تنقید کے میدان میں باپ کے بعد بیٹی
ہاں تو ذکر مہر افشاں فاروقی کا تھا۔ ویسے تو وہ انگریزی میں گل پھول کھلا رہی ہیں۔
اس یونیورسٹی میں جسے اب بالعموم ہم لمز کہہ کر پکارتے ہیں ڈھائی تین دن تک شمس العلما شمس الرحمن فاروقی نے مجمع لوٹا۔ وہ چپ ہوئے تو مہر افشاں فاروقی رواں ہو گئیں اگر پدر نتواند دختر تمام کند شاید بیٹوں کا دور گزر چکا ہے۔ کتنے زمانے تک ہم یہی سنتے رہے کہ اگر پدر نتواند پسر تمام کند۔ لیکن اب وہ زمانہ آیا ہے کہ بیٹیوں نے پھریری لی۔ اردو دنیا کے کتنے نامور ادیبوں کو ہم نے اب یوں جانا ہے کہ ان کے بیٹے یا تو ہیں ہی نہیں۔ اگر ہیں بھی تو پردہ اخفا میں ہیں۔ یا بیٹیوں کو چاق و چوبند دیکھ کر وہ خاموشی سے پیچھے کھسک گئے ہیں۔
ہاں تو ذکر مہر افشاں فاروقی کا تھا۔ ویسے تو وہ انگریزی میں گل پھول کھلا رہی ہیں۔ مگر یہاں لگتا تھا کہ باپ ہی کے تسلسل میں رواں ہیں۔ یعنی میر اور غالب پر فاروقی صاحب بہت لکھ چکے بول چکے۔ اب مہر افشاں فاروقی کی باری ہے۔ غالب نے پھر محققوں کے لیے ایک مسئلہ پیدا کیا ہے۔ غالب کا نسخۂ حمیدیہ 1821ء کا نسخہ۔ کتنے زمانے سے گم تھا۔ اب برآمد ہوا ہے۔ غالب کے کسی مداح نے یہ نسخہ ایک اجنبی کے ہاتھوں دیکھا اور حیران ہوا۔ سوچا کہ اس کے پاس کیا کر رہا ہے۔ بھاری قیمت ادا کر کے اسے خریدا اور مہر افشا فاروقی کے حوالے کیا کہ اس پر مقدمہ لکھو۔ اس مقدمہ کے ساتھ اسے منظر عام پر لائیں گے۔ مہر افشاں نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا تو عجب نقشہ نظر آیا۔ زمانہ گمشدگی میں کس کس کے قلم نے اس پر ہاتھ صاف کیا۔ کس نے اپنی خوش خطی کا ہنر دکھایا۔ کوئی شعر یا کوئی نثر کا ٹکڑا حاشئے میں جڑ دیا۔ پھر کسی بد خط کا اس مخطوطہ پر بس چل گیا۔ اس نے دائیں بائیں جہاں اپنے قلم کے لیے گنجائش دیکھی وہاں اپنی بدخطی کا ہنر دکھایا۔
بس یہ نیا دریافت شدہ نسخۂ غالب ان کا موضوع تھا۔
ادھر ہم نے سوچا کہ انگریزی میں جو وہ خامہ فرسائی کر رہی ہیں کچھ اس کا بھی ذکر ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے سو ہم نے ایک سوال جڑ دیا کہ غالب کتنے زمانے سے ہمارے بیچ زیر بحث چلا آ رہا ہے۔ آپ نے انگریزی میں کچھ اور موضوعات چھیڑے ہیں ان کا بھی تھوڑا ذکر ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ مثلاً حال ہی میں آپ کی ایک کتاب Modern Litirary Culture۔
موضوع کی مزید وضاحت ان لفظوں میں کی ہے
Vernacular Modernity in the Writings of Mohammed Hasan Askary.
یہ کتاب اس بیان سے یا اس دعوے سے شروع ہوتی ہے کہ تنقید کی انگریزی اصطلاح کو جس طرح وہ مغربی ادب میں برتی گئی ہے پیش نظر رکھا جائے تو محمد حسن عسکری اردو کے پہلے ادبی نقاد ٹھہرتے ہیں۔
ہم نے کہا کہ آپ کے پیش نظر یہ واقعہ تو ہو گا کہ اول اردو میں تین جید اہل قلم نے اس شان سے تنقید کے میدان میں قدم رکھا کہ وہ اردو کے اولین نقاد مانے گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی اور کتنے اس میدان میں اترے۔ اور ترقی پسند تحریک تو ایک بڑی تحریک تھی۔ اس نے جہاں شعر و افسانے کے شعبوں میں اپنے جھنڈے گاڑے وہاں ان کے کتنے لکھنے والے وہ اپنے ترقی پسند نظریے کے ساتھ اس میدان میں اترے۔ آپ نے ان سب کو فراموش کر دیا۔ کیا واقعی آپ کی نظر میں ان میں سے کوئی نقاد کہلانے کا اہل نہیں ہے۔
مہر افشاں نے چھوٹتے ہی جواب دیا کہ مولانا حالی ہوئے' مولانا محمد حسین آزاد ہوئے ان کا مسئلہ تو ادب تھا ہی نہیں۔ یہ بزرگ تو مصلحین تھے۔ ترقی پسند تنقید نگاروں کا معاملہ بھی یہی تھا۔ ان کا مسئلہ انقلاب تھا۔ ادب ان کے لیے اپنے مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا۔ ادھر محمد حسن عسکری نے یہ طے کیا کہ انھیں ادب کا شارح اور مفسر بننا ہے۔ ادبی محاکمہ کرنا ہے۔ ادبی تنقید ان کے لیے فی نفسہ ایک مقصد تھی۔ ایک سنجیدہ سرگرمی۔ یوں انھوں نے کہانیاں بھی لکھیں' ترجمے بھی کیے۔ مگر ان کے یہاں فوقیت ادبی تنقید کو تھی۔ ایک ادبی نقاد کی حیثیت سے انھیں اپنے عہد کے سیاسی اور ثقافتی مسائل و معاملات سے بھی بہت گہرا شغف تھا اور تخصیص کے ساتھ ادب سے شغف' ادب ایک تہذیبی ثقافتی اظہار کے طور پر۔ وہ ایک تہذیبی آشوب کے بیچ کھڑے تھے اور اس بیچ سے اپنی آواز بلند کر رہے تھے۔
اردو کے فکری مباحث کی گویا قیادت کر رہے تھے۔ اور پھر ہند مسلم کلچر پر جو ایک آفت ٹوٹ پڑی تھی وہ ان کا موضوع تھا۔ ہوتے ہوتے نوبت یہ آ گئی یا یوں کہئے کہ واقعات نے ایسی کروٹ لی کہ تقسیم کا واقعہ نمودار ہو۔ دو ملک بن گئے ہندوستان اور پاکستان۔ اور عسکری صاحب کا اب مسئلہ یہ تھا کہ ہند اسلامی شناخت کو کس طور نکھارا جائے۔ عسکری صاحب کے فکری سفر کی ابتدا ایک قسم کے تہذیبی Cosmopolitanism کے تصور سے ہوئی۔ رفتہ رفتہ اس نے مابعد نو آبادیاتی رنگ پکڑا اور آخر آخر میں وہ اردو کی سیکولر ادبی روایت کو ایک اسلامی متصوفانہ فلسفہ کی شکل میں منتقل کرنے کی کوشش میں غلطاں نظر آ رہے تھے۔
مہر افشاں کا خیال ہے کہ اردو کے دامن میں کوئی ایسا لفظ ہی نظر نہیں آ رہا تھا جو تنقید کے مفہوم کو ادا کر سکتا۔ بہت کوشش کے بعد آخر انھوں نے عربی سے تنقید کا لفظ مستعار لیا اور پھر یہی لفظ ایک ادبی اصطلاح میں ڈھل کرCriticism کا بدل ٹھہرا۔
مہر افشاں کے کہنے کا شاید مطلب یہ تھا کہ ابتدا میں لکھنے والوں کو یعنی حالی، آزاد' شبلی کو پوری طرح یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ تنقید کیا ہوتی ہے' اس کے ادب اداب کیا ہیں۔ رفتہ رفتہ اس کا مفہوم واضح ہوتا گیا۔ گویا اس بی بی کے حساب سے اردو کے اس گروہ میں جو نقاد کہلائے عسکری صاحب پہلے شخص ہیں جنہوں نے تنقید کو جس طرح وہ مغرب کی ادبی روایت میں مستعمل تھا سمجھا اور اس حساب سے لکھا۔
کیا کہتے ہیں اردو کے ارباب فکر و نظر اس باب میں۔