معاشی ترقی یا محض خوش فہمی
بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے ہماری معاشی صورتحال پر بھرپور اعتماد کیا جانے لگا ہے
ISLAMABAD:
وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار جب سے قومی خزانے کے وزیر بنے ہیں، ہر روز ہمیں یہ نوید سناتے رہے ہیں کہ ملک اُن کی دانشمندانہ پالیسیوں اور حکمتِ عملی کی بدولت ترقی و خوشحالی کی جانب تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ اسٹاک ایکس چینج تمام سابقہ ریکارڈ توڑ چکا ہے اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اپنی تاریخ کی بلند سطح کو چھو رہے ہیں۔ افراطِ زر میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے ہماری معاشی صورتحال پر بھرپور اعتماد کیا جانے لگا ہے اور جس کی وجہ سے ہماری کریڈٹ اور بینک ریٹنگ میں بہتری آئی ہے، لیکن دوسری جانب اگر ہم اپنی معاشی صورتحال کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ دن بدن ہماری ایکسپورٹ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی بھی اِس برس مقررہ اہداف سے کم تر رہی ہے۔ زرعی پیداوار بھی زوال پذیر ی کی جانب گامزن ہے۔ انڈسٹریل سیکٹر میں بھی کوئی خاطر خواہ نمایاں بہتری نہیں ہو پائی ہے۔ عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمت کم ہونے کے باوجود اپنے عوام کو اُس کا پورا فائدہ نہیں پہنچایا گیا ہے۔ ستم در ستم یہ کہ جون میں ایک سالانہ بجٹ کے بعد اب اچانک چالیس ارب روپے کا ایک نیا بجٹ 30 نومبر کو قوم کے سروں پر لاد دیا گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کامیاب معیشت کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ڈھائی سالوں تک جن خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں پر لوگوں کو بہلایا گیا وہ ساری کی ساری آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضوں کی مرہونِ منت تھی۔ یہ فارن ایکسچینج کے ذخائر بھی شاید اِنہی قرضوں کی وجہ سے بلند سطح کو چھو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرضہ دینے والوں کے مطالبوں اور تقاضوں کو پورا کرنے اور مطلب براری کے لیے اپنے ہی عوام پر ایک بار پھر مہنگائی کا پہاڑ توڑ دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پیٹرول کی عالمی قیمتوں میں انتہائی کمی کے باوجود حکومت نے ملکی معیشت سدھارنے کے لیے ایسے کونسے کارنامے انجام دیے ہیں جن سے ہم یہ کہہ سکیں کہ ہاں واقعی قابلِ ذکر تبدیلی آئی ہے۔ جو حکمراں الیکشن سے قبل کشکول توڑ دینے کے دعوے کر رہے تھے انھوں نے بقول ایک سیاست داں کے شاید اب بڑا دیگچہ پکڑ لیا ہے۔ کشکول میں تو اتنے قرضے سما نہیں سکتے تھے لہذا ایک بڑی دیگ ہاتھوں میں تھام لی ہے۔ معاشی صورتحال کا بالکل صحیح اندازہ تو ہمیں اُس وقت ہو گا جب اِن کے بعد کوئی دوسری حکومت بر سرِاقتدار آئے گی، یا پھر تب پتہ چلے گا جب عالمی مالیاتی اداروں کا دستِ شفقت اِن کے سروں پر سے ہٹ جائے گا۔
ہمارے وزیر ِخزانہ کے پاس شاید ہمارے اِن سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے کہ اگر ملک اُن کی وسیع النظر دانشمندانہ پالیسیوں کی بدولت تیزی سے ترقی کر رہا ہے تو پھر یہ چالیس ارب روپے کے ٹیکس اچانک کیوں نافذ کر دیے گئے ہیں۔ بجٹ میں ممکنا خسارے کے خوف سے یہ حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے یا آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت۔ ملکی ایکسپورٹ دن بدن کیوں کم ہوتی جا رہی ہے۔ اربوں روپے کا کسان پیکیج لانے کے باوجود ہماری زرعی پیداوار کیوں انحطاط پذیر ہے۔ انڈسٹریل سیکٹر کیوں مضطرب و بے چین ہے۔ عالمی اداروں کی جانب سے مکمل آشیر باد اور اعتماد کے باوجود بیرونی سرمایہ کاری کیوں نہیں ہو پا رہی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار اب بھی یہاں سرمایہ کاری سے کیوں ہچکچا رہا ہے۔
جی ڈی پی میں مبینہ اضافے اور افراطِ زر میں کمی کے اثرات و ثمرات کیوں ظاہر نہیں ہو پا رہے۔ لوگوں کی زندگی میں آسانیاں کیوں پیدا نہیں ہو پا رہی۔ تیل کی قیمتوں میں کمی جیسی نعمتِ غیر مترقبہ کا فائدہ عوام کو کیوں نہیں پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ تو ہمارے حکمرانوں کی خوش بختی ہے کہ اُن کے برسرِ اقتدار آتے ہی عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت حیران کن طور پر نیچے آتی گئی ورنہ اگر آج سے پانچ سال پہلے والی صورتحال ہو تی اور تیل کی قیمت 100 ڈالرز سے تجاوز کر رہی ہوتی تو ہمارے اِس زیرک و دانا وزیرِ خزانہ کی ساری بالغ نظری، دانشمندی اور صلاحیت شاید دھری کی دھری رہ جاتی۔
یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں کرپشن اور مالیاتی بدعنوانی کی وہ وارداتیں ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں جو سابقہ دور میں روزانہ کی بنیاد ظہور پذیر ہو رہیں تھی۔ اِس حکومت نے گرچہ کچھ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے اور میگا پروجیکٹس بھی شروع کیے ہیں لیکن ساتھ ساتھ نندی پور اور قائدِ اعظم سولر پاور پروجیکٹ میں اُن کی نااہلی نے قوم کو بہت مایوس کیا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خود اُن کے اپنے دعوؤں کے مطابق دو ڈھائی سال میں سارے ملک سے لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہو جاتا نا کہ اُسے اپنے اقتدار کی آئینی مدت پورے کرنے تک کے لیے ٹالے رکھا جاتا۔ یہ بات بعید از قیاس بھی نہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات تک یہ ٹارگٹ پھر کسی عذر یا بہانہ تراشی کا شکار ہو جائے اور معاملہ آنے والی حکومت کے سر تھونپ دیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے منشور اور وعدوں کے مطابق ترجیحات کا تعین کرے اور اُن پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہو کر عوام کے لیے سہولت اور آسانیاں پیدا کرے نہ کہ انھیں زبانی جمع خرچ کی بھول بھلیوں میں الجھا کر بیوقوف بناتی رہے۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اب تک اُن پر جو اعتماد اور بھروسہ کیا ہے کم از کم اُسی کی لاج رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کرے کہ اُس کے چاہنے والوں کو سرخروئی کے بجائے ہزیمت کا بوجھ نہ اُٹھانا پڑے۔ حکمرانوں کی یہ خوش بختی ہے کہ سیاسی جوتشی اور علم نجوم کے ماہر شیخ رشید کی ہر سہ ماہی پیش گوئی کے باوجود حکومت نے اپنے ڈھائی سال بخیر و عافیت گذار لیے ہیں، ایسا نہ ہو کہ میدانِ انتخابات کے یہ شہسوار جن کی خوش گمانی یہ ہے کہ مورخ اُن کا قصیدہ پڑے گا زبردست عوامی مینڈیٹ، ووٹوں کی کمک اور پارلیمنٹ کی غیر مشروط حمایت و رفاقت کے باوجود متاع نیک نامی گنوا کر مغضوب اور مطعون حکمراں کی حیثیت سے رخصت ہو جائیں۔ میاں صاحب کو ایک بار پھر اپنی حکومت کی کارکردگی پر نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ بجٹ خسارے کو عوام کی جیبوں سے پورا کرنے کا یہ طریقہ کار اُن کی اب تک کی تمام کامیابیوں پر پانی پھیر دے گا۔
دھیمے سروں میں اُٹھنے والا آج کا یہ عوامی احتجاج کل ایک بہت بڑے سونامی کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔126 دن چلنے والا عوامی لانگ مارچ اور دھرنا گرچہ کسی غیبی قوت کی شٹ اپ کال کی وجہ سے ناکام و نامراد ہو کر لپیٹا جا چکا ہے لیکن اُس کے کرتا دھرتا اور ماسٹر مائنڈ ابھی متحرک ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ایک بار پھر آپ کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو بنیاد بنا کر مایوس اور بر گشتہ عوام کو لے کر سڑکوں پرآ جائیں اور آپ جمہوریت کے لبادہ میں اپنی حکومت کو بچانے کے لیے میدانِ سیاست میں یک و تنہا رہ جائیں کیونکہ اِس بار پارلیمنٹ میں جمہوریت بچانے والا حربہ شاید کارگر ثابت نہ ہو پائے ۔
2014ء میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آنے والی تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر اور الیکشن کو قریب آتا دیکھ کر وہ کسی ایسی غلطی کی متحمل نہیں ہو سکتیں جس سے انھیں اگلے انتخابات میں خفت اور مشکل اُٹھانی پڑے۔ عارضی انتظام کی بجائے دور رس، مستقل اور مستحکم معاشی پالیسی بنا کر قوم کو غیر ملکی قرضوں کی چنگل سے نجات دلائی جائے۔ تبھی جا کر ایک خوشحال، آزاد اور خود مختار پاکستان کے تصور اور خواب کی تعبیر ممکن ہو پائے گی۔