مذاق سے ہٹ کر

منہ چڑانا، پھبتی کسنا، طعنے دینا یا عیب جوئی کو کوئی بھی نام دے دیا جائے لیکن یہ مذاق قطعاً نہیں ہوسکتا۔


میرشاہد حسین December 07, 2015
مذاق اور سنجیدگی کو محسوس کرنے کیلئے ہماری حس مزاح کا درست ہونا ضروری ہے۔ فوٹو:فائل

WASHINGTON: مذاق سے ہٹ کر لکھنا بھی مذاق ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مذاق کی باتوں پر ہمیں رونا اور رونے کی باتوں پر ہمیں ہنسی آتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں ہم مذاق کو مذاق نہیں سمجھتے اور سنجیدہ ہوجاتے ہیں اور سنجیدہ باتوں پر ہم مذاق اڑاتے ہیں۔ جس طرح مٹھاس اور نمکین کو محسوس کرنے کیلئے زبان کا صحیح ہونا ضروری ہے اسی طرح مذاق اور سنجیدگی کو محسوس کرنے کیلئے ہماری حس مزاح کا درست ہونا بھی ضروری ہے۔

جس طرح بہت زیادہ گرم چیز زبان کو جلا دیتی ہے اور پھر ہماری زبان میٹھا نمکین محسوس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہے، بالکل اِسی طرح کوئی بھی زندگی میں غیر متوقع واقعہ ہماری حسِ مزاح کو بے رنگ سا کر دیتا ہے۔ جس طرح غیر صحت بخش غذاؤں کے استعمال سے ہمارا معدہ خراب ہوجاتا ہے اور پھر ہلکی چیزیں بھی ہضم کرنے کے قابل نہیں رہتا اسی طرح ہماری زندگی میں لغویات ہماری حسِ مزاح کو خراب کرتی ہیں۔

مذاق دراصل ایک ایسا کلام ہے جس میں سچائی، دلیل، منطق، فصاحت اور لطافت ہوتی ہے اور اس کے سننے سے دل مسرور ہوتا ہے۔ صحیح اور اچھے مذاق سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی۔ مذاق ایک ایسی تفریح ہے جو ہر شخص کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس سے زندہ دلی پیدا ہوتی ہے اور نفیس جذبات کو ابھارتی ہے۔ جہاں اس مہذب تفریح کو نظر انداز کیا گیا وہیں پھکڑ پن نے ڈیرے ڈال لئے۔ متانت اچھی چیز ہے مگر ہر وقت کی متانت انسان میں افسردگی اور سوگواری پیدا کرتی ہے۔

ہمارا ٹی وی چینل، کیبل نیٹ ورک کے سینکڑوں چینلوں میں گم ہوچکا ہے اور اسٹیج پر ایسے ''فنکاروں'' کا قبضہ ہے جن کی کار صرف اتنی ہے کہ وہ جگت ''مارتے'' ہیں اور ایسی ''کھنڈی چھری'' سے مارتے ہیں کہ جگت بے چارے نہ مرتی ہے نہ بچتی ہے بلکہ پاس پڑی تڑپتی رہتی ہے۔ اگر ان فنکاروں پر صرف یہ پابندی لگا دی جائے کہ تم عورت کے حوالے سے بات نہیں کرو گے تو ان کے سارے فن کا ''پھن'' ہی ختم ہوجائے۔

اگرچہ ہنسی ایک لطیف عمل ہے مگر ایسے ہی غبی قسم کے ''پھن کار'' اپنی عامیانہ جگت ''ماری'' سے نئی نسل کے ذہن متاثر کررہے ہیں۔ ایسے میں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ بتایا جائے کہ ہنسی مذاق کیا ہے۔

مذاق کیا ہے؟ منہ چڑانے کو، پھبتی کسنے کو، طعنے دینے کو یا عیب جوئی کرنے کو جو بھی نام دے دیا جائے لیکن یہ مذاق قطعاً نہیں ہوسکتا۔ اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی کا ٹھٹھا کرنے سے، کھلی اور چہل کی باتوں سے اور اپنی کامیابی سے ہنسی آتی ہے مگر دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ انسان آڑے وقت میں بھی ہنستا ہے۔ کبھی کبھی اپنے کئے پر شرمسار ہو کر بھی ہنستا ہے۔ یہیں سے شکر خند، زہر خند، کھسیانی ہنسی جیسے محاورے دریافت ہوئے۔

ایک بات اور دیکھنے میں آئی ہے کہ وہی بات جس پر کوئی آدمی پہلی بار تو بہت ہنسا مگر جب وہی بات بار بار اس کے سامنے دہرائی گئی تو دیکھا گیا کہ اس پر اس بات کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہنسی کسی کی اجنبی ہئیت، کسی اتفاقیہ واقعے، کسی کی معصومیت اور کسی کے برمحل سوال یا جواب پر آتی ہے۔

چونکہ ضروری تھا کہ مذاق سے ہٹ کر لکھنے کیلئے پہلے مذاق کو واضح کیا جائے کہ مذاق کیا ہوتا ہے۔ اب آتے ہیں مذاق سے ہٹ کر، یہ بات اکثر دیکھنے اور سننے میں آتی ہے کہ ہم مذاق کرتے وقت کہتے ہیں بھئی مذاق کررہا تھا یا اگر کسی کو مذاق لکھ رہے ہیں تو یہ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ یہ مذاق ہے۔ ورنہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جس سے مذاق کیا جارہا ہو، یا لکھا جا رہا ہو، وہ سنجیدہ ہوجائے اور بات جھگڑے اور ناراضگی تک پہنچ جائے اور اگر کسی کو سنجیدگی میں کہا جائے تو ساتھ میں یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ مذاق سے ہٹ کر ورنہ ہوسکتا ہے کہ آپ کی بات کو مذاق میں اڑا دیا جائے۔ اب ذرا غور کریں مذاق سے ہٹ کر یہ سب مذاق نہیں ہے؟

[poll id="812"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔