ارتھنگ
انسان کا زمین سے گہرا رشتہ ہے۔ انسان کی شخصیت کی تعمیر میں ماحول اور موسم اہمیت کے حامل ہیں۔ ا
انسان کا زمین سے گہرا رشتہ ہے۔ انسان کی شخصیت کی تعمیر میں ماحول اور موسم اہمیت کے حامل ہیں۔ انسان کی تمام تر توانائی زمین کے مختلف رنگوں سے وابستہ ہے۔ بیج بونے سے فصل کاٹنے تک، ہر لمحہ تغیر و تبدیلی لیے ہوئے ہے۔ یہ تعلق، رابطے کی خوبصورتی سے سرشار ہے۔ یہ ربط باہمی انحصار، عمل، سمجھ اور وجدانی کیفیات پر مبنی ہوتا ہے۔
فطرت کے پاس، ادراکی حسن اور وجدانی احساس ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ مثال کے طور پر، طوفان سے پہلے اس کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ زلزلے سے پہلے، زمین کا الگ کیمیائی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ تیز بارش سے پہلے، شدید حبس طوفانی بارشوں کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ چاند کے گرد حالے کی الگ پیش گوئی ہے اور سورج گرہن کے منفی اثرات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ فطرت کی یہ علامتیں، انسان کو آنے والے لمحوں کی آگہی عطا کرتی ہیں۔ لہٰذا جو لوگ فطری زندگی سے قریب ہوتے ہیں، ان کے حواس خمسہ بہتر طور پر کام کرتے ہیں۔ اوائلی دور کے انسان کے پاس سونگھنے کی حس زیادہ تھی، جو آج جدید دنیا میں بہت کم ہو کے رہ گئی ہے۔
زمین سے تعلق رکھنے والے کئی علوم، انسان کی رہنمائی کرتے ہے ہیں۔ فینگ شوئی، جیومینسی اور ریکی فطری زندگی سے براہ راست رابطے کے علوم ہیں۔ جو یہ معلومات فراہم کرتے ہیں کہ انسان جتنا فطرت کے قریب جائے گا۔ اس کی فہم و فراست، سمجھ اور سوجھ بوجھ میں اضافہ ہو گا۔ اس کی ذات میں بہتر فیصلے کی صلاحیت اور مضبوط قوت ارادی جیسی اہم صفات پیدا ہونے لگیں گی۔
انسان کو زمین کی قربت چاہیے۔ ارتھنگ ایسا علم ہے، جو زمین کی توانائیوں کے مختلف مخفی فوائد سامنے لے کر آیا ہے۔ جب تک جوتے ایجاد نہیں ہوئے تھے، انسان کے پیر براہ راست زمین سے رابطے میں رہتے تھے۔ لہٰذا اس دور کا انسان ذہنی و جسمانی طور پر زیادہ مضبوط تھا۔ کہا جاتا ہے کہ چالیس ہزار سال پہلے جوتے پہننے کی روایت کا آغاز ہوا تھا۔ قدیم مشرقی تہذیب میں ڈھائی ہیل والے سینڈل پہنتے تھے، تا کہ ان کے پیر خون کے چھینٹوں سے محفوظ رہیں۔1818ء میں جب جوتے ایجاد ہوئے تو دائیں یا بائیں پیرکا فرق غیر واضح تھا۔ سولہویں صدی میں خواتین اونچی ایڑی کے سینڈل استعمال کرتیں اور انھیں چلنے کے لیے نوکروں کی مدد درکار ہوتی۔ اوائلی دور سے لکڑی اور لوہے کے جوتے استعمال ہوتے رہے ہیں۔
1852ء میں Jan Matzeliger نے جوتے بنانے کی مشین ایجاد کی جس کے بعد جدید جوتے مارکیٹ میں لانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ روس کی پارلیمنٹ میں خواتین کی اونچی ایڑی والے جوتوں پر بندش کی تجویز نے، خواتین کی صفوں میں طوفان برپا کر دیا۔ تجویز دینے والے سیاستدان کا کہنا ہے کہ یہ اونچی ایڑی کے سینڈل، خواتین میں کئی جسمانی بیماریوں کا سبب بن جاتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ روسی خواتین صحت پر خوبصورتی کو ترجیح دے کر اپنے ساتھ بہت برا کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فیشن ایبل کینوس سنیکر، لوفرز اور موکیشنز بھی مضر صحت ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں سند یافتہ کمپنیز بھی ایسے جوتے بنا رہی ہیں، جو فیشن کے تقاضے تو پورے کر رہے ہیں مگر جن کے استعمال سے جسمانی صحت تباہ ہو کے رہ گئی ہے۔
ارتھنگ کے علم کے مطابق زمین کا صحت بخش کیمیائی اثر، انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ ننگے پاؤں زمین پر چلنے سے، زمین کے اندر موجود صحت بخش منفی آیونز، جسم کے اندر داخل ہو جاتے ہیں۔ جس سے جسم کا مدافعتی نظام، دوران خون، غصے، جارحیت، اضطرابی کیفیات، ذہنی دباؤ، خوف و تشویشی امراض اعتدال پر آ جاتے ہیں۔
جدید دور کا انسان ہر وقت مشینوں کے استعمال میں الجھا رہتا ہے۔ جیسے ایئرکنڈیشنز، موبائل، کمپیوٹرز و دیگر برقی رو رکھنے والی اشیا اردگرد کے ماحول میں مثبت آیونز میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ جو مختلف ذہنی و جسمانی بیماریوں کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب ہم ننگے پاؤں زمین پر چلتے ہیں تو زمین کے اندر موجود شفایاب اجزا، ہمارے جسم میں منتقل ہو کر اس آلودگی کے خلاف برسر پیکار ہو جاتے ہیں۔ کلنٹن اوبو، اسٹیفن۔ٹی۔سنٹارا اور مارٹن زکو کی ملی جلی تحقیق نے اس موضوع کو متعارف کروا کے فطری علاج کے دروازے دکھی انسانیت پر کھول دیے ہیں۔
آج بھی گاؤں دیہاتوں میں لوگ اکثر کھیتوں میں ننگے پاؤں چلتے ہیں۔ قدیم سیانے، صوفی اور یوگی بھی زیادہ تر ننگے پیر سفر کیا کرتے تھے۔ علی الصبح گھاس پر چلنے والے ذہنی طور پر بہت فعال ہوتے ہیں۔ یہ نسخہ بینائی کو تیز کرنے کے لیے مفید بتایا جاتا ہے۔ زمین کی قربت کے کئی فوائد ہیں۔ ارتھنگ یا گراؤنڈنگ جیسے فلسفے، انسان کو ماضی یا مستقبل سے کھینچ کر واپس حال میں لے کر آتے ہیں۔ زمین کا رویہ عملی نتیجے اور پہنچ پر مبنی ہے۔
جب ہم کسی پرفضا مقام پر وقت گزارتے ہیں۔ اس وقت ہم لمحہ موجود سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ حال کے لمحوں میں ذہنی طور پر فعال رہنے کا مطلب ہے کہ انسان ذہن، جسم و روحانی طور پر متحد ہو جاتا ہے۔ فطرت توانائی سے رابطے کے وسیلے یہ وجود کی وحدت ممکن ہو پاتی ہے۔ زمینی حقائق اور فطری ماحول سے دوری واہموں، قیاس آرائی اور غیر حقیقی سوچ کا باعث بنتی ہے۔ جدید دور میں موبائل اورکمپیوٹرز نے ہم سے جسمانی تحرک چھین لیا ہے۔ سونے و جاگنے کے اوقات بدل گئے ہیں۔ دیر تک جاگنے کی وجہ سے، بے وقت کھانے کی دوائیوں نے جنم لیا ہے۔ ایک غلط رجحان سے کئی غیر صحت بخش سلسلے جڑ جاتے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ ہمارے بچے اور نوجوان نسل ہر صورت، فطری زندگی کی نعمتوں سے محروم ہے۔ اگر کسی کو مواقعے میسر بھی ہیں تو وہ اس سہولت سے غافل نظر آتے ہیں۔ مثال اگر گھر میں بڑا سا لان موجود ہے بھی تو کوئی وہاں شام کی چائے نہیں پیے گا۔ گاڑی ہے تو لوگ فطری مناظر سے بھرپور جگہوں پر جانے سے کترائیں گے۔ اندر کا خوف، اندیشے اور غفلت ہمیں منفی سوچ اور رویوں کی طرف لے کر جاتی ہے۔ سستی اور غفلت قومی مزاج بن چکے ہیں۔
لوگ کرسیوں یا صوفوں سے چپکے نظر آتے ہیں۔ اگر آفسز میں چپڑاسی، چوکیدار وغیرہ ہیں تو انھیں بار بار کام کے لیے دوڑایا جائے گا۔ گھروں کا بھی یہی حال ہے کہ بچے اور نوجوان کوئی کام کر کے نہیں دیتے اور والدین چیختے چلاتے رہ جاتے ہیں۔ ایک کمفرٹ زون ہمارے درمیان سانس لے رہا ہے، جس نے ہم سے زندگی کی تمام تر تازگی چھین لی ہے۔ یہ سستی و کاہلی اکثر ذہنی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
مصروفیت اور تخلیقی کام ان تمام تر مسائل کا حل ہیں۔ بچے، بڑے اور نوجوان اگر باغبانی کی مصروفیت اپنا لیں تو زمین کی قربت کا اس سے بہتر ذریعہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم خیالی دنیا سے واپس حقیقتوں کی طرف لوٹ آئیں۔ اور تندہی سے تمام تر ذمے داریاں ادا کریں، جو ہمارے لیے روزمرہ زندگی میں اہمیت کی حامل ہیں۔ زمین سے تعلق اور محبت، روحانی راستہ ہے۔ جو سکون، یکسوئی اور بے ضرر خوشی سے بھرپور ہے۔ جب ہم فطرت کی روح کی مثبت لہروں کے درمیان موجود ہوتے ہیں تو اس وقت ہمارا شعور ایسی صلاحیت سے لبریز ہو جاتا ہے جو ہمیشہ صحیح راستے کا انتخاب یا تعین کر سکتی ہے۔ فطری زندگی کی خوبی یہ ہے کہ یہ انسان کو خود انحصاری کا درس دیتی ہے۔ اس رویے کی ہمارے معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔