اپٹما کا حکومتی رویے کے خلاف ہفتہ وار ہڑتال کرنے کا اصولی فیصلہ

حکومت آئی ایم ایف سےقرضےلینےکو تیار ہےلیکن اپنی صنعت کی بحالی کے لیے کوئی عملی اقدامات کرنے کو تیار نہیں،اپٹما پنجاب


نیوز رپورٹر December 06, 2015
اگر ٹیکسٹائل سیکٹر کے مسائل حل نہ ہوئے تو 1 سال میں ایکسپورٹ 4 ارب ڈالرگرجائے گی۔ فوٹو: فائل

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما)کی جنرل باڈی کے گزشتہ روز اجلاس میں ہفتے میں1 دن ٹیکسٹائل ملز کی ہڑتال کی تجویز کو ممبرز اصولی طور پر منظور کر لیا ہے تاہم ملتان میں بلدیاتی انتخابات کے باعث وہاں کے ممبرز کی اجلاس میں عدم شمولیت کے باعث اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔

اب ہفتے میں 1روز ہڑتال کا اعلان ممبرز کے آئندہ جنرل باڈی اجلاس میں کیا جائے گا۔ دریں اثنا اپٹما پنجاب کے چیئرمین عامر فیاض نے گروپ لیڈر گوہر اعجاز اور دیگر کے ہمراہ گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرضے لینے کو تیار ہے لیکن اپنی صنعت کی بحالی کے لیے کوئی عملی اقدامات کرنے کو تیار نہیں، حکومتی رویے کے خلاف ہفتے میں 1 روز ملیں بند کریں گے۔

اپٹما رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت نے شوگر انڈسٹری کے لیے بیل آؤٹ پیکیج کا اعلان کیا ہے لیکن ملک کی سب سے بڑی صنعت اور روزگار فراہم کرنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ عامر فیاض نے کہاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کوتباہ کیا جارہا ہے، گزشتہ 2 سال میں 2 لاکھ مزدور بے روزگار ہو چکے، ٹیکسٹائل سیکٹر کے مسائل حل کرنے کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں جبکہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض لے کر ہماری پشتوں کو مقروض کر رہی ہے۔

55 فیصد ٹیکسٹائل صنعت ایکسپورٹ سے وابستہ ہے اور حکومت کے سنجیدہ نہ ہونے کے باعث اب تک پنجاب کی 70 ملیں بند ہو چکی ہیں، لگتا ہے کہ حکومت کو پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہونے کا انتظار ہے اور اگر یہ صنعت بند ہو گئی تو ڈیڑھ کروڑ مزدوروں کو روزگار کون فراہم کرے گا۔ اپٹما کے مرکزی سینئر نائب صدر شاہد مظہر نے کہاکہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ایکسپورٹ میں کمی آئی۔

اگر ٹیکسٹائل سیکٹر کے مسائل حل نہ ہوئے تو 1 سال میں ایکسپورٹ 4 ارب ڈالرگرجائے گی، حکومت سیلز ٹیکس ری فنڈ کا مسئلہ بھی حل کرنے کو تیار نہیں جبکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری بغیرکسی وزیر کے چل رہی ہے۔ پریس کانفرنس میں ایس ایم تنویر، احسن بشیر، سید علی احسان، سیٹھ محمد اکبر، جاوید اقبال، علی پرویز ودیگر ممبران موجود تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں