اسکول کی بوا طالبات کی شاگرد بن گئیں

انگوٹھا لگانے والی ایلس بی بی اب دستخط کرنے کے قابل ہو گئی ہیں


Rizwan Tahir Mubeen December 07, 2015
’’اب اندازہ ہوا کہ ہمارے اچھے نمبروں پر اساتذہ کو کتنی خوشی ہوتی ہے‘‘ طالبات کی خصوصی گفتگو۔ فوٹو: فائل

KARACHI: آکاش پہ سورج کا نصف سے زیادہ سفر تمام ہو چکا ہے۔۔۔ سائے لمبے ہو رہے ہیں، دوپہر اب دھیرے دھیرے سہ پہر کی طرف سرک رہی ہے۔۔۔ وسیع وعریض اسکول جو صبح سے دوپہر تک جس قدر آباد اور پررونق رہتا ہے، اب اتنا ہی ویرانی کا منظر پیش کر رہا ہے، ماحول پہ سکوت طاری ہے، یعنی یہاں زیر تعلیم طالبات کی چھٹی ہو چکی ہے۔۔۔ ننھی بچیوں اور طالبات کی چہکار اور اساتذہ کی آوازوں سے گونجتی کلاسیں یوں خالی ہو گئی ہیں، جیسے یہاں کوئی تھا ہی نہیں۔ اسکول میں ابھی چند ایک طالبات ٹھیری ہوئی ہیں، جو گھر جانے کے لیے اپنی گاڑیوں کی منتظر ہیں، کچھ اساتذہ بھی اسٹاف روم میں موجود ہیں، جو رخت سفر باندھ رہی ہیں، ادھر اسکول کی وسیع وعریض راہ داری کے وسط میں دائیں جانب بنی ہوئی سیمنٹ کی پختہ نشست پر کچھ خواتین اپنے قاعدے کھول کر بیٹھ رہی ہیں، کچھ طالبات بھی اپنے بستے یہاں دھر کر کرسیاں کھینچ کے ان کے قریب ہو رہی ہیں۔۔۔

قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ماجرا کیا ہے؟ اس منظر کو سمجھنے کے لیے آئیے، ذرا کچھ گزرے ہوئے زمانے کے دریچے وا کرتے ہیں۔۔۔

یہ نصف صدی سے بھی پرانا قصہ ہے۔۔۔ وادیٔ راوی کے ایک دیہات میں ابھی علم کی روشنی فقط اس قدر ہے کہ لوگ لڑکوں کی ہی تعلیم پر آمادہ ہیں۔۔۔ اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے رضا مند نہیں۔۔۔ سو گاؤں بھر کی بچیوں کی طرح ننھی ایلس بی بی بھی بِنا اسکول جائے پروان چڑھی۔۔۔

وقت گزرتا جاتا ہے۔ دھرتی کے پھیرے، ہر لمحہ بچھڑتے ہوئے پَلوں کو شمار کرتے کرتے کئی برسوں، اور برسوں سے عشروں تک پہنچ جاتے ہیں۔۔۔ یہاں تک کہ پرانے زمانے کی ننھی ایلس بی بی اب اُس جیسے بچوں کی نانی دادی بن جاتی ہے۔۔۔ اس دوران جانے کب بچپن میں نہ پڑھ سکنے کا احساس شدید ہونے لگتا ہے۔ گاؤں میں آنکھ کھولنے والی ایلس اب عروس البلاد کراچی کی رہایشی ہے۔۔۔ ادھیڑ عمری کو پیچھے چھوڑ آنے کے باوجود معاش کی جدوجہد میں گھر والوں کی ساجھے دار ہے۔۔۔ سمے کس کس طرح روپ بدل کر سامنے آتا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا کاتب تقدیر نے بیتا قصّہ ہی ماہ وسال اور حالات کے کچھ فرق سے پھر دُہرا دیا ہے۔۔۔ ایلس بی بی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔۔۔ گو کہ اب ان کے گھرانے میں بچیاں بھی اسکول جاتی ہیں، مگر ایلس کی پڑھنے کی خواہش نا آسودہ رہ گئی، قسمت میں اسکول کے بچیوں کی خدمت لکھی تھی۔۔۔ سو وہ فیڈرل بی ایریا کراچی کے رونق اسلام اسکول میں صفائی ستھرائی کے کام پر مامور ہو گئیں۔۔۔ شاید لڑکیوں کے اسکول میں رہ کر ان کے من میں دبی یہ آشا پھر سے جاگ گئی ہوگی کہ وہ بھی پڑھ لیتیں۔۔۔ مگر اب کیا کیا جائے؟ اپنے تئیں اس کا حل یہ نکالا کہ فرصت کے وقت میں وہ خود سے کاغذ قلم لیے بیٹھ جاتیں اور کوئی بھی لکھی ہوئی تحریر نقل کرنے کی کوشش کرتیں۔۔۔ اردو کے حرف تہجی سے بھی ناآشنا تھیں۔۔۔ مگر کسی بھی طرح ٹوٹے پھوٹے انداز میں تلفظ بھی ادا کرنے کی کوشش کرتیں۔ عمر کے اس حصے میں اکیلے اس معرکے کو سرکرنا جان جوکھم کا کام تھا، لیکن وہ جُتی ہوئی تھیں۔

ایسے ہی ایک روز اسکول کی راہ داری میں وہ طالبات کے لیے جلی حرف میں آویزاں ایک ہدایت کاغذ پر نقل کر رہی تھیں کہ میٹرک کی ایک طالبہ حفصہ حنیف نے انہیں دیکھ لیا۔ اسکول کی بوا کو یوں لکھتے ہوئے دیکھنا یقیناً اچنبھے کی بات تھی۔ سو حفصہ، ایلس کے پاس جا پہنچیں اور سارا ماجرا جان لیا، پوچھا کہ اگر ہم آپ کو پڑھانا چاہیں تو؟ انہوں نے اس کا جواب اسکول انتظامیہ کی اجازت سے مشروط کر دیا کہ اگر اجازت مل جاتی ہے، تو میں ضرور پڑھوں گی۔

https://img.express.pk/media/images/Bua/Bua.webp

حفصہ نے پہلے اپنی کلاس ٹیچر مس سعدیہ واحدی سے بات کی اور یوں انہیں اسکول کی طرف سے اجازت مل گئی۔ ہفتے کے روز یہ واقعہ ہوا اور پیر سے انہوں نے دوپہر ڈیڑھ بجے اسکول کی چھٹی کے بعد آدھے گھنٹے کے لیے ایلس کو پڑھانا شروع کر دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی ایلس کی مزید تین ساتھی خواتین کلثوم غلام حسین، حرا مشتاق اور نجمہ بی بی بھی آملیں، تو حفصہ نے بھی اپنی ہم جولیوں کی مدد لی اور اقصیٰ جاوید، عائشہ شیخ اور وجیہہ امجد نے بھی ان کے ساتھ تدریس کی مسند سنبھال لی۔ نوعمر طالبات کا اپنے والدین سے بھی معمر لوگوںکو پڑھانا اتنا آسان نہ تھا۔۔۔ بالخصوص ایلس کو تو پینسل بھی پکڑنا نہیں آتی تھی، لیکن انہوں نے کوشش جاری رکھی۔ انہیں اسکول کی طرف سے کتابیں، کاپیاں وغیرہ بھی فراہم کی گئیں۔

ایلس بی بی نے پڑھنے لکھنے کی کوشش کا اصل سبب یہ بتایا کہ وہ خود سے بائبل پڑھنا چاہتی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ یہ کتاب خود سے پڑھ سکیں۔ اب دھیرے دھیرے لکھنا پڑھنا سیکھ رہی ہیں، تو بہت اچھا لگ رہا ہے۔

ایلس کو بچیوں کی محنت کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ پڑھائی کے لیے روزانہ آدھا گھنٹا اسکول میں ہی صرف کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں اب وہ اے، بی، سی اور الف، ب، پ پوری سیکھ چکی ہیں۔ انہوں نے پڑھائی کے لیے کوئی خاص ہدف طے نہیں کیا، بس یہی چاہتی ہیں کہ لکھنا پڑھنا سیکھ جائیں۔

اسکول کے غیر تدریسی عملے کی رکن اور ایلس بی بی کی ایک اور ساتھی نجمہ بی بی اگرچے بچپن میں اسکول ضرور گئیں، مگر گھریلو حالات کی بنا پر تیسری کلاس سے آگے نہ پڑھ سکیں۔ اس کے بعد شادی ہو گئی، ان کا ایک بیٹا ہے، جسے پڑھانے کی بہت کوشش کی، مگر میٹرک میں ناکامی کے بعد اس نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ یہاں جب انہوں نے ایلس کو پڑھتے ہوئے دیکھا، تو موقع غنیمت جانا۔ اردو لکھنا پڑھنا تو پہلے ہی خوب جانتی ہیں، لیکن انگریزی لکھنے پڑھنے اور بولنے کا بے حد شوق ہے۔ اب نہایت دل جمعی سے انگریزی الفاظ اور ہجے وغیرہ سیکھ رہی ہیں۔ اپنے تعلیمی اہداف کے بارے میں کہتی ہیں کہ جب تک عمر ساتھ دے گی پڑھتی رہوں گی۔ اسکول کی طالبات کے دیگر دو ''شاگرد'' حرا مشتاق اور کلثوم غلام حسین بھی بچپن میں بوجوہ نہ پڑھ سکیں، وہ بھی ان کی باقاعدہ طالبہ ہیں۔

حفصہ حنیف نے ایلس بی بی اور نجمہ بی بی کی تعلیمی کارکردگی کے حوالے سے بتایا کہ ''انہیں عمر کی وجہ سے کافی مشکلات ہوتی ہیں، مگر اچھی بات یہ ہے کہ ان میں سیکھنے کا جذبہ موجود ہے، جس سے ہمیں بھی مہمیز ملتا ہے۔ اب ان کا سال بھر کا امتحان لینے والے ہے۔ حفصہ حنیف، ایلس بی بی اور حرا مشتاق کو پڑھاتی ہیں، اس کے علاوہ یہ اسکول کی 'اسٹوڈنٹ کونسل' میں بھی انپی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ جماعت نہم میں 71 فی صد نمبر لیے، اب ان کی آنکھوں میں ڈاکٹر بننے کا سپنا سجا ہے۔

https://img.express.pk/media/images/Bua1/Bua1.webp

اس کام میں حفصہ کی ہم رکاب ایک اور ہم جماعت عائشہ شیخ بھی ہیں، جو چار بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان کی تعلیمی منزل بھی ڈاکٹر بننا ہے۔ گزشتہ امتحان میں 73 فی صد نمبر حاصل کیے۔ اسکول کی چھٹی کے بعد تدریس کے لیے اہل خانہ کی مکمل مدد کا اعتراف کرتی ہیں کہ انہوں نے کبھی کسی کام کے لیے منع نہیں کیا۔ فرصت کے لمحات میں وہ اردو کی کتابیں پڑھنے کا شوق پورا کرتی ہیں۔

عائشہ، کلثوم غلام حسین اور نجمہ بی بی کو پڑھاتی ہیں، جب کہ ان کا ساتھ دینے کے لیے ہم جماعت اقصیٰ جاوید موجود ہوتی ہیں۔ یہ بھی مستقبل میں ڈاکٹر بننے کی متمنّی ہیں۔ اپنے اس کام کو اجتماعی کوشش کا ثمر اور والدین کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ قرار دیتی ہیں۔ ساتھ ہی چاروں آنٹیوںکی لگن اور محنت کی بھی معترف ہیں۔ اسکول سے گھر لوٹنے کے بعد اقصیٰ لینگویج کلاسز اور ٹیوشن میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کی چوتھی ساتھی وجیہ امجد بھی چاہتی ہیں کہ کالج کے بعد بھی یہ مفید سلسلہ جاری رہے، اور کوئی نہ کوئی یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھاتا رہے۔

اسکول کی غیر تدریسی عملے کی چار خواتین کو پڑھانے کا بیڑہ اٹھانے والی میٹرک کی یہ تمام طالبات اگلے چند ماہ میں اسکول سے وداع ہو جائیں گی، ایسے میں ان معمر طالبات کی تعلیم کا کیا بنے گا؟ اسکول کے کوآرڈینیٹر شعیب غازیانی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ہم یہ خدمت ہر میٹرک کلاس کی کچھ طالبات کے سپرد کر دیں گے۔ موجودہ طالبات خود اپنی جگہ لینے کے لیے آنے والی میٹرک کلاس سے ایسی ہی لگن رکھنے والی طالبات کا چناؤ کر کے جائیں گی، تاکہ یہ سلسلہ منقطع نہ ہونے پائے۔ اسکول میں پہلے ہی آٹھ سابق طالبات ہفتہ وار لیکچر دینے کے لیے آتی ہیں، اس کے علاوہ بھی کئی طالبات اسکول کے مختلف منصوبوں میں مددگار ہیں۔

شعیب غازیانی سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر یہ خواتین آگے چل کر کسی کلاس کے معیار کو پہنچ جاتی ہیں، تو کیا آپ انہیں اسکول میں باقاعدہ داخلہ دیں گے، جس پر انہوں نے کہا کہ انہیں ہم کلاس میں نہیں بٹھا سکتے، کیوں کہ ان کی عمر کے فرق کی بنا پر نظم وضبط متاثر ہوگا، لیکن ہم یہ ضرور چاہیں گے کہ دوپہر کے وقت اس اسکول میں تعلیم بالغاں کا سلسلہ شروع کریں اور ان کے لیے باقاعدہ استاد بھی رکھی جائے۔

تدریس کے فرائض ادا کرنے والی طالبات سے جب اس کام کو شروع کرنے کے بعد ان کے احساسات کے حوالے سے استفسار کیا اور دریافت کیا کہ اب وہ خود میں کیا تبدیلی محسوس کر رہی ہیں، تو حفصہ حنیف نے بتایا کہ اب جب بھی آنٹی ایلس اچھا ٹیسٹ دیتی ہیں، تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری اچھی کارکردگی سے ہمارے اساتذہ کو کتنی خوشی ہوتی ہے۔ وجیہہ امجد نے بتایا کہ اب یہ تبدیلی آئی ہے کہ پہلے ایلس آنٹی بینک جاتی تھیں، تو انگوٹھا لگاتی تھیں، اب وہ انگوٹھا لگانے کے بہ جائے دستخط کرنے لگی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں