آؤ خود کو ووٹ دیں

قیادت کے انتخاب کو محض سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنے کے بجائے دینی ملی و قومی فریضہ سمجھنا ہوگا۔


رضوانہ قائد December 04, 2015
آئندہ کے 5 سالہ طویل مدت کے امن و سکون کی خاطر مختصر سی مسافرت پر جاکر اپنے حقِ رائے دہی کو بہتر انداز سے استعمال کرنا سراسر نفع کا ہی سودا ہے۔ فوٹو:فائل

''آؤ بدلیں اپنا کراچی'' ۔۔۔ ''تبدیلی تم سے ہے'' ۔۔۔ ''پتنگ کا نشان، جیت کا نشان'' ۔۔۔ ''بااختیار عوام، مضبوط پاکستان''۔۔۔ ''ہمارا منشور، ہماری پہچان''۔

یہ اور اس طرح کے بہت سے دیگر پُرکشش انتخابی نعروں کی گونج میں جاری ملک میں بلدیاتی انتخابات مہم کا وقت ہوچکا۔ ملک کے اہم اور حساس ترین شہر کراچی میں 5 دسمبر کو ہونے والے انتخابی معرکے میں تمام ہی سیاسی جماعتیں کامیابی کے لیے پُرعزم ہیں۔ بظاہر تمام جماعتوں نے اپنے انتخابی نشانات، الگ پارٹی جھنڈوں اور علیحدہ منشور کے ساتھ اپنے اپنے مزاج کے مطابق انتخابی مہم کامیابی سے چلائی۔ مگر سب کا مقصد ایک ہی ہے ''جیت کے ذریعے اقتدار کا حصول اور خدمت کے ذریعے شہر کے مایوس کن حالات کی تبدیلی''۔

ایک مقصد اور ایک منزل کے راہی ہونے کے باجود ہمارے سیاسی قائدین کی سوچوں کے دھارے کس قدر مختلف ہیں یہ بات ہمیں ذرائع ابلاغ دن رات بتارہے ہیں۔ بدقسمتی سے انتخابات کا ہنگامہ ہمارے معاشرے میں ایسا طوفانِ بدتمیزی لے کر آتا ہے جس کی کدورت سارے ماحول پر چھاجاتی ہے۔ ہماری انتخابی مہمات میں اپنے مدِمقابل کو زیر کرنے کے جوش میں بلا تحقیق الزام تراشی، خود ستائشی اور اپنی خدمات کی مبالغہ آمیز تشہیر کو سیاسی فتح کے لیے نا گزیر سمجھا گیا۔ اس کے لیے گھٹیا اور بازاری لب و لہجے کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔

سیاسی جماعتوں میں اختلافات بجا، مگر اختلافات کو نفرت کا رنگ دے کر ایک دوسرے کے خلاف زہر اُگلنا مسلمان (پیامبر امن و سلامتی) کے رتبے کے منافی ہے۔ ہمارے دین میں کسی مسلمان کی جان و مال اور آبرو پر حملہ کرنا، کعبۃ اللہ کو ڈھانے سے زیادہ سنگین گناہ ہے۔ مگر اس کعبہء آبرو پر ابلاغ کے ہر محاذ پر سنگ باری جاری رہتی ہے۔ ہماری شریعت نے مسلمان قائدین کو جن اخلاقیات کی تعلیم دی ہے، ان میں یہ بھی ہے کہ
''اخوت و درگذر کا شیوہ اختیار کرو، جاہلوں سے بحث و مباحثہ نہ کرو، شائستگی و وقار کا دامن نہ چھوڑو، بتوں کو بُرا بھلا کہنے سے بھی روکا''۔

اب یہ فیصلہ آپ خود ہی کیجیے کہ ہمارے معزز رہنما ان احکام کو کس قدر ملحوظ رکھتے ہیں؟ اور اِن کا معیار حُب و بغض کیا ہے؟ انتخابی معرکہ میں ''ووٹ لینے والے'' کے بعد دوسرا اہم فریق ''ووٹ دینے والے'' یعنی عوام ہے۔ ہمارے یہاں انتخابات کا عمل ایسا کھیل ہے جس میں ایک فریق (ووٹ لینے والا) ہمیشہ غالب رہتا ہے اور دوسرا فریق ووٹ دینے والا ہمیشہ مغلوب رہتا ہے۔ سالوں سے یہی یک طرفہ مقابلہ جاری ہے۔ ووٹ لینے والے سیاستدان اپنے پُرکشش نعروں، بلند و بانگ دعوؤں، خواب ناک انتخابی منشور اور ہیجان انگیز انتخابی مہم کی دھما چوکڑی کے ذریعے عوام کو مدہوش کرکے ان ووٹوں سے اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔

عوام ہوش میں اس وقت آتی ہے، جب بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا ہے، لوڈ شیڈنگ کے دورانیے مزید بے وقت اور طویل ہوجاتے ہیں، پانی کی بندش میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، سڑکوں پر ٹریفک کے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں، تعلیمی اداروں میں فیسیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں، سرکاری اسپتالوں میں دوا و مسیحا کے منتظر مریضوں کی پریشانیاں مزید بڑھ جاتی ہیں اور چوری ڈاکے و اغواء و قتل کی وارداتوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

آگرچہ یہ سب شہر کے انتظامی اداروں کی ناقص کارگردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور ہم اپنے ہی منتخب کردہ حکمرانوں کو بُرا بھلا بھی کہتے ہیں مگر اگلے الیکشن کی ہنگامہ خیزی میں پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں اور پھر ایسے ہی حکمران منتخب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ تکلیف دہ چکر ہمارے ووٹوں سے شروع ہوا ہے تو اس سے چھٹکارہ بھی عوام کے ووٹ سے ہی ممکن ہے۔ اس لئے کہ ظلم اور فساد سے نجات، ہمارے اپنے ایمان، مضبوط قوتِ فیصلہ اور جرات مندانہ اقدام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

بلاشبہ انتخابات کے عمل میں حکومت اور عوام، سیاسی جماعتوں اور اسکے کارکنوں کی صورت میں بے پناہ مالی و افرادی وسائل استعمال کرتے ہیں۔ مہینوں قبل ہونے والے انتظامات، میٹینگز، منصوبے اور تیاریاں صرف ایک دن کے لئے بلکہ فقط 9 گھنٹوں کے لئے۔ آپ اپنی حکومت کو لاکھ بُرا بھلا کہیں اور سمجھیں مگر بہرحال یہ آپ ہی کی ہے۔ صرف اور صرف آپ کی خاطر، آپ کی رائے کے وقار کی خاطر آپ کو دئیے گئے پچھلی مدت کے فیڈ بیک کے لئے ایک غریب اور ترقی پذیر ملک ہوتے ہوئے اپنے دیگر معمول کے تمام حکومتی کام روک کر، تعطیلات دے کر آپ کو مستقبل کے فیصلے کا موقع دیتی ہے۔

یہ وہ 9 گھنٹے ہیں جو حکومت نے فقط آپ کی خدمت بلکہ ناز برداری کے لئے وقف کرتی ہے۔ صبح 8 تا شام 5 بجے تک بنا کسی وقفہ لگا تار ہر ممکنہ سہولت کے ساتھ آپ کی رائے کی وصولی کے لئے دئیے جاتے ہیں۔ اُس وقت آپ حکومت، سیاست دانوں اور سب سے بڑھ کر خود اپنے لئے اہم ہوتے ہیں۔ تمام تر حکومتی ذرائع آپ کی خدمات پر مامور ہوتے ہیں۔ رینجرز اور پولیس کی صورت میں آپ کو مکمل سیکیورٹی ملتی ہے۔ آپ کی رہائش سے قریب ترین پولنگ اسٹیشن کا انتظام کیا جاتا ہے، حکومتی انتخابی عملہ آپ کے باعزت خیر مقدم کے ساتھ ہمہ تن مستعد رہتا ہے۔ آپ کے ساتھ اضافی تعاون کے لئے آپ کی سیاسی جماعتوں کے پُرجوش کارکن موجود ہوتے ہیں۔

تاریخ کی مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی قوم کی حالت اس وقت بدلتی ہے جب وہ خود اپنی حالت کو بدلنے پر تیار ہوجاتی ہے۔ بلا شبہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے کوشش کی۔ اگر ہم علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کی تعبیر کے ملک پاکستان کے شہری ہیں تو ہمیں اپنے تکلیف دہ حال کو بدلنے کے لئے اس اہم حقیقت کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ قیادت کے انتخاب کو محض سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنے کے بجائے دینی ملی و قومی فریضہ سمجھنا ہوگا۔ اپنے ووٹ کو خدا کی امانت سمجھتے ہوئے صرف ایسے فرد کے حق میں استعمال کرنا ہوگا جو حقیقتاً اس بار امانت کو اٹھانے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہو۔

قوم کی معتبر ترین شخصیت مفتی اعظم پاکستان کے مطابق بھی ہم جس اُمیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعی طور پر ہم اسکی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریہ، علم و عمل اور دیانت داری کی رو سے اس ذمہ داری کا اہل اور دیگر امید واروں سے بہتر ہے اس طرح ہر ووٹر اپنے ووٹ کی گواہی کے لئے دنیا و آخرت دونوں جگہ جواب دہ ہے۔ آپ کی دنیا آپ کے شہر کے حالات بہتر ہوں گے تو صرف آپ کی رائے دہی سے، اس کے لئے سُستی، مایوسی اور بددلی سے دامن چھڑا کر نئے عزم کے ساتھ اٹھنا ہوگا۔ حکومتی وسائل اور اقدامات کی ناشکری کے بجائے ان کی قدر کرنا ہوگی ۔

آئندہ کے 5 سالہ طویل مدت کے امن و سکون کی خاطر مختصر سی مسافرت پر جاکر اپنے حقِ رائے دہی کو بہتر انداز سے استعمال کرنا سراسر نفع کا ہی سودا ہے۔ جس طرح ایک خوب صورت اور مضبوط عمارت میں ہر اینٹ اس کی خوب صورتی اور مضبوطی کا ذریعہ ہے، اِسی طرح آپ کے شہر کے خوب صورت، پُرامن اور صاف ستھرے ماحول کے لئے آپ کا ووٹ اہم ہے۔ ہمارے شہر میں امن و اعتبار کی فضا کی آمد میرے اور آپ کے ووٹ کی معتبر گواہی کی منتظر ہے۔
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روح اُمم کی حیات، کشمکشِ انقلاب
صورتِ شمشیر ہے، دستِ قضاء میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

[poll id="809"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں