مودی نواز ملاقات اور باڈی لینگوئج

بے یقینی اور کنفیوژن کے اس عالم میں اللہ نے نریندر سنگھ مودی کو ہماری رہنمائی بلکہ اصلاح کے لیے بھیج دیا


آفتاب اقبال December 02, 2015
بے یقینی اور کنفیوژن کے اس عالم میں اللہ نے نریندر سنگھ مودی کو ہماری رہنمائی بلکہ اصلاح کے لیے بھیج دیا

آج ڈاکٹر عاصم بارے کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ مودی نواز ملاقات پر بھی کچھ نہ کچھ کہنا اشد ضروری ہے کہ تاحال تازہ ترین یہی خبر ہے۔ چنانچہ دو چار باتیں اسی سے متعلق ہوجائیں تو بہتر ہے۔

نریندر سنگھ مودی دراصل بھارت کی ایک بہت بڑی بدنصیبی کا دوسرا نام ہے۔ بھارت کے تمام بدخواہ جو کام پچھلے 25سال میں نہیں کر پائے۔ مودی نے ڈیڑھ سال کے اندر اندر کر دکھایا ہے۔ دو قومی نظریہ وہ بنیاد تھی کہ جس پر مسلمانوں نے تقسیم ہند کی عمارت استوار کی۔ مسلمانوں کی بدقسمتی کہ وہ ایک نظریے کو ایک آفاقی حقیقت کے طور پر پیش اور ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ اس پر مستزاد ریاست پاکستان کے اندر جنم لینے والے لاکھوں مسائل اور ان مسائل کے آگے ہماری قومی بے بسی، پھر رہی سہی کسر سقوط ڈھاکا نے نکال دی کہ جس پر اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو یہ کہتے بھی سنا گیا کہ ''آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔،،

اس دوران ہم سے سنگین حماقتیں اور قومی جرائم سرزد ہوئے۔ ہمارے عوام کی جہالت اور خواص کی بے حسی نے چند دہائیوں کے اندر ہی پاکستان کو ایک کرپٹ اور ناقابل عمل ریاست بنا ڈالا۔ بین الاقوامی برادری اس مملکت خداداد کو بربادی اور بے ایمانی کا استعارہ بنا کر پیش کرنے لگی۔ اس صورتحال نے سنہ 1980 کے بعد ہوش سنبھالنے والی پوری پاکستانی جنریشن کو بری طرح کنفیوز کرکے رکھ دیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ہمارے جوان اور نوجوان جن تاریخی واقعات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان میں ایک تخلیق پاکستان بھی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ تخلیق پاکستان میں بیشمار کمیاں اور کوتاہیاں رہ گئی تھیں جن کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں اور آئندہ بھی بھگتتے رہیں گے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ برصغیر میں نظریے کی بنیاد پر چند نئی ریاستوں کی تخلیق بھی ناگزیر ہو چکی تھی۔ علیحدگی کے بیج شدھی، سنگٹن اور آریا سماج جیسی انتہا پسندانہ ہندو تحریوں نے بو دیے تھے۔ 1917 کے روسی انقلاب اور جنوب کی طرف تیزی سے پھیلتے اس کے خطرناک اثرات نے ان بیجوں کو ہری بھری فصل کا روپ دے دیا اور سنہ 1947 میں فصل کی کٹائی کردی گئی۔

تاہم بھارت کی انتہائی موثر پراپیگنڈہ مشین نے سیکولر ازم کے سہانے خواب کا پرچار اس طمطراق سے کیا کہ تاریخ سے تقریباً نابلد ہماری موجودہ پاکستانی نسل دو قومی نظریے بارے مزید شکوک وشبہات کا شکار ہونے لگی۔

بے یقینی اور کنفیوژن کے اس عالم میں اللہ نے نریندر سنگھ مودی کو ہماری رہنمائی بلکہ اصلاح کے لیے بھیج دیا۔ اس ناعاقبت اندیش ہندو انتہا پسند نے اقتدار سنبھالتے ہی جہالت اور نفرت میں لتھڑے اپنے طرز سیاست کی وجہ سے بھارتی روشن خیالی اور سیکولر ازم کا پول کھول دیا۔ مودی کے فرسودہ نظریات نے شیو سینا کے نیم مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی اور اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ بن چکا ہے۔

پاکستانیوں کی موجودہ نسل کو دو قومی نظریے کا مطلب سمجھانے میں مودی اور اس کی پالتو شیو سینا کا بڑا دخل ہے جس پر بھارتی وزیراعظم شکریہ کے مستحق ہیں۔ ہمارے دوست نڈھال صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست اور حکومت سے وابستہ بعض لوگ نریندر مودی کا شکریہ ان کی چند دیگر خدمات کی وجہ سے بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ دیگر خدمات کیا ہے کہ جن کے سبب یہ احباب مودی کے واری صدقے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں نڈھال صاحب چند پراسرار باتیں کرتے ہیں جن پر ہم اس لیے کان نہیں دھرتے کہ موصوف ایک تو پیدائشی بدگمان واقع ہوئے ہیں اور دوسرا یہ کہ نواز لیگ سے انھیں ویسے ہی چڑ ہے۔

بہرحال نڈھال صاحب نے مودی نواز ملاقات کے دوران دونوں لیڈروں کی باڈی لینگوئج (Body Language) پر خاصہ سنسنی خیز تبصرہ کیا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ مودی نے نوازشریف کے کان میں کچھ ایسی بات کہیں تھی کہ جسے سنتے ہی نوازشریف سخت پریشان نظر آنے لگے۔ آپ مزید کہتے ہیں کہ نوازشریف اپنی بھوک اور پریشانی چھپانے کے معاملے میں بیحد کمزور واقع ہوئے ہیں اس لیے دوران ملاقات انکا انتہائی متفکر چہرہ بہت کچھ بتاتا ہے۔ ادھر مودی صاحب رازداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بڑی مہارت کے ساتھ اپنے ہلتے ہونٹوں کو ہاتھ کی اوٹ میں چھپائے ہوئے ہیں تاکہ حساس اداروں کے ''لب شناس،، کہیں انکی ''لپ ریڈنگ،، (Lip Reading) ہی نہ کرلیں۔ اب یہ ایک دوسرا اہم سوال ہے کہ مودی نے نوازشریف کو ایسی کیا خبر دی ہوگی کہ جس نے نواز شریف کی فکرمندی میں کئی گنا اضافہ کردیا اور یہ کہ بات کرتے ہوئے مودی کو اپنے ہاتھ سے ہونٹ چھپانے پڑے ہوں، ہیں جی؟

اب چلتے چلتے دو چار سطریں ڈاکٹر عاصم بارے بھی۔ ہم آج سے تقریباً ایک ماہ قبل گزارش کر چکے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے حساس اداروں کے روبرو بڑی بڑی اہم شخصیات کے کچے چٹھے کھول ڈالے ہیں۔ اغلب یہی ہے کہ انھیں سلطانی گواہ بنا کر کسی اہم شخصیت کو قابو کرلیا جائے۔ آج نڈھال صاحب نے ہماری اس اہم مخبری کی بھی تصدیق کر ڈالی ہے۔ اب دیکھیں اسٹیبلشمنٹ کب اور کتنا جگرا کرتی ہے!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں