جلسے جلوسوں کی بہاریں
تمام سیاست داں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی پارٹی کے پرکشش دعوے اور آفرز کا لالچ لیے عوام کو لبھانے میں مصروف ہیں
جائیں تو جائیں کہاں؟ سمجھے گا کون یہاں؟ جی ہاں، ان پاکستانیوں کی مسائل بھری زندگی کی پکار کہ آج کل تو پاکستان میں جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کی بہاریں ہے، سارا سارا دن ٹی وی چینلز ان جلسوں کی کوریج دکھا رہے ہیں۔ ماہرین سے رائے لی جارہی ہے کہ کس کی ریلی کامیاب ہے؟ موازنہ کیا جارہا ہے کہ کون سب سے زیادہ بلند بانگ دعوے سے عوام کا دل جیت پایا ہے اور بے چارے عوام سوچ رہے ہیں کہ کس طرف جائیں اورکس طرف نہ جائیں۔
تمام سیاست داں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی پارٹی کے پرکشش دعوے اور آفرز کا لالچ لیے عوام کو لبھانے میں مصروف ہیں، ہر کوئی کہتا ہے ہمارا ساتھ دیں، فائدے میں رہیں گے، ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔ جب کہ ہر بار عوام ان جماعتوں سے مایوس ہوئے ہیں۔ کسی پارٹی کا بیان ہے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے ساتھ روزگار فری، کسی کا پیکیج ہے کہ اپنے گھر (مملکت پاکستان) ہمیں براجمان کریں اور تعلیم، صحت، مکان اور مہنگائی سے بے فکر ہوجائیں۔
چیخ چیخ کر جلسوں میں عوام کو اپنی صفائی و دیانت میں خود قصیدہ کہہ رہے ہیں۔ ان محب وطن لیڈروں کو قوم کا غم مارے ڈال رہا ہے جو حکومت میں ہیں، وہ تو عوام کو کوئی ریلیف نہ دے سکے اور جو اپوزیشن میں ہیں وہ بھی لوڈشیڈنگ، کرپشن، دہشت گردی، مہنگائی کے خلاف ریلیاں نکال کر عوام کے سامنے مظلومیت کا ناٹک کررہے ہیں، ایک کے بعد ایک سیاسی جلوس جلسے نکال رہے ہیں۔
الیکشن سے پہلے ایک نئے الیکشن کا اہتمام ہے۔ دوسری جانب عوام کی نگاہوں میں کوئی سمت نہیں، نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے، اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر جب یہ نوجوان نوکریوں کی تلاش میں نکلتے ہیں تو نو ویکنسی کا بورڈ ان کا منہ چڑھا رہا ہوتا ہے۔ قوم کے ان ہونہاروں کی بے بسی افسوسناک ہے۔
اب تو معاشرے میں ایسے المیے بھی ملیں گے کہ والدین کسی سے اپنے بچے کی اعلیٰ تعلیم پر فخریہ بات کرتے ہیں تو سامنے سے جواب آتا ہے کہ کیا ضرورت ہے تعلیم ماسوائے پیسے اور وقت کے ضیاع کے کچھ نہیں۔ کچھ عرصہ قبل تین نوجوان گلوکاروں کے ایک بینڈ جس نے اپنا نام ہی ''بے غیرت بریگیڈ'' رکھا ہے ''آلو انڈے'' کے نام سے ایک گانا متعارف کرایا ہے، جس میں پاکستان کی منفی سیاست میں نئی بحث کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔
معاشرے میں دن بدن پھیلتی برائیوں، محرومیوں اور مجبوریوں سے بے زار عوام کے لیے اس بینڈ نے اپنے گانے میں دل کی بھڑاس نکالی ہے، اس گانے کی خاص بات یہ کہ اس موضوع پر اور بھی بینڈز نے کام کیا لیکن ان نوجوانوں نے مسائل کے بارے میں دس قدم آگے بڑھ کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یوٹیوب پر موجود اس گانے کے آخر میں ایک پلے کارڈ دکھایا گیا ہے، جس پر لکھا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مجھے گولی مار دی جائے تو اس ویڈیو کو پسند کریں۔ گویا یہ جملہ خود ایک نئی بحث، ایک نئے راستے کو جنم دیتا ہوا نظر آتا ہے۔
سیاست اور سیاست دان سے عوامی بے زاری اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، لیکن پھر بات وہیں پر اٹک جاتی ہے کہ جائیں کہاں، کس کا ساتھ دیں، حکومت سے نالاں ہیں تو دوسری جانب بھی تو وہی لوگ ہیں، ایک چہرے پر کئی چہرے لگائے ہوئے لوگ۔ اب یہ مومن کیا کرے؟ ایک بار ڈسنے کے بعد بھی ڈسوانے کو دوسرا سوراخ نظر نہیں آتا۔ کہاں سے لائیں ایسا لیڈر جو قوم کو قائداعظم، مہاتیر یا طبیب اردگان بن کر ان مشکلوں سے خلاصی دلاسکے۔
ایسا لیڈر جو خوش نما لباس اور شاندار محلوں میں رہنے کے بجائے عوام کی فکر کرے، جو حرام مال کھا کر اپنی قوم کو بھی حرام مال کھانے کی عادت نہ ڈالے، جو اپنا علم ضلالت کے لیے، ذہانت مکر و فریب اور سازشوں کے لیے، عقل و فکر کو شرارت کے لیے، دولت کو ایمان خریدنے کے لیے اور حکومت کو ظلم و جبر کے لیے استعمال نہ کرے، جو عوام کی ترقی کرنے کے تمام راستوں پر رشوت، جھوٹ، سفارش، خوشامد اور سازش کے کانٹے نہ بچھادے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ایک الگ وطن تو بنالیا لیکن کوئی ایماندار، بے لوث سیاسی لیڈر ہمیں دستیاب نہ ہوسکا۔ کسی بھی قوم کے لیے ایک سیاسی لیڈر کی تعریف کے بارے میں مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ ''قوم دو طبقوں پر مشتمل ہوتی ہے، ایک طبقہ عوام اور ایک خواص، طبقہ عوام گرچہ کثیر تعداد میں ہوتا ہے اور قوم کی حدودی قوت اسی طبقہ پر مبنی ہوتی ہے، لیکن! سوچنے اور رہنمائی کرنے والے دماغ اس گروہ میں نہیں بنتے، نہ ان کے پاس مالی قوت اور جاہ ومنزلت ہوتی ہے، بلکہ جو راہیں ان کے لیے بنادی جاتی ہیں وہ ان پر چل پڑتے ہیں اور پوری قوم کو چلانے والے دراصل خواص ہوتے ہیں، جن کی ہر بات پر عمل، دماغ و دولت، عزت اور حکومت کی طاقت رکھتی ہے۔
قوم کی اصل طاقت ان کے عوام نہیں خواص ہوتے ہیں، قوم کے بگڑنے اور بننے کا دارومدار انھی پر ہوتا ہے، قوم کو طوعاً و کرہاً انھی کی پیروی کرنی پڑتی ہے، جب کسی قوم کے بہترین دن آتے ہیں، تو ایسے خواص پیدا ہوتے ہیں''۔ شاید ہم پاکستانیوں کے ایسے بہترین دن ابھی نہیں آئے، ابھی پاکستانیوں کو مزید نئے سیاسی لوگوں کے تجربے کی بھینٹ چڑھنا ہوگا، ہمیں ان جلسے جلوسوں سے آگے کی منزل کا انتظار ہے اور پرامید بھی ہیں کہ جلد مشکلیں ختم ہوں گی۔