش دتہ انتہائی پڑھا لکھا تھا وہ ایک سیکولر ذہن کا انسان تھا، مذہب سے زیادہ وہ انسانیت کا پرستار تھا، اسے رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعری بہت پسند تھی وہ خود شاعر نہیں تھا مگر بنگالی، انگریزی اور اردو شاعری کا شیدائی تھا۔ بحیثیت اداکار بنگالی فلموں سے اس نے اپنے کیریئرکا آغاز کیا اور بنگالی فلمیں بھی پروڈیوس کیں۔ اس کی پہلی اردو فلم ہدایتکار احتشام کی ''چندا'' تھی۔ ''چندا'' کے بعد ''تلاش'' اور اس فلم میں رکشے والے کا کردار بڑا خوبصورت اور جاندار ادا کیا تھا پھر بہت سی اردو فلموں میں اپنی کردار نگاری سے اس نے فلم بینوں کے دل موہ لیے جن میں ناچ، گھر، ساگر، پیسے، کابل، ملن وغیرہ سے اسے بڑی شہرت اور کامیابی ملی۔
شبنم جب ڈھاکہ چھوڑ کر کراچی آئی تو نگار کے الیاس رشیدی نے کراچی میں ہل پارک کے قریب شبنم، روبن گھوش کی ابتدائی رہائش کا انتظام کیا۔ کراچی میں شبنم کی پہلی فلم وحید مراد کی ''سمندر'' تھی جب وحید مراد نے فلم ''احسان'' کی ناکامی کے بعد اپنی ساری ٹیم تبدیل کردی تھی ۔ اس کی نئی فلم کے ہدایتکار باپو رفیق رضوی تھے۔اور دیبو بھٹہ چاریہ کو موسیقار لیا تھا جب کہ نغمہ نگار صہبا اختر تھے ۔ اس فلم میں شبنم وحید مراد کے ساتھ دیگر آرٹسٹوں میں روزینہ، حنیف ، قربان جیلانی اور نرالا بھی شامل تھا۔ اس فلم کے بعد شبنم جیسے ہی لاہورگئی تو پھر شبنم کو فلم سازوں نے ڈھاکہ جانے دیا اور نہ ہی پھر کراچی آسکی بلکہ لاہور ہی کی ہو کے رہ گئی۔ لاہور کی فلم انڈسٹری نے شبنم کو پھر اپنے سر کا تاج بنا لیا۔
اب میں آتا ہوں ڈھاکہ کے چند ان آرٹسٹوں کی طرف جن سے میری پہلی پہلی ملاقاتیں کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیو میں ہوئی تھیں۔ ان میں ایک تھے ڈھاکہ ہی سے آئے ہوئے ہدایتکار قیصر پاشا۔ انھوں نے ڈھاکہ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ مصنف و ہدایتکار کی حیثیت سے 1964ء میں ایک فلم ''مالن'' کے نام سے بنائی تھی جس میں نسیمہ خان ہیروئن تھی دیگر آرٹسٹوں میں جی ۔اے دیپ، ڈیئر اصغر اور جلیل افغانی بھی شامل تھے۔ فلم کے موسیقار نذیر شیلے تھے جو بعد میں ڈھاکہ سے کراچی بھی آئے مگر وہ اپنے لیے یہاں کوئی جگہ نہ بنا سکے۔ قیصرپاشا نے البتہ کراچی میں ایک فلم ''شادی کے بعد'' شروع کی تھی مگر یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی تھی۔ اسی طرح ڈیئر اصغر بھی کراچی فلم انڈسٹری سے کچھ حاصل نہ کرسکا تھا اور پھر وہ فلم انڈسٹری کو خیر باد کہہ گیا تھا۔ ڈھاکہ سے آئی ہوئی ایک اور نامور شخصیت اداکار جلیل افغانی کی تھی۔ جلیل افغانی نے ڈھاکہ میں بنگالی اور اردو دونوں زبانوں کی فلموں میں کام کیا تھا پھر یہ ڈھاکہ سے کراچی آگئے اپنی اپنی بھاری بھرکم اور قدآور شخصیت کی بنا پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فلم انڈسٹری کے دوسرے الیاس کاشمیری بن کر فلموں کا حصہ بن جاتے مگر جلیل افغانی صاحب نے ایک بالکل ہی نیا رخ اختیار کیا۔
یہ بنگالی ادب کے ساتھ انگریزی اور اردو ادب سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے۔ جن دنوں یہ مشرقی پاکستان فلم انڈسٹری کو خیرباد کہہ کر مغربی پاکستان آئے تو پہلے کراچی میں رہائش اختیار کی پھر لاہور میں سکونت اختیار کی۔ یہ وہ دور تھا جب لاہور کی فلم انڈسٹری میں اردو فلموں پر ایک زوال آیا ہوا تھا اور اس زوال کی وجہ کمزور اور ناقص کہانیاں تھیں اور یہی وجہ تھی کہ اردو فلمیں اپنی بیجان بے مقصد کہانیوں کی وجہ سے اپنی حیثیت کھوتی جا رہی تھیں۔ اس دوران جلیل افغانی کے ذہن نے ایک نئی کروٹ لی اور انھوں نے فوری طور پر ہندوستان کی کامیاب ترین اردو فلموں کو مشرف بہ اسلام کرنا شروع کیا۔ انھی کہانیوں کے ماحول کو اسلامی کردیا۔کرداروں کے نام اسلامی رکھ دیے اور ہر ہٹ کہانی کو معمولی سا ٹوئسٹ دیکر ایک نیا روپ دے دیا اور پھر مزے کی بات یہ بھی تھی کہ جلیل افغانی کو کہانی سنانے کا فن آتا تھا اور اس فن میں انھیں کمال حاصل تھا۔ یہ جس فلم ساز کو اپنی کہانی سناتے تھے وہ پہلی نشست ہی میں منظور ہوجاتی تھی اور وہ کہانی سننے والے کے دل میں اترتی چلی جاتی تھی اور پھر یکے بعد دیگرے ان کی لکھی ہوئی کہانیاں سیٹ کی زینت بنتی چلی گئیں۔
جلیل افغانی سے مل کر یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ کہانی نویسی کے فن میں مہارت رکھتے ہیں اور ہندوستان کی سپرہٹ فلموں کو تو یہ گھول کر پی گئے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب مصنف رشید ساجد اور اقبال رضوی جیسے کہانی کار جو اوریجنل کہانیاں لکھتے تھے وہ پیچھے چلے گئے تھے، لاہور کی فلم انڈسٹری میں جلیل افغانی نے اپنی دھاک بٹھا دی تھی اور بلامبالغہ جلیل افغانی اس دور میں فلمسازوں کی اشد ضرورت بنے رہے اس دوران بیشمار ہٹ فلمیں جیسے آئینہ، امبر، بندش، آہٹ، جو ڈرگیا وہ مرگیا، شرافت، پھول میرے گلشن کا، مس بنکاک، بنکاک کے چور اور دیکھا جائے گا سے لے کر فلمساز و ہدایتکار جان محمد جمن کی فلم ٹینا کی کہانیوں پر بحیثیت کہانی نویس جلیل افغانی کے نام کی چھاپ لگی ہوئی تھی اور ان فلموں نے فلمسازوں کو خوب مال کما کر دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ نذرالاسلام، جلیل افغانی اور بشیر نیاز کا ایک گروپ بن گیا تھا۔
ہدایت کار نذر الاسلام کی کوئی فلم جلیل افغانی اور بشیر نیاز کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی جس طرح نذر الاسلام ہدایتکار سے پہلے ایک اچھے فلم ایڈیٹر تھے اسی طرح ہدایتکار اقبال اختر بھی ہدایتکاری کے شعبے سے وابستہ ہونے سے پہلے ایک کامیاب فلم ایڈیٹر رہ چکے تھے۔ فلمی دنیا میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاتی ہے کہ جس فلم کی ایڈیٹنگ اچھی ہوتی ہے۔ وہ فلم کے ٹیمپو کو برقرار رکھتی ہے اور ایک اچھا فلم ایڈیٹر ایک فلم کی کامیابی میں بڑا دخل رکھتا ہے اور ایک دلچسپ بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ بشیر نیاز نے جتنی فلمیں لکھیں ان کے صرف مکالمے لکھے کسی فلم کی کوئی کہانی کبھی نہیں لکھی اور اسی طرح جلیل افغانی نے فلموں کی صرف کہانیاں ہی لکھیں کبھی کسی فلم کے مکالمے نہیں لکھے۔
ہدایت کار اقبال اختر کی وہ پہلی فلم تھی ''شرمیلی'' جس کی کہانی جلیل افغانی نے لکھی تھی مگر اس کے مکالمے میرے لکھے ہوئے تھے جب کہ میں پہلے اس فلم کے صرف گیت ہی لکھ رہا تھا۔ اداکاروکہانی کار جلیل افغانی سے جب میری پہلی ملاقات کراچی میں ہوئی تھی تو وہ ڈھاکہ سے نئے نئے کراچی آئے تھے جب انھیں میرے شاعر ہونے کا پتہ چلا اور یہ بھی پتہ چلا کہ مہدی حسن کا گایا ہوا گیت لیکے چلی ہو مورا پیا گوری، میرا لکھا ہوا ہے تو جلیل افغانی نے مجھے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ہمدم میاں! تمہارا یہ گانا میں نے ڈھاکہ میں بہت بار سنا ہے میں سمجھتا تھا کہ اتنا درد بھرا گیت کسی عمر رسیدہ شخص نے لکھا ہو گا مگر تم تو بالکل نوعمر ہو۔ اس نو عمری میں اتنا دکھ بھرا گیت کیسے لکھ دیا اور میں جلیل افغانی کی یہ بات سن کر صرف مسکرا دیا تھا۔