اپنے ہوئے پرائے
رشتے ناتے، تعلق داری ایسی کڑیاں ہیں، جو انسانیت اور معاشرے کی زنجیر کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
رشتے ناتے، تعلق داری ایسی کڑیاں ہیں، جو انسانیت اور معاشرے کی زنجیر کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب خاندان آپس میں اپنے دکھ سکھ شیئر کرتے اور خاندان ایک جسم کی مانند تھے کہ اگرکسی ایک فرد کو بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لازماً پورے جسم میں اس کا درد محسوس کیا جاتا ہے اور اس کے تدارک کی کوشش کی جاتی ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے بچپن میں میرے نانا کے ایک قریبی عزیز کا انتقال ہوا تو انھوں نے نانی کو کافی سارے روپے دیے جب نانی انتقال والے گھر میں گئیں تو وہاں مرحوم کی بیوہ سے بھی تعزیت کی اور بڑی خاموشی سے روپوں کا وہ لفافہ ان کی نشست کے نیچے رکھ دیا۔
اس کے علاوہ جو قریبی عزیز آرہا تھا وہ راشن کا سامان ساتھ لارہا تھا واپسی میں جب میں نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا تو نانی نے سمجھایا کہ اس طرح سے ان کی مالی مدد کرنا مقصود تھا نمود و نمائش کرنا نہیں، اس طرح عزیز خاموشی سے رقوم رکھ دیتے ہیں تو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کس نے کتنے پیسے دیے اور مدد بھی ہوجاتی ہے اور عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی۔ اب وہ لوگ رہے نہ وہ باتیں اب تو نفسانفسی کا ایسا دور ہے کہ وہ رشتے جو کہ بھروسے و اعتماد کی پہچان تھے جن کے بارے میں تصور بھی نہیں تھا کہ یہ کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر آج فلک وہ منظر بھی دیکھ رہا ہے جس کو دیکھنے کی کسی کو بھی خواہش نہیں تھی۔
آج کل متواتر ایسی خبریں بریکنگ نیوز کا حصہ بن رہی ہیں جن میں سگے رشتوں پر سے بھی ایمان متزلزل ہوگیا ہے ، واضح ہے ابھی پچھلے ہفتے ہی ایک خبر نظر سے گزری کہ باپ نے اپنی گیارہ ماہ کی بیٹی کو تشدد کرکے ہلاک کردیا، کچھ عرصہ پہلے یہ خبر بھی خبروں کا حصہ بن چکی ہے کہ ایک باپ نے تازہ روٹی نہ پکانے پر اپنی جوان بیٹی کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔
اس طرح کے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس قدر تیزی سے زوال پذیر ہے، رشتوں کا تقدس محبت سب ختم ہوتا جارہا ہے ان واقعات پر ہر درد مند دل میں ایک ٹھیس سی اٹھتی ہے اور آنکھوں میں نمی آجاتی ہے کہ یہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ہمارے رویے کس قدر متشددانہ اور نفرت انگیز ہو رہے ہیں کہ ہم اپنے انتہائی قریبی رشتوں جن پر معاشرے کا ڈھانچہ کھڑا ہے۔
ان کو معمولی باتوں پر اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں یا ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ یہ انتہائی قریبی رشتے دکھ تکلیف اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں اور اگر ان معاشرتی مسئلوں اور جھگڑوں سے بچنے کے لیے عدالتوں کا رخ کیا جائے تو توقع یہ ہوتی ہے کہ انصاف مل جائے گا، مگر یہاں بھی انصاف دور کھڑا ہماری کم فہمی پر ہنس رہا ہوتا ہے کیونکہ معاملات کو التوا میں رکھنے کے لیے کئی قانونی موشگافیاں ہیں جن کی وجہ سے کئی کئی سال گزر جاتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا یہ نہیں دیکھا جاتا کہ فریادیوں کے پاس اتنا وقت ہے کہ نہیں اتنی قوت برداشت ہے یا نہیں۔
کراچی کے علاقے بھینس کالونی کی ایک رہائشی خاتون کی ایک ای میل موصول ہوئی ہے اس ای میل میں خاتون انتہائی قریبی عزیزوں کی حق تلفی کا شکار وہ لکھتی ہیں کہ ان کے بھائی اور ان کی سسرال کے درمیان زمینی تنازعے پر کچھ جھگڑا تھا جس کا کیس کافی عرصے سے عدالت میں چل رہا تھا اور ان کے سسر نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ ان کے بھائی کیس جیت گئے جس کی وجہ سے ان کے سسر نے ان کو اور ان کی اولاد کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
حکم ہوا گھر چھوڑ کر چلے جاؤ ان کے پاس کوئی اور ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس لیے انھوں نے ان کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا اس پر ان کے سسر آگ بگولہ ہوگئے اور ان کو ناکردہ گناہوں کی سزا یہ کہہ کر دی کہ کیونکہ ان کے میکے والوں نے ان کا حق چھینا ہے اور یہ خاتون بھی اپنے میکے والوں کے ساتھ شریک جرم ہیں اس لیے ان کے بیٹے سہیل کو جو کہ یونی ورسٹی کا طالب علم اور سرکاری ملازم تھا اس کو جھوٹے مقدمے میں پھنسوایا گیا اور مستقل دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
جس کی وجہ سے پورا گھرانہ مشکلات کا شکار ہے۔ سہیل کے جیل جانے کی وجہ سے یہ تمام گھر والے مالی، ذہنی الجھنوں کا شکار ہوگئے ہیں کافی عرصہ مقدمہ چلتا رہا مگر شومیٔ قسمت جب ہر چیز ثبوتوں کے ساتھ اس بات کو واضح کرنے لگی کہ سہیل بے گناہ ہے تو ججوں کا ٹرانسفر ہوگیا جس کورٹ میں سہیل کا مقدمہ تھا وہاں فی الحال کوئی جج نہیں جس کی وجہ سے مقدمہ التوا کا شکار ہے۔ SIU صدر یونٹ فاروق اعوان کو تمام حقائق کا علم ہے ان کی کوششوں سے ہی مقدمے میں خاصی پیش رفت ہوئی تھی مگر ججوں کے تبادلے کی وجہ سے مقدمہ مزید التوا کا شکار ہوگیا ہے۔
والدہ سہیل انتہائی پریشان اور مایوس ہیں ان کی ہمارے کالم کے توسط سے متعلقہ لوگوں سے اپیل ہے کہ میرے بیٹے کا پورا کیریئر اس جھوٹے مقدمے کی وجہ سے تباہ ہوگیا اور دوسرے بیٹے بھی اس پریشانی کی وجہ سے ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں ، یہ خاتون خود ڈپریشن کی مریضہ بن چکی ہیں لڑکیوں نے معاشی مسئلے کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلے کو منقطع کردیا ہے کیونکہ سہیل گھر کا واحد کفیل تھا اس لیے معاشی طور پر بھی یہ گھرانہ دگرگوں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہے تمام محلہ اس بات کا گواہ ہے کہ دادا نے معمولی زمینی تنازعے کی وجہ سے جن کے وہ شریک بھی نہ تھے ہمیں بے دردی سے نشانہ بنایا ہے رشتوں کا بھی احترام نہیں کیا۔ میری جملہ افسران سے گزارش ہے کہ میرے حال پر رحم فرمائیں اور میرے بے گناہ بیٹے کو جیل کی سلاخوں سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کریں۔ یہ صرف سہیل کی والدہ کی آواز نہیں بلکہ معاشرے کے ہر اس مظلوم کی آواز ہے جو بے گناہ ہے اور رشتوں کے ہاتھوں ڈسا ہوا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے کی یہ الٹی تصویر بن چکی ہے کہ گناہ گار دندناتے پھر رہے ہیں اور بے گناہ ناکردہ جرائم کی سزا بھگت رہے ہیں۔
اس کے علاوہ عدالتی نظام کچھ اس طرح سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملزم اپنے جرم سے بھی زیادہ سزا پہلے ہی کاٹ چکا ہوتا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی مقدموں کی پیشی نہیں ہو پاتی، جس کی وجہ ملزم اور اس کے گھر والے ذہنی کوفت کا شکار رہتے ہیں۔ ایک رجحان یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب تک کسی مسئلے پر خوب شور ہنگامہ، لے دے نہ ہو میڈیا اس کا حصے دار نہ بنے۔ مسئلے کا حل نہیں نکلتا گھریلو مسئلہ ہو یا اجتماعی میڈیا کی بھرپور کوریج کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔