مستقبل کے چیلنجز اور پاک بحریہ
اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں ’’سی اسپارک۔2015ء مشقیں‘‘ منعقد کی گئیں
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد 23 جنوری 1948ء کو پہلی بار رائل پاکستان نیوی کے یونٹس کا معائنہ کرتے ہوئے اپنے خطاب میں ایک اہم جملہ ارشاد فرمایا تھا ''کسی ملک کا کمزور دفاع دشمنوں کو جارحیت کا موقع فراہم کرتا ہے۔'' قائد کے اسی فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے پاک نیوی نے ملکی سمندری حدود کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے جدید اسلحہ اور دیگر حربی ساز و سامان حاصل کرنے کے علاوہ ہر سطح پر اپنے اہلکاروں کو اعلیٰ تربیت دینے کا انتظام کیا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر اپنی حربی صلاحیت اور کارکردگی کو جانچنے کے لیے اکثر و بیشتر بحری مشقوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں ''سی اسپارک۔2015ء مشقیں'' منعقد کی گئیں۔ یہ مشقیں 12 نومبر کو بے مثال کامیابی و کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئیں۔ یہ اہم مشقیں ہر دو سال بعد منعقد کی جاتی ہیں۔ ان مشقوں کا مقصد پاک بحریہ کی جنگی صلاحیتوں اور تیاریوں کا بھرپورجائزہ لینا ہوتا ہے۔ ان مشقوں کے معائنے کے لیے آخری روز وزیر اعظم نواز شریف کو بطور خاص مدعو کیا گیا تھا، انھوں نے نیوی کے ساتھ فضائیہ اور آرمی ایوی ایشن دستوں کی مشترکہ حربی صلاحیتوں کا مظاہرہ دیکھا۔
اس موقعے پر ہیلی کاپٹرز، نگراں طیاروں، ہیوی گنز، فریگیٹس، میزائل بوٹس، آبدوزوں توپ خانے اور ریموٹ گنز فائرنگ کے ماہرانہ مظاہرے پیش کیے گئے۔ ان مشقوں میں نیول یونٹس نے سائبراٹیک سمیت دیگر روایتی اور غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کے لیے مختلف جنگی آپشنز کے شاندار مظاہرے پیش کرنے کے علاوہ دہشت گردی، بحری قزاقی سے نمٹنے اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے بے مثال مشقوں کا مظاہرہ کیا گیا۔
وزیر اعظم نے ان کامیاب مشقوں کی دل کھول کر تعریف کی اور عزم ظاہر کیا کہ ہماری بحریہ دشمن کے کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری نیوی نہ صرف اس وقت اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے بلکہ ماضی میں بھی اپنی بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور کارکردگی سے دشمن کے دانت کھٹے کر چکی ہے اور آیندہ بھی دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے تیار رہے گی۔
چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل محمد ذکا اللہ نے جب سے اپنے منصب کا چارج سنبھالا ہے وہ بحریہ کو دنیا کی مضبوط ترین فورس میں تبدیل کرنے کے لیے رات دن ایک کر رہے ہیں۔ ان ہی مشقوں کے دوران آپ نے سرکریک میں تعینات یونٹس کی آپریشنل تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے وہاں کا دورہ کیا۔ سرکریک دنیا کا انتہائی مشکل اور پیچیدہ پانی زدہ دلدلی علاقہ ہونے کی وجہ سے دفاع کے لحاظ سے دشوار ترین محاذ ہے۔ اس علاقے کو مشکل دفاع اور ناسازگار حالات کے لحاظ سے دوسرا سیاچن کہا جا سکتا ہے۔
سرکریک میں بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے سمندری حدود کا تعین نہیں ہو سکا ہے چنانچہ بھارت کی جانب سے ہر وقت خطرہ بنا رہتا ہے بھارتی مچھیرے عام طور پر پاکستانی پانیوں میں گھس آتے ہیں جن میں دشمن کے لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں چنانچہ مچھیروں کی نگرانی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پر اکثر بھارتی مچھیروں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور انھیں کراچی میں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اسی طرح پاکستانی مچھیرے انجانے میں بھارتی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں جنھیں بھارتی نیوی گرفتار کر کے اپنی جیلوں میں ڈال دیتی ہے جو وہاں برسوں پڑے رہتے ہیں، اس انسانی مسئلے کو حل کرنے کے لیے شروع سے ہی پاکستان بھارتی حکومتوں کو مائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر بھارت اس مسئلے کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہا ہے۔
ان مشقوں کے دوران ایک بریفنگ میں چیف آف نیول اسٹاف نے کہا ''پاک بحریہ اہم ترین بحری تجارتی راستوں کی حفاظت و دفاع کے لیے پوری طرح مستعد ہے'' گوادر بندرگاہ کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا ''پاک بحریہ گوادر بندرگاہ کو بین الاقوامی منڈیوں سے ملانے والے بحری راستوں اور پاک چین اقتصادی راہداری کا ہر طرح دفاع کریگی۔''اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاک چین راہداری کا گیم چینجر منصوبہ بعض ممالک کی نظروں میں بری طرح کھٹک رہا ہے۔ اس منصوبے سے خاص طور پر ایران کو کچھ نام نہاد خدشات لاحق ہو گئے ہیں اور بھارت حواس باختہ ہو گیا ہے۔
وہ گوادر بندرگاہ کی ترقی سے تو جیلس ہے ہی اب اسے چین کے حوالے کیے جانے کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی خیال کر رہا ہے۔ بہرحال اس بندرگاہ کے ذریعے پاکستان کی ترقی کا ایک نیا باب شروع ہونے والا ہے مگر اس کا راستہ روکنے کے لیے بھارت سرگرم ہو گیا ہے بدقسمتی سے وہ پاکستان کی معیشت کو مفلوج کرنے کے لیے پاکستان پر تین مرتبہ جارحیت کا ارتکاب کر چکا ہے جس میں ناکامی کے بعد اب اس نے ملک میں دہشتگردی کا جال بچھا دیا ہے پاک فوج نے اس کے اسی دہشتگردی کے جال کو ابھی اکھاڑ پھینکا ہے چنانچہ اب اس کی نظریں گوادر بندرگاہ کو ناکام بنانے پر مرتکز ہیں وہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف بڑی ڈھٹائی سے دھمکی بھی دے چکا ہے چنانچہ گوادر بندرگاہ کی حفاظت اور دفاع پاک نیوی کے لیے ایک اہم چیلنج بن گیا ہے۔ خوش قسمتی سے پاک بحریہ اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے میں کبھی بھی پیچھے نہیں رہی ہے۔
1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں پاک نیوی کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں ہماری تاریخ کا سنہری حصہ ہیں۔ اگرچہ ہماری نیوی بھارت کے مقابلے میں چھوٹی ہے مگر اس کے حوصلے بھارتی نیوی سے کئی گنا بلند ہیں۔ پاک نیوی کے جوانوں نے اپنے جذبہ ایمانی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعے ماضی میں بھی دشمن کی برتری کے باوجود اسے خاک چٹوا دی تھی۔ 1965ء میں بھارت کے پاس وکرم جیسا طیارہ بردار جہاز موجود تھا اور 1971ء میں بھی یہی صورتحال تھی مگر ان دونوں جنگوں میں ہماری صرف ایک آبدوز غازی نے وکرم کو بمبئی تک محدود کر کے رکھ دیا تھا۔ 1965ء میں ہی پاک نیوی نے بھارت کے ایک بڑے بحری اڈے دوارکا کو راتوں رات کھنڈر بنا ڈالا تھا۔
اسی بحری اڈے سے بھاری لڑاکا طیارے اڑ کر کراچی اور اس کے مضافات پر حملے کر رہے تھے جو دوارکا کے نیول بیس کے تباہ ہونے کے بعد مکمل طور پر بند ہو گئے تھے۔ 1971ء میں ہماری ایک اور آبدوز ہنگرو نے بھارت کے ایک اہم جنگی جہاز کھکری کو پل بھر میں تباہ کر دیا تھا جس میں 148 سیلر اور 18 آفیسر مارے گئے تھے۔ پاک نیوی اپنی مہارت اور اعلیٰ تربیت کی وجہ سے دنیا کی بہترین فعال فورس مانی جاتی ہے۔ ہماری نیوی نے بحری قزاقی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چند سال قبل صومالیہ کے ساحل کے قریب شمالی بحیرہ عرب کو بحری قزاقوں نے اپنا مرکز بنا لیا تھا۔
وہاں سے کسی بھی تجارتی جہاز کا گزرنا محال ہو گیا تھا۔ ان بحری قزاقوں نے یہاں سے گزرنے والے کئی جہازوں کے عملے کو یرغمال بنا لیا تھا جنھیں بھاری معاوضہ دے کر بڑی مشکل سے رہا کرایا گیا تھا۔ بحری قزاقی کی ان بڑھتی ہوئی وارداتوں نے تجارتی جہازوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے پر مجبور کر دیا تھا بالآخر پاک نیوی نے امریکی برطانوی اور فرانسیسی نیوی کے ساتھ مل کر بحری قزاقوں کا صفایا کر دیا تھا۔
پاک نیوی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ ملک میں دفاعی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ ملک میں تعلیم کے فروغ میں بھی یہ اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اس نے مختلف شہروں میں اعلیٰ درجے کے شفاخانے بھی قائم کیے ہیں جن میں پیچیدہ سے پیچیدہ امراض کا کامیاب علاج کیا جا رہا ہے۔
اس وقت بھارت کے سپر پاور بننے کے جنون نے پاکستان کے لیے کئی مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ بھارت سپر پاور بننے کے جنون میں اپنے ہاں ہر قسم کے اسلحے کے ڈھیر لگا رہا ہے وہ اپنی نیوی کو بھی سپرپاور کے شایان شان بنانا چاہتا ہے۔
وہ جلد ہی جاپان سے 16 عدد US-2 جدید ترین طیارے حاصل کرنے والا ہے یہ طیارے بھارت کی بحریہ کی دفاعی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ کر دیں گے یہ طیارے دیگر خصوصیات رکھنے کے علاوہ ساحلوں کی باریکی سے نگرانی کرنے اور سمندر سے ہی ٹیک آف کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بھارتی نیوی اس وقت دو طیارہ بردار جہازوں، دو ایٹمی آبدوزوں کے علاوہ چالیس جنگی جہازوں اور بیس عام آبدوزوں پر مشتمل ہے۔ آیندہ دس سالوں میں وہ چین کے برابر بحری طاقت کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بھارت کی اس بڑھتی ہوئی نیوی کی طاقت سے اصل ہدف پاکستان ہی بن سکتا ہے۔
خطے میں ویسے تو اس وقت اس کے بہت سے دشمن ہیں لیکن پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جسے بھارت شروع سے ہی ختم کرنے کے درپے ہے۔ چنانچہ بھارت کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت پاکستان کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے جس کے لیے حکومت پاکستان کو نیوی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنا چاہیے تا کہ وہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکے۔