بلوچستان کا احوال

موئنجودڑو، ٹیکسلا اور ہڑپہ سے بھی قدیم تہذیب مہر گڑھ بلوچستان کی ہے۔


Zuber Rehman December 07, 2015
[email protected]

موئنجودڑو، ٹیکسلا اور ہڑپہ سے بھی قدیم تہذیب مہر گڑھ بلوچستان کی ہے۔ موئنجودڑو، ٹیکسیلا اور ہڑپہ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا گہوارہ تھا، جہاں کمیون نظام رائج تھا۔ یہاں جنگ، اسلحہ، سرحد، فوج اسمبلی، ملکیت اور جائیداد نہیں تھی۔ آثار قدیمہ کی کھدائی کے بعد یہاں سب کچھ ملا لیکن اسلحہ نہیں ملا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ لڑتے نہیں تھے۔ رہائش، املاک، نالیاں، احاطے، مہریں، مورتیاں یعنی جو کچھ دستیاب ہوا، سب کچھ مشترکہ ملکیتیں تھیں۔ مگر یہاں خاندان کا تصور ایک حد تک تھا۔ لیکن مہر گڑھ بلوچستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں خاندان کا تصور نہیں تھا۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوتا تھا۔ یہ تہذیب کوئی چھ ہزار سال پرانی ہے۔ ان کے پاس جنگلات اور آبی وسائل کی بہتات تھی۔ لوگ جنگلات سے کھجور، انار، سیب، خوبانی، انگور اور بادام بے تحاشا حاصل کرتے تھے اور پانی سے مچھلیاں۔ آج بھی یہ علاقہ پھلوں اور معدنیات سے بھرپور ہے۔

ریکوڈک کے مقام پر تقریباً پانچ بلین ٹن سونا اور تانبا کے ذخائر موجود ہیں، جن کی مالیت کا تخمینہ تقریباً دو سو ستر بلین امریکی ڈالر لگایا گیا ہے۔ مسلم باغ کے مقام پر بیس ملین ٹن کرومائیٹ کے ذخائر ہیں۔ ڈومکی کے مقام پر اکاون ملین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں۔ شارق کے مقام پر چھہتر ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ مچھ میں تئیس ملین ٹن کوئلے موجود ہیں۔ چاغی میں دو سو پچاس ملین ٹن لوہے اور سینڈک میں پانچ بلین ٹن سونا اور تانبا، دالبدین میں دو سو ملین ٹن لوہے جب کہ دودار کے مقام پر زنک، بیلا کے مقام پر کرومائیٹ اور ماربل کے ذخائر سمیت لورالائی کے مقام پہ بھی بڑے پیمانے پر ماربل کے ذخائر موجود ہیں۔ یہاں پھلوں کی پیداوار پاکستان کے دیگر صوبوں سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں سیب کی سالانہ مجموعی پیداوار پانچ لاکھ چھپن ہزار تین سو سات ٹن، خوبانی ایک لاکھ اٹھہتر ہزار سات سو ایک ٹن، انگور 64 ہزار 353 ٹن، انار چھیالیس ہزار اکیاسی ٹن، بادام بائیس ہزار تین سو تئیس ٹن جب کہ کھجور پانچ لاکھ چوبیس ہزار چھ سو بارہ ٹن ہیں، تاہم اس مجموعی پیداواری حجم میں بلوچستان کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔

بلوچستان میں سیب کا پیداواری حجم چار لاکھ اکسٹھ ہزار دو سو اناسی ٹن ہے، جو مجموعی ملکی پیداوار کا 82.91 فیصد بنتا ہے۔ بیر کی پیداواری حجم اٹھائیس ہزار ایک سو تیراسی ٹن ہے جو مجموعی پیداوار کا 50.59 فیصد بنتا ہے۔ انگور کا پیداواری حجم تریسٹھ ہزار دو سو اکیاسی ٹن ہے جو مجموعی پیداوار کا 98.33 فیصد بنتا ہے۔ انار کا پیداواری حجم بتیس ہزار چھ سو چھ ٹن ہے، جو مجموعی پیداوار کا 70.75 فیصد بنتا ہے۔ بادام کا پیداواری حجم بیس ہزار پانچ سو دس ٹن ہے جو مجموعی پیداوارکا 91.84 فیصد بنتا ہے، کھجور کا پیداواری حجم دو لاکھ ایک ہزار اٹھانوے ٹن ہے جو مجموعی پیداوار کا 38.33 فیصد بنتا ہے۔ فشنگ کے لیے گڈانی، ڈمپ، مانی ہور، اورمارا، کلمات، پسنی، سر، گوادر، پشین اور جیونی پر مشتمل 745 کلومیٹر ساحلی پٹی موجود ہے۔

بلوچستان میں شمسی توانائی کے شعبے میں 1.2 ملین میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس دولت سے مالامال ہو کر بھی بلوچستان کے عوام بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری، بے علاجی اور ناخواندگی کے شکار ہیں۔ میں چند سال قبل زیارت گیا تھا، وہاں کے کاشتکاروں نے بتایا کہ پہلے آٹھ سو فٹ زیر زمین سے ٹیوب ویل کے ذریعے سیب کے باغات کے لیے پانی حاصل ہوجاتا تھا مگر اب قلت آب کی وجہ سے تیرہ سو فٹ نیچے سے پانی حاصل کرنا پڑتا ہے جو کہ کاشتکاروں کے لیے وسائل کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، جس کے باعث سیب کی کاشت میں پچاس فیصد کی کمی ہو ئی ہے۔ سرداروں کی اجارہ داری کی وجہ سے خضدار میں زیتون کی کاشت نہ ہونے کے برابر ہے۔

دنیا کا دوسرے نمبر کا سب سے بڑا چنار کا جنگل جو کہ ترکمانستان کے بعد زیارت ہے تباہ ہورہا ہے۔ ساحل سمندر کی مچھلیاں مقامی لوگوں تک پہنچنے سے قبل ہی سمندر میں ہی لانچوں کا امریکی سامراجی تاجروں کے ہاتھوں نیلام ہوجاتا ہے، خاص کر جھینگے کی سو فیصد تعداد، چین بلوچستان سے نکالے جانے والے سونے کا اکیاون فیصد خود لے جاتا ہے اور بلوچستان کو صرف دو فیصد ملتا ہے۔ ابھی حال ہی میں تین ہزار ایکڑ زمین گوادر میں چین نے خریدنے کے لیے پیشکش کی ہے، جس میں چھ سو ایکڑ زمین خرید بھی لی ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کے اٹھارہ لاکھ بچے اسکول نہیں جاپاتے۔ بلوچستان کے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں کے لوگوں نے پکی سڑک، چار پہیے کی گاڑی، بجلی کا بلب اور پنکھا تک نہیں دیکھا۔

دنیا کا سب سے زیادہ قدرتی وسائل سے مالامال جنوبی افریقہ کی آبادی کے پینتالیس فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں دنیا میں سب سے زیادہ ہیرا اور سونا پیدا ہوتا ہے، اسی طرح بلوچستان میں اربوں ٹن سونے کے ذخائر ہونے کے باوجود پاکستان کے سب سے زیادہ غریب لوگ بلوچستان کے ہیں۔ نومولود بچوں اور زچگی کے دوران ماؤں کی اموات سب سے زیادہ یہیں ہے۔ بلوچستان کے ان ذخائر کی لوٹ مار میں عالمی قوتیں پیش پیش ہیں جب کہ اندرون ملک، نوکر شاہی اور سرداروں کی لوٹ بھی انتہا پر ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور سے یہ ظلم ستم شروع ہوا۔ سات سگے بھائیوں کو دھوکا دے کر، مذاکرات کے نام پر پہاڑوں سے اتارا گیا اور پھر ان ساتوں بھائیوں کو پھانسی دے دی گئی۔ شاہ ایران کی خواہش پر ذوالفقار علی بھٹو کے ذریعے بلوچستان کی منتخب مینگل حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچ کارکنان کا قتل ہوا، جس میں اکبر بگٹی بھی شامل ہیں۔ بعد کے دور میں بھی بلوچ نوجوانوں کا قتل ہوا اور ہورہا ہے۔

بلوچستان میں مظلوم عوام کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے ہمیشہ قتل کیا جاتا رہا۔ سب سے بری حالت معدنیات کے کان کنوں کی ہے۔ انھیں پانچ چھ ہزار روپے کی تنخواہ پر کام کرنا پڑتا ہے۔ کان کنوں کی زندگی کی حفا ظت کا کوئی معقول اور محفوظ انتظام نہیں ہے۔ اسی طرح باغات میں کام کرنے والے مزدوروں اور مچھیروں کی ماہانہ آمدنی چار ہزار سے چھ ہزار روپے ہے، جب کہ حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ ایک مزدور کی کم از کم ماہانہ تنخواہ تیرہ ہزار روپے دی جائے۔ ایک جانب بلوچ سرداروں، وردی بے وردی نوکر شاہی کی اولاد یورپ اور امریکا میں پڑھتی ہے تو دوسری جانب مزدوروں اور سپاہیوں کی اولاد پانچویں جماعت تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایک روز جلد آنے والا ہے، جب ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ ملکوں کی سرحدیں، جنگ، اسلحہ، ملکیت اور جائیداد کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ ساحر نے درست کہا تھا ''ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں، چمن کو اس لیے مالی نے خون سے سینچا تھا کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں، زمیں نے کیا اس کارن اناج اگلا تھا کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں