معیشت ایکسرے اور علاج

ملکیت انسان کی فطرت میں ابتدا ہی سے شامل رہی ہے۔ اس کے لالچ میں انسان تگ و دوکرتا ہے


شاہد سردار December 07, 2015

ملکیت انسان کی فطرت میں ابتدا ہی سے شامل رہی ہے۔ اس کے لالچ میں انسان تگ و دوکرتا ہے، اس سے اسے محروم کرنا معاشرے یا ملت سے دوستی نہیں اس سے دشمنی کے مترادف ہے کہ اس کے بغیر انسان کے اندرآگے بڑھنے اور وسائل دنیا کو ترقی دینے کا جذبہ ہی ختم ہوجاتا ہے اور اس کا انجام بھی ہم اور آپ روس میں دیکھ چکے ہیں۔

اس بات سے کون واقف نہیں کہ ہمارے ملک میں غربت، بے روزگاری اور حدوں کو چھوتی مہنگائی نے لوگوں سے ان کے جسم وجاں تک کا رشتہ چھین لیا ہے ۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا میں وہی قومیں اور ملک ترقی واستحکام کی راہ پرگامزن ہوتے ہیں جو غیرممالک یا عالمی مالیاتی اداروں کے دست نگر نہیں ہوتے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کا شمار بھی ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے اور دسمبر 2015 میں ''آئی ایم ایف'' کی طرف سے من مانی کڑی شرائط پر پاکستان کو 50 کروڑ 50 لاکھ ڈالرکی نئی قسط جاری کی جائے گی ۔ وطن عزیز میں گزشتہ کئی سالوں سے ڈالرکے نرخوں میں جو مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے۔

اس دام ہمرنگ زمین سے نکلنے کے لیے حکمرانوں کو بھی اپنے ''شاہانہ اخراجات'' میں کمی کرکے سادہ زندگی گزارنے کی راہ اپنانا شرط اولین ہوگی اور ترقیاتی منصوبوں کو اپنے وسائل اور ضرورت کے مطابق مکمل کرنا بھی ضروری ہوگا اور جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک روشن مستقبل کے خواب محض سراب ہی ثابت ہوں گے،کیونکہ ہولناک ملکی معیشت چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ملکی قرضہ 68 ارب ڈالر ہوگیا۔ نندی پور پروجیکٹ کو ایک طرف رکھیں اب تو 272 ارب لاگت والا نیلم جہلم پروجیکٹ بھی 410 ارب تک جا پہنچا ہے، سب کے سامنے آئی پی پیز کو 190 ارب زیادہ ادا کردیے گئے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر 21 ارب ڈالر زرمبادلہ والے ملک میں 410 ملین ڈالرکے سود پر 500 ملین ڈالر قرض لے لیا گیا۔ آگاہی یہ بھی دینی ہے کہ ایک اہم سیاسی و کاروباری خاندان نے رشوت اور سفارش کے زور پر 200 ملین قرضہ دو فیصد سود پر لے کر اگلے ہی روز 7 فیصد سود پر دے کر اس ''منافع بخش کاروبار'' کی بنیاد رکھ دی ہے جس کے لیے اب ہر بااثر شخص بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔

یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ معاشی سطح پر پاکستان غیروں کے شکنجے میں جکڑا جاچکا ہے اور اس کی خودمختاری اور بقا بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت بیرونی قرض کے وقتی فوائد اور ثمرات تو زوروشور سے گنوا رہی ہے مگر قوم کے ساتھ ان استحصالی قرضوں سے مکمل بازیابی کا کوئی قابل قبول حل پیش نہیں کر رہی اور یہ بات بھی سب پر واضح ہے کہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے باعث پیدا ہونے والا خسارہ اور بوجھ عوام کی طرف منتقل کردیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک کے اندر حد درجہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی تفاوت کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوجاتا ہے، اگر یہ صورتحال اس سے زیادہ بڑھی تو ملک میں انتشار بھی پھیل سکتا ہے اور بدامنی میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے، آئی ایم ایف کے مطالبے پر''منی بجٹ'' آگیا ہے ۔ مکھن، چاکلیٹ، فریج، کاسمیٹکس سمیت 360 سے زائد اشیا پر کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ کر کے مہنگائی کا نیا بم لوگوں کے سروں پر گرا دیا گیا ہے۔

ہمارے وزیر خزانہ نے جب سے ملک کی معاشی باگ ڈور سنبھالی ہے اس وقت سے وہ عوام کو مسلسل یہ خوشخبری سنانے میں مصروف ہیں کہ انھوں نے ملکی معیشت کو ایسی شاہراہ پر چلا دیا ہے جس سے اس کا مستقبل اتنا روشن ہوتا جائے گا کہ پاکستان کی معاشی ترقی دوسرے ملکوں کے لیے مشعل راہ بن جائے گی۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر صرف 9 دن کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بھی بمشکل کفالت کرسکتے تھے اب یہ 15 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں اور چار ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں اور عالمی بینک سے لیا جانے والا حالیہ قرضہ ملنے کے بعد ان میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ وزیر خزانہ کی طرف سے قومی معیشت کی یہ تصویر یقینا بہت خوش رنگ اور حوصلہ افزا ہے لیکن حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس منظر نامے کا صرف یہی مثبت پہلو ہی سامنے نہ رکھا جائے بلکہ اس کے دوسرے رخ پر بھی ضرور نگاہ ڈالی جائے۔اس حقیقت سے کوئی بھی باشعور انسان صرف نظر نہیں کرسکتا کہ صرف غیر ملکی قرضوں کے سہارے زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والے اضافے کو معاشی بہتری سے تعبیر کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ غیر ملکی قرضے جو اب 65 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں انھیں نہ صرف ملک کے عوام نے ادا کرنا ہے بلکہ ان پر تھوک کے حساب سے مارک اپ (سود) ادا کرنا ہوتا ہے۔

یہ ایک مسلم امر ہے کہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان سے تجارتی خسارے کا حجم 22 ارب ڈالر رہا اور یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی مالی سال میں ہونے والا سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہے۔ گزشتہ سات برسوں میں پاکستان کو تقریباً 130 ارب ڈالر (آج کے حساب سے 13 ہزار ارب روپے) کا تجارتی خسارہ ہوا جب کہ اس مدت میں بجٹ خسارے کا حجم تقریباً 8 ہزار ارب روپے رہا۔ اگر ان سات برسوں میں تقریباً 89 ارب ڈالر کی ترسیلات نہ آتیں تو معاشی صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہوتی۔ ان ترسیلات کا تقریباً 80 فیصد صرف چار ملکوں سے آتا ہے جوکہ صحت مند علامت نہیں ہے اور یہ چار ملک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکا اور برطانیہ ہیں۔

یہ ترسیلات پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے نہیں بلکہ ملک کے تجارتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، اس خدشے کو نظراندازکرنا دانشمندی نہیں کہ استعماری طاقتیں ایک حکمت عملی کے تحت ان چار ملکوں سے آنے والی ترسیلات میں اچانک زبردست کمی کراسکتی ہیں اور یہ بات بھی کوئی راز نہیں رہی ہے اب کہ پاکستان آنے والی ترسیلات کا ایک حصہ ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ مہیا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہ امر افسوسناک ہے کہ طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لیے وفاق اور چاروں صوبے ٹیکس کے شعبے میں اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ہماری حکومت نے معیشت کے فروغ کے لیے ٹیکسوں کی وصولی اور بچتوں کی شرح بڑھانے کے بجائے بیرونی قرضوں، امداد اور بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات ، قومی اثاثوں کی نج کاری اور اسٹیٹ بینک کے اشتراک سے تجارتی بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرضے لیتے چلے جانے کی جو حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس کے منفی اثرات واضح ہوتے چلے جا رہے ہیں، ستم بالائے ستم یہ کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی ہونے سے حکومت کو معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے، عام آدمی کی حالت بہتر بنانے اور ملکی و بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرکے ملک کو خود انحصاری کی طرف گامزن کرنے کا جوگولڈن چانس ملا تھا وہ ضایع ہوتا نظرآرہا ہے اور اسے یقینا ایک قومی المیے سے ہی تعبیرکیا جاسکتا ہے۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں کمزور اور ترقی پذیر ممالک کو اپنا باج گزار بنانے کا آسان طریقہ ان کی معیشت پر مکمل کنٹرول یا تسلط ہے، چنانچہ آج تک جن جن ممالک نے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی اداروں سے سود کی بنیاد پر قرضے لیے وہ اقتصادی طور پر تنزلی اور پسماندگی کا شکار چلے آرہے ہیں۔ رواں سال یونان میں آنے والا معاشی بحران اس کی واضح ترین مثال ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ہمارے حکمران ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے مزید قرضے حاصل نہیں کر رہے بلکہ ہمارے وزیر خزانہ کے بقول گزشتہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئی قسطیں لی جارہی ہیں۔

ملکی تاریخ اور اس کی موجودہ معیشت کا ایکسرے دیکھنے کے بعد کوئی عام سا آدمی بھی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ معاشی خود مختاری کے لیے سب سے پہلے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کرپشن اور بدعنوان طبقات نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔

یہ بات بہرطور سمجھنے کی ہے کہ ایسے ٹھوس اقدامات ہی معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں جن کے ذریعے روزگار کے ذرایع میں اضافہ، مہنگائی میں کمی، رسل و رسائل کی سہولتوں میں بہتری اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بجائے براہ راست ٹیکسوں پر انحصار ممکن ہو۔ ٹیکس ایمنسٹی کی اسکیمیں ٹیکس چوری کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ہماری دانست میں اگر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے منشور کے مطابق ''جہاں آمدنی وہاں ٹیکس'' کا اصول اپنایا جائے تو حکومت کو شاید غریبوں پر مہنگائی کا بوجھ بڑھاتے چلے جانے کی ضرورت نہ پڑے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں