ایک افسوسناک معاملہ
20 نومبر کو جہلم میں ایک افسوسناک واقعہ ہوا جب ایک فیکٹری کو جلا دیا گیا۔
20 نومبر کو جہلم میں ایک افسوسناک واقعہ ہوا جب ایک فیکٹری کو جلا دیا گیا۔ میرے آرٹیکل میں جو 15جولائی 2010ء کو Targetting Perjury کے عنوان سے شایع ہوا اس میں کہا گیا تھا کہ ''انصاف کے حصول میں جب اعتماد نہ رہے تو یہ نظام انصاف مجرموں کے پنپنے کا باعث بن جاتا ہے اور اگر سماجی احتجاج کی کوئی تحریک متشدد شکل اختیار کر لے تو یہ تشدد پورے ملک میں پھیل سکتا ہے۔
فوجداری مقدموں میں مجرم کو وہی سزا دی جانی چاہیے جس کا کہ مجرم مستحق ہو، مزید براں اس کے خلاف پیش کیے جانے والے شواہد و ثبوت غیر جانبدارانہ اور درست انداز میں اکٹھے کیے گئے ہوں''۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنے اور انتشار پھیلانے کی قطعاً اجازت نہیں دینی چاہیے۔ بعض عناصر توہین کے قانون کو تبدیل کرانے کے لیے بھی مختلف تنازعات کھڑے کرتے ہیں اور ان کو ہوا دیتے ہیں۔ محترمہ بینظیر اور جنرل مشرف نے ترمیم کی کوشش کی لیکن انھیں کامیابی نہیں ہوئی۔ اصل بات یہ ہے کہ قانون اس قدر مضبوط ہونا چاہیے کہ اس کے شکنجے سے مجرم بچ کر نہ نکل سکے۔
آپ ان جنگوں کے دوران جو پاکستان کو لڑنا پڑیں ان میں اقلیتوں کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں پر ایک نگاہ ڈالیں۔ کیپٹن (بعد ازاں کرنل) جاوید جلالی کے جسد خاکی میں 27 گولیاں پیوست تھیں یا میجر (بعدازاں میجر جنرل) جولیان پیٹر 16 دسمبر 1971ء کو میدان جنگ میں رائفل کمپنی کی کمان کرتے ہوئے شدید زخمی ہو گئے لیکن انھوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ 1971ء کی جنگ کے بعد چند نشانِ حیدر پانے والے جوانوں میں لانس نائیک محفوظ بھی شامل تھے جن کا تعلق 15 پنجاب رجمنٹ سے تھا۔ یونٹ کے کرنل Cyril Leonar لڑائی کی کمان کر رہے تھے۔ آنجہانی گروپ کیپٹن سیسل چوہدری کو اپنی دلیرانہ ادائیگی فرض پر ستارہ جرات عطا کیا گیا۔ انھوں نے زمین سے نہایت بھاری گولہ باری کے باوجود بھارت کے فضائی اڈوں کو تباہ کر دیا۔
پاکستان میں جوہری اثاثوں سے زیادہ اہم کوئی اور چیز نہیں۔ آخر بریگیڈئیر (ر) سائمن شرف کو جو پاکستان ایکس سروس مین ایسوسی ایشن (PESA) کے نہایت قابل بھروسہ افسر ہیں جنھیں جی ایچ کیو نے پاکستان کی نیو کلیئر پالیسی کی تشکیل کرنے کا اعزاز دیا۔ اس نوع کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل کے ایم اظہر جو بعد میں NWFP کے گورنر بنے اور میجر جنرل ناصر جی او سی 33 ڈویژن یہ دونوں بھارتی فضائی حملے کے نتیجے میں زخمی ہو گئے کیونکہ انھیں جو مشن سونپا گیا تھا وہ بے حد خطرناک تھا۔ اس علاقے میں بھارتی توپخانہ سیدھا فائر کر رہا تھا۔ کمپنی کمانڈروں میں سے ایک نے دل کی تکلیف کے بہانے معذرت کر لی تاہم کرنل تاج نے بڑی خاموشی کے ساتھ کیپٹن (بعد میں میجر جنرل) فہیم اختر کو ''الفا کمپنی'' کی کمان سنبھالنے کا کہا اور میری ''ڈیلٹا کمپنی'' کو ''براوو کمپنی'' کی جگہ لینے کا حکم دیا۔ اس موقع پر ہمیں چائے کے ساتھ سوکھی روٹی اور دال پیش کی گئی جب کہ حامد نیاز نے بڑی خوشدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم بھوکے پیٹ کے ساتھ شہید نہیں ہو سکتے۔
کیپٹن نصیر طارق اور سکینڈ لیفٹیننٹ حنیف بٹ (جسے ہم پیار سے سنگاں والا کہتے تھے) وہ بڑے جوش و خروش سے رضا کارانہ طور پر ہمارے ساتھ چلنے پر تیار ہو گیا حالانکہ اسے اپنی منزل کا علم نہیں تھا۔ یہاں مجھے اپنا مارچ 2013 ء میں شایع ہونے والا ایک اور آرٹیکل یاد آ رہا ہے جس کا عنوان تھا ''دوبارہ مارچ کا خیال'' مضمون میں تحریر کیا گیا تھا ''ایک کیپٹن اور ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ دسمبر 1971ء میں ایک صحرا میں خوشدلی سے شجاعت کا نمونہ بنے کھڑے تھے جو اپنے وطن کے لیے جنگ کرتے ہوئے جان قربان کرنے کے لیے تیار تھے' یہ دونوں احمدی تھے۔
بعدازاں میجر بننے کے بعد انھوں نے آرمی چھوڑ دی تاہم وہ غیر معمولی جانباز کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ دھرتی کے یہ بہادر بیٹے 42 سال کے بعد بھی میرے دوست ہیں۔ بعد ازاں 1973ء میں یہ دونوں بلوچستان میں تھے اور وہاں پر بھی وطن کی حفاظت کے لیے جان دینے پر تیار تھے۔
ہمارے رہنماؤں کو اقلیتوں کے تحفظ کی ذمے داری ہر صورت پوری کرنی چاہیے اور ان میں اتنی جرات ہونی چاہیے کہ وہ تعزیرات پر عمل درآمد کرا سکیں کیونکہ جیسے ڈیوڈ سیبری (David Seabury) نے کہا ہے کہ جرات اور عزم صمیم دشمن کے خلاف سب سے زیادہ طاقتور ہتھیار ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں محض زور بازو یا بندوقوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ جب ڈرے ہوئے ہوں تو اس کو جانور بھی محسوس کر لیتے ہیں اور ایک بزدل بھی جان لیتا ہے کہ کب آپ ڈرے ہوئے نہیں۔ وہ لوگ جو کمزور اور بے یارو مدد گار پر ہاتھ اٹھاتے ہیں وہ جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔ یہ دراصل انتہائی بزدل لوگ ہوتے ہیں۔یہ ایک انتہائی افسوسناک معاملہ ہے۔