اک وزیر خارجہ کا سوال ہے

اوورسیز پاکستانیوں کو بیرون ملک جن مشکلات کا سامنا ہے اس کیلئےتو پوری کتاب درکار ہوگی کہ ہرملک کی علیحدہ ہی داستان ہے۔


اویس حفیظ December 07, 2015
اگر پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنے کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو پاکستانیوں کے لئے پاکستان میں ہی جگہ کم پڑجائے گی۔ فوٹو: فائل

KARACHI: انصرامِ حکومت چلانے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت روزِ اول سے ہی محسوس کی جاتی رہی ہے ان میں سے ایک وزارتِ خارجہ بھی ہے جو بیرون ریاست معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہے مگر یہ مملکتِ خداداد پاکستان ہے جو گزشتہ ڈھائی سالوں سے کسی وزیرِ خارجہ کے بغیر چل رہا ہے۔

گذشتہ دنوں ایک صاحب سے جنہیں اپنے علم سیاسیات پر بہت زعم تھا، یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان کا وزیرِ خارجہ کون ہے تو موصوف کئی منٹ تک گہری سوچ میں ڈوب گئے پھر انہیں یاد آیا کہ یہ قلمدان تو وزارتِ عظمیٰ کے پاس ہے اور خود عزت مآب وزیر اعظم پاکستان وزیر خارجہ کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو سادگی کا وہ وعدہ ہے جس کے تحت کابینہ کا حجم ''غیر ضروری'' طور پر نہیں بڑھایا گیا۔ دوسری وجہ شاید کسی غیر شخص کا غیر ضروری طور پر بیرونی دوروں سے بچاؤ تھا کہ اب وزیر اعظم اکثر کانفرنسز میں وزیراعظم کی حیثیت سے بھی ملک کی نمائندگی کرتے ہیں اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے بھی۔

جہاں تک وزارت کے معاملات کی بات ہے تو یہ سارا کام مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کے سپرد کردیا گیا ہے اور وہی آج کل اس بیڑے کے ناخدا ہیں۔ یہ وزیر خارجہ کے نہ ہونے کے ہی ثمرات ہیں کہ پوری دنیا میں پاکستانی خجل و خوار ہو رہے ہیں اور کوئی ان کی دستگیری کرنے والا نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اوورسیز پاکستانی حکومتی بے اعتنائی کا رونا رو رہے ہیں اور حکومت کے کانوں پر کوئی جوں تک نہیں رینگ رہی۔ دوسری طرف دیارِ غیر میں مقیم پاکستانی جن نامساعد حالات میں کام کر رہے ہیں ہم یہاں بیٹھ کر ان کا ادراک بھی نہیں کر سکتے۔ اِس کے باوجود وہ ملک کو سالانہ کروڑوں ڈالر کا زرِ مبادلہ بھیج رہے ہیں اور حکومت کی ترجیحات محض وزارتِ خارجہ کے نام پر دنیا بھر کا دورہ کرنا اور پاکستان کی حاضری یقینی بنانا ہے۔

کیا وزیر اعظم نے کبھی وزیر خارجہ کی حیثیت سے ایک منٹ کے لئے بھی دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کی مشکلات جاننے کی کوشش کی ہے؟ ہرگز نہیں! وگرنہ حالات یہ نہ ہوتے کہ دنیا بھر میں آج سبز پاسپورٹ رکھنا ہی جرم بنا دیا گیا۔ شاید وزیر اعظم کو یہ علم بھی نہ ہو کہ اس وقت دنیا بھر میں 19 ایسے افراد کو مختلف ممالک میں بطور سفیر تعینات کیا گیا ہے جن کا فارن سروس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان میں سے 10 افراد فوج کے ریٹائرڈ افسران ہیں جبکہ 3 افراد فارن سروس کے ریٹائرڈ ملازمین ہیں اور یہ معلومات وزارت داخلہ کے حکام نے تحریری طور پر قومی اسمبلی کو دی ہے۔ ایک طرف ملک ''مامے، چاچے کے منڈوں'' کو سفیر بنا کر چلایا جا رہا ہے تو دوسری جانب حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں کہیں دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر اور کہیں پر امیگریشن قوانین میں تبدیلی کے نام پر پاکستانیوں کو دیس نکالا دئیے جانے کا کام تیز تر ہوچکا ہے۔

گذشتہ دنوں یورپی یونین کے ایک وفد نے تارکین وطن کے حوالے سے معاملات کو نمٹانے کے لئے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی سے ملاقات کی تھی جس میں مستقبل میں یورپی ممالک سے ڈی پورٹ کئے جانے والے پاکستانیوں کو واپس وطن بھیجے جانے کے طریقہ کار پر بات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں وزیر خارجہ نے یورپی یونین کے وفد پر یہ واضح کردیا تھا کہ غیر قانونی دستاویزات پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کو امیگریشن کے قوانین کے تحت ہی ملک واپس بھیجا جائے۔ پاکستانیوں پر محض شدت پسندی کا الزام لگا کر واپس بھجوانا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگا۔ اس دوران یہ بھی طے پایا کہ 6 سال قبل یورپی یونین اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں جو سقم موجود ہیں جب تک ان کو دور نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس معاہدے پر عمل درآمد معطل رہے گا۔

ایک طرف یہ معاملات طے پائے اور دوسری طرف پاکستانیوں کی پہلی کھیپ ناروے سے پاکستان پہنچ گئی۔ اسلام آباد میں ناروے کے سفارتخانے کے مطابق 30 کے قریب پاکستانیوں کو گذشتہ دنوں ناروے سے ڈی پورٹ کرنے کے بعد پاکستان بھیجا جاچکا ہے اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ ناروے میں تارکینِ وطن کے حوالے سے نئے اور سخت قوانین کا نفاذ ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ان پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ ان نئے قوانین کے مطابق حکام محض پناہ کی درخواست منسوخ ہونے کے خدشے کے تحت بھی کسی پاکستانی کو ڈی پورٹ کرسکتے ہیں، بھلے بعد میں اس کی درخواست منظور ہی کیوں نہ ہوجائے۔

خیر ناروے کے بعد یونان نے بھی 49 پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرکے پاکستان بھیجا ہے۔ جس وقت یہ پاکستانی ایک چارٹرڈ جہاز کے ذریعے اسلام آباد کے بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچے، اُسی وقت پاکستانی اور یونانی حکام کے مابین ایک تنازع بھی دیکھنے میں آیا۔ پاکستان نے طیارے میں سوار صرف 19 افراد کو ہی جہاز سے اترنے کی اجازت دی اور یہ موقف اختیار کیا کہ محض انہی لوگوں کی شناخت کی تصدیق ہوسکی ہے جبکہ باقی 30 افراد کو واپس یونان بھجوا دیا گیا۔ ادھر یونان کا موقف ہے کہ یہ افراد پاکستانی سفارتخانوں کی جاری کردہ دستاویزات کے زور پر یونان میں مقیم تھے، اسی وجہ سے ان لوگوں کو پاکستان بھیجا گیا۔ اگر بالفرض یونان کا موقف درست ہے تو یہ پاکستانی قونصل خانوں کا سب سے بڑا اسیکنڈل ثابت ہوگا کہ غیر ملکیوں کو پاکستانی دستاویزات کیونکر جاری کی گئیں۔ یہ تو خیر ایک علیحدہ معاملہ ہے اور وزارتِ داخلہ کے تحت آتا ہے جو اس وقت اپنی تمام تر توانائی بھارت کے ساتھ کرکٹ سیریز کے انعقاد پر صرف کر رہی ہے۔ لہٰذا اس سے کسی بھی قسم کی امید رکھنا عبث ہے۔

باقی اوورسیز پاکستانیوں کو بیرون ملک جن مشکلات کا سامنا ہے اس کے لئے تو پوری ایک کتاب درکار ہوگی کہ ہر ملک کی ایک علیحدہ ہی داستان ہے اور سب سے زیادہ مسئلہ ان لوگوں کو پاکستانی سفارتخانوں میں ہی ہوتا ہے۔ جہاں انہیں ''رانجھا دیس'' چھوڑ کر آنے کی سزا دی جاتی ہے۔

خارجہ امور کے حوالے سے اس وقت ایک بڑا معاملہ بیرون ملک قید پاکستانی بھی ہیں، جن کے لئے حکومتی سطح پر کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے۔ اقدامات تو دور کی بات وزارتِ خارجہ کو تو یہ بھی علم نہیں ہوگا کہ کس ملک میں کتنے پاکستانی قید ہیں؟ اُن پر کیا کیا الزامات ہیں اور یہ کہ ان کی رہائی کے لئے کیا اقدامات کرنے ہیں؟ تھوڑے دن قبل قومی اسمبلی کے ایک سوال و جواب کے سیشن میں وزارتِ داخلہ کی جانب سے قومی اسمبلی کو یہ بریفنگ دی گئی تھی کہ گزشتہ 3 سالوں کے دوران سعودی عرب میں 38 پاکستانیوں کے سر قلم کیے گئے ہیں۔ یہ افراد قتل اور منشیات کے مقدمات میں گرفتار ہوئے تھے جبکہ 2308 پاکستانی سعودی جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں اور2300 پاکستانی ملک بدری کے منتظر ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کےغیر قانونی کام میں ملوث ہونے پر وزارت کی جانب سے یہ بھونڈا موقف اختیار کیا گیا کہ گذشتہ کچھ عرصہ کے دوران نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر متعدد غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کئے ہیں۔ اِسی باعث اتنی بڑی تعداد میں افراد منشیات سمگلنگ کے الزام میں گرفتار ہوئے جس کے باعث ملک کی بھی بدنامی ہوئی۔ (یعنی وزارتِ داخلہ کے مطابق غیر قانونی طور پر شناختی کارڈ بنوانے والے افراد سعودی عرب میں منشیات کا کاروبار کر رہے ہیں)۔

پھر قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ عراق میں 500 کے قریب پاکستانی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ یہ افراد مقدس مقامات کی زیارت کے لئے گئے تھے اور ویزہ ختم ہوجانے کے بعد بھی یہ وہیں پر قیام پذیر ہوگئے (جیسے عراق میں خانہ جنگی نہ ہو، دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں) ان افراد کو مقررہ مدت سے زیادہ عراق میں رہنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ ان کے مقدمات قاضی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جو بہت جلد انہیں پاکستان ڈی پورٹ کرنے کے حوالے سے فیصلہ کریں گی۔ (یہاں ہمارے لئے یہ امر باعث معلومات ہے کہ عراق میں عدالتیں کام کر رہی ہیں، دوم یہ کہ وہ پاکستانی خود ہی ڈی پورٹ ہوکر ملک واپس آجائیں گے، ہمیں فکر کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے)۔

خیر آگے بڑھئیے! جنوبی کوریا میں بھی 6 پاکستانی مختلف الزامات میں قید ہیں۔ تاہم پاکستان اور جنوبی کوریا کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی ہے اورجلد اس حوالے سے ایک معاہدہ طے پاجانے کی توقع ہے۔ اس متوقع معاہدے کے بعد یہ افراد اپنی سزا کا باقی حصہ پاکستان میں پورا کریں گے۔ یہ تو محض چند ممالک کی داستان ہے وگرنہ دنیا بھر میں کم و بیش ایسی ہی صورتحال ہے۔ 3 سال قبل بھی حکومت نے کچھ ایسا ہی مژدہ سنایا تھا کہ اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے مطابق مکہ کی جیل میں سب سے زیادہ 94 پاکستانی خواتین قید ہیں جبکہ دبئی جیل میں 20 اور شارجہ جیل میں 47 پاکستانی خواتین قید ہیں۔ حنا ربانی کھر کے مطابق جدہ جیل میں 688، دبئی جیل میں 577، ابوظہبی جیل میں 236 پاکستانی مرد قید ہیں۔ کویت میں 60 پاکستانی 15 سال سے قید ہیں جبکہ 37 خواتین قیدی اس کے علاوہ ہیں۔

تب بھی حکومت کی جانب سے یہ طفل تسلیاں دی گئی تھیں کہ ان کی رہائی کے لئے پیش رفت ہو رہی ہے اور عنقریب ان کی رہائی کے اقدامات کئے جائیں گے، مگر صورتحال سب کے سامنے ہے۔ اِس وقت دنیا کے کتنے ممالک میں کتنے پاکستانی جیلوں میں قید ہیں، کسی ادارے کے پاس درست معلومات ہی نہیں ہے۔ کتنے پاکستانی شورش زدہ ممالک میں محصور ہیں، کوئی نہیں جانتا۔ کن کن ممالک میں لیبر کے نام پر پاکستانیوں کا استحصال ہو رہا ہے، کسی کے علم میں نہیں۔ عرب ممالک میں پاکستانی مزدور غلاموں والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں مگر یہ معاملات کبھی اربابِ اختیار کی ترجیحات میں جگہ ہی نہیں پاسکے اور نہ ہی کبھی خارجہ معاملات کے دوران انہیں زیر بحث لانے کے لئے در خور اعتناء سمجھا گیا۔

ہماری حکومت کا رویہ ہر معاملے میں معذرت خواہانہ رہتا ہے۔ تاشفین کے معاملے پر بھی حکومت پاکستان کا اعترافِ جرم قابل افسوس ہے کہ حکومت کو جرأت مندانہ موقف اپنانا چاہئے تھا کہ اگر تاشفین پاکستان میں رہی، یہاں کی ایک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تو اس میں کیا عجب ہے؟ وہ تو سعودی عرب میں بھی رہی بلکہ نائن الیون کے اکثر کرداروں کا تعلق بھی سعودی عرب سے تھا تو آپ کیا کرسکے۔ خیر تاشفین تو اب نیویارک میں مقیم تھی اور اس حملے کی ساری منصوبہ بندی وہیں پر کی گئی، ماسٹر پلان، ہتھیاروں تک رسائی اور اپنے مقصد میں کامیابی تک سارے مراحل نہایت راز داری سے حاصل کرنا آپ کے ریاستی اداروں کی ناکامی ہے، اس میں پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں۔ لہٰذا اپنی غلطیوں کا نزلہ پاکستان پر گرانا بند کریں۔ بالفرض تاشفین کی مولانا عبدالعزیز کے ساتھ کوئی ''سیلفی'' ہے تو بھی یہ بات نا قابل فہم ہے کہ مولانا نے پاکستان میں بیٹھ کر نیویارک حملے کی منصوبہ بندی کی یا کسی قسم کی کوئی مدد فراہم کی۔ مولانا کی جتنی حیثیت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہ بس باتوں کے ہی شیر ہیں اور ایک ایس ایچ او کی آمد پر ان کی ٹانگیں کانپ رہی ہوتی ہیں۔ مولانا کو میڈیا میں ''اِن'' رہنے کے لئے کسی نہ کسی ''شُرلی'' کی ضرورت رہتی ہے جو ریٹنگ زدہ میڈیا انہیں مہیا کردیتا ہے۔

حکومت کو چاہیئے کہ اپنی گو ناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھی خبر گیری کرے جو ہر سال پاکستان کو کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ بھیجتے ہیں اور ان کے مسائل کو کم کرنے کی کوشش کرے اور مستقل بنیادوں پر ایک وزیر خارجہ تعینات کرے جو بیرونی ممالک کے دورے کرنے سے ہٹ کر خارجہ معاملات کی باریکی کو سمجھتا ہو اور معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وگرنہ پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنے کا یہ سلسلہ اگر یونہی جاری رہا تو پاکستانیوں کے لئے پاکستان میں ہی جگہ کم پڑجائے گی۔

[poll id="815"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں