اداروں کا استحکام اور ہارٹ آف ایشیا کانفرنس

راؤ صاحب کا یہ کہنا بجا تھا کہ امریکا میں اکثریتی عوام کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارا وزیر دفاع کون ہے


Tanveer Qaisar Shahid December 07, 2015
[email protected]

مسکراہٹ، امید پرستی اور بلا استثنیٰ میڈیا کے ہر چھوٹے بڑے فرد سے براہ راست تعلق استوار کیے رکھنا پرنسپل انفارمیشن آفیسر جناب راؤ تحسین علی خان کی شخصیت کی پہچان ہے۔ حالات خواہ کیسے بھی ہوں، یہ اوصاف ان کے دامن گیر رہتے ہیں۔ وہ مجالس بھی برپا کرتے ہیں تو ان کے پیشِ نگاہ یہی مقصد رہتا ہے کہ حکومت نے جو فرائض ان کے ذمے لگا رکھے ہیں، پورے ہوتے رہیں۔ وہ پی آئی او نہیں بھی تھے، تو بھی خصوصی طور پر اخبار نویس برادری میں ان کا حلقۂ یاراں وسیع بھی تھا اور ان کی برپا کردہ مجالس بھی جاری رہتی تھیں۔ وزارتِ اطلاعات کے سینئر اور دانشور طبع افسر جناب محمد سلیم بیگ، جو خود بھی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دَور میں پی آئی او رہے ہیں، تب بھی راؤ صاحب کے برابر کے دوست اور محب تھے اور آج بھی ہیں۔ بیگ صاحب آجکل وزارتِ اطلاعات ہی کے ایک اہم ادارے DEMP کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔

گزشتہ روز بھی راؤ تحسین علی خان صاحب نے اخبار نویسوں کے لیے ایک مجلس کا اہتمام کیا تو از راہِ کرم اس خاکسار کو بھی مدعو کیا۔ میزبان راؤ صاحب شلوار قمیض پہنے ہوئے تھے۔ اوپر سیاہ سویٹر۔ ''کو میزبان'' جناب سلیم بیگ حسبِ معمول، شاندار سوٹ پہنے اور جدید طرز کی نکٹائی لگائے ملے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ بہر حال موجود ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ناگزیر اور انتہائی ضروری ضربِ عضب آپریشن، جس کی امریکا اور مغربی ممالک بھی تعریف کر رہے ہیں، کے لیے امریکا کی طرف سے جو مالی اعانت فراہم کی جا رہی ہے، اس کا مصرف کہاں ہے؟ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ قوم و ملک کے تحفظ و سلامتی اور وطنِ عزیز کو دہشت گردوں کے عفریت سے بچانا ہے تو پھر اس ملک کے ہر فرد کو مالی ایثار کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پھر سیکیورٹی فورسز کے مزید اخراجات چالیس ارب ہوں یا چالیس کھرب، ہمیں اپنے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر ان اخراجات کو پورا کرنا چاہیے۔

لاریب ضربِ عضب آپریشن کے نہایت مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ظالمان اور غیر ملکی دخیل طاقتوں نے وطنِ عزیز میں دہشت گردی، خونریز دھماکوں، اغواء برائے تاوان اور خوف و دہشت کے جو گمبھیر سائے پھیلا رکھے تھے، جنرل راحیل شریف کی عسکری قیادت اور وزیر اعظم نواز شریف کے باہمی تعاون سے یہ فضا اب تقریباً چھٹ چکی ہے۔ اس معاملے میں بعض لوگ اپنے یکطرفہ ذہنی جھکاؤ کے سبب ان مثبت اثرات کا سارا کریڈٹ ایک ادارے کو دیتے ہیں۔ یہ اندازِ فکر غیر متوازن ہے کہ جب تک سویلین منتخب قیادت اور عوام کا بھرپور تعاون و محبت میسر نہ ہو، دنیا کی کوئی بھی عسکری طاقت کسی بھی جنگ میں کامیابی کے مراحل اور مدارج طے نہیں کر سکتی۔ جناب راؤ تحسین علی خان کا، شرکت کنندگان اخبار نویسوں کا مجادلہ نما مکالمہ سن کر، اسی لیے یہ کہنا تھا کہ قوم و ملک کا مستقل استحکام اسی میں ہے کہ ہماری شخصیات نہیں بلکہ ہمارے قومی ادارے مضبوط و مستحکم ہوں اور یہ کہ قومی اداروں کو تقویت بہم پہنچانا ہماری اجتماعی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں لیکن اگر ہمارے قومی ادارے مضبوط و مستحکم ہیں تو ملک و قوم کو گزند پہنچے گا نہ اس کی بنیادوں کو ضعف پہنچ سکتا ہے۔

راؤ صاحب کا یہ کہنا بجا تھا کہ امریکا میں اکثریتی عوام کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارا وزیر دفاع کون ہے اور کون ہمارا چیف آف آرمی اسٹاف ہے، وہ صرف اپنے میرینز کو جانتے ہیں اور ان پر گہرا اعتماد و ایقان بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان کے بیس کروڑ عوام نے بھی امید اور آنے والے خوشحال دنوں کے اسی دھاگے سے خود کو باندھ رکھا ہے۔ یقینا اچھے دن آنے والے ہیں۔ پاکستان اپنے حقیقی روپ میں ابھر کر اقوامِ عالم میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ غیر ملکی دانشور اور مدبرین بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر روس کے ممتاز ترین فلسفی اور سیاسی تجزیہ نگار جناب اینڈریو کوربکو۔ جدید روس کے وقیع اور عالمی شہرت یافتہ تھنک ٹینک RISS (رشئین انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز) کے روبرو اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے روسی تجزیہ نگار جناب اینڈریو کوربکو نے کہا ہے کہ پاکستان میں ترقی کے جو نئے نئے دروازے کھلنے والے ہیں، اس بنیاد پر پاکستان یوریشین ممالک میں مرکزی حیثیت اختیار کر جائے گا۔

اینڈریو کوربکو کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے پاکستان جغرافیائی طور پر ایک ایسی جگہ پر واقع ہے کہ اسے نظر انداز کر کے دنیا کی چار بڑی معیشتوں (روس، یوریشائی، چین اور بھارت) کی راہداریاں کامیاب ہو ہی نہیں سکتیں۔ اپنے خطاب بعنوان Pakistan Is The "Zipper" of Pan-Eurasian Integration میں اینڈریو کوربکو نے پاکستانی حکام کو کُھل کر خبردار کیا ہے کہ وہ امریکی سازشوں سے باخبر رہیں کہ امریکا ہر صورت میں بلوچستان کو بھڑکانا چاہتا ہے اور ''چین پاکستان اکنامک کوریڈور'' کے راستے میں بھی وہ بار بار رکاوٹیں کھڑی کرتا رہے گا۔ اس روسی دانشور نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کی جو مہم چلی ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ انھیں کمزور کر کے CPEC منصوبہ بھی خاک میں ملا دیا جائے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو اس سے بھارت اور امریکا کی خوشیاں دیدنی ہوں گی۔ ایسا مگر ہو گا نہیں کہ افواجِ پاکستان بھی 46 بلین ڈالر کے اس عظیم منصوبے کی پشتی بانی کر رہی ہیں۔ دنیا میں پاکستان کے قائدانہ کردار ادا کرنے اور وطنِ عزیز میں طلوع ہونے والے اچھے ایام کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ آج سے اسلام آباد میں ''ہارٹ آف ایشیا'' عالمی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے۔

اس اہم کانفرنس کا میزبان پاکستان ہے جس میں دو درجن سے زائد ممالک کے وزرائے خارجہ کے شریک ہونے کی توقع ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی پانچویں کانفرنس ہے۔ اس کا مرکزی مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں امن و معیشت کی فضا مستحکم ہو اور پاکستان کا یہ برادر اسلامی ملک ہر شعبے میں ترقی کرے۔ ترکی کے تعاون سے تقریباً پانچ برس قبل یہ خواب استنبول میں دیکھا گیا تھا۔ پاکستان اس خواب میں کامیابی کے سارے رنگ بھرنا چاہتا ہے کہ افغانستان پُرامن ہو گا تو پاکستان بھی سُکھ اور اطمینان کا سانس لے سکے گا۔ یہ بات مگر حیرت خیز ہے کہ آج جب کہ افغان عوام کے بارے میں اسلام آباد میں دو روزہ ''ہارٹ آف ایشیا'' کانفرنس منعقد ہو رہی ہے، ٹھیک پانچ دن قبل افغان طالبان قائدین آپس میں لڑ پڑے۔ ایک دوسرے پر گولیاں برسائی گئیں اور مبینہ طور پر افغان طالبان کے موجودہ امیر ملا اختر منصور شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے عالمی کانفرنس کے موقع پر اس خونی خبر کا آنا نیک شگون نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں