نفرتوں کی بڑھتی ہوئی خلیج

میں نے1975میںLLBکیا۔ابتدائی چند برس معروف وکیل شبیرقزلباش مرحوم کا نائب رہا۔


Muqtida Mansoor December 10, 2015
[email protected]

حیدر آباد اور میر پورخاص کے بعد سندھ کے دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے تجارتی مرکزکراچی کے عوام نے بھی اپنا فیصلہ دیدیا۔ کپتان کے خلاف فیصلہ ہے، جنہوں نے مڈل کلاس سیاست کا راستہ اختیارکرنے کے بجائے کسی کے اشاروں پرشدت پسند عناصر کے سہولت کاروں کے ساتھ اتحادکیا۔یہ ان اینکروں کے لیے درس ہے، جو شام7بجے سے رات12بجے تک لاہور اور اسلام آباد کے مراکز میں عدالتیں سجا کر سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کے خلاف فیصلے صادر کرتے ہیں۔

ابھی کراچی میں ووٹنگ کا سلسلہ جاری تھا کہ دوپہر کو یہ مژدہ سنایا گیا کہ لندن میں قتل کیے جانے والے ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ اس جماعت کے سربراہ الطاف حسین اور دیگر کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔

میں نے1975میںLLBکیا۔ابتدائی چند برس معروف وکیل شبیرقزلباش مرحوم کا نائب رہا۔ پیشہ تبدیل کرلینے کی وجہ سے وکالت جاری نہ رکھ سکا مگر 40 برس کی عملی زندگی میں نہ کبھی پڑھا، نہ دیکھا اور نہ ہی سنا کہ کسی ایک ملک میں ہونے والے کسی جرم کا مقدمہ کسی دوسرے ملک میں درج ہوا ہو۔ اس مقدمے کے اندراج کے ذریعے مسلم لیگ(ن) کی موجودہ حکومت نے ایک مخصوص کمیونٹی کی مقبول سیاسی قیادت کے خلاف جس عمل کا مظاہرہ کیا ہے، شاید اس کی نظیر تاریخ کے کسی بھی دور میں نہ مل سکے۔

حالا ت و واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کھیل میں بہت سے پردہ نشینوں کی رضامندی واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ حکمران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جو اپنے ملک میں ہونے والےHigh Profileقتل کاایک بھی مقدمہ منطقی انجام تک پہنچانے میں ناکام ہوں۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میںدرجن بھر افراد کے قتل پر خاموش ہوں۔مگر لندن میں ہونے والے قتل کا مقدمہ درج کرنے میں پھرتی دکھا رہے ہوں۔ان کا یہ طرز عمل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انھوں نے بہر صورت کراچی پر قبضہ کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔

جہاں مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے، تو 1992میں بھی اس نے اندرون سندھ ڈاکو راج کے خاتمے کے نام پر آپریشن کا آغاز کیا تھا، مگر جلد ہی اس کا رخ کراچی کی طرف موڑ دیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت کے بارے میں اہل کراچی میں یہ تاثر قوی تر ہوتا جارہا ہے کہ وہ کاروباری معاملات پر توجہ دیتے ہیں۔ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جس طرحBJP ایک یا دو مسلمانوں کو کابینہ شامل کرکے مسلمانوں کے ساتھ مساوی سلوک کا تاثٔر دینے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے ممنون حسین کو صدر، مشاہد اللہ خان اور نہال ہاشمی کو سینیٹر بنوا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اربن سندھ میں آباد اس مخصوص کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتی۔ لیکن اصل کہانی کچھ اور ہے۔

کراچی کے عوام میں ایک تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اس کھیل میں بہت سی دیگر قوتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ کراچی پر سے ایم کیو ایم کی گرفت کو کمزور کیا جائے اور ایک ایسا بندوبست کیا جائے، جس میں دوسرے صوبے کی اسٹبلشمنٹ اور کاروباری حلقوں کو کراچی میں بالادستی حاصل ہوسکے۔ اس کھیل میں لاہور اور اسلام آباد کے بعض صحافی اور تجزیہ نگار بھی شامل ہیں۔کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ اربن سندھ میں آباد اس کمیونٹی کو مجبور کیا جائے کہ وہ اسی طرح سیاسی اور ثقافتی طورپر غیر فعال ہوجائے، جس طرح اسے پنجاب میں مجبور کردیا گیا ہے۔

بصورت دیگر اسے انتظامی طریقوں سے اس قدر کچل دیا جائے کہ وہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔ یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ مختلف سطحوں پر بے شک مقامی لوگ منتخب ہوجائیں، مگر مرکزی قیادت پنجاب میں رہے۔2013میں اسی سوچ کے ساتھ تحریک انصاف کو فعال کرنے کی کوشش کی گئی۔ کافی تعداد میں نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا اور ایک قومی اور تین صوبائی نشستیں بھی حاصل کرلی تھیں۔ اس صورتحال نے مقتدر حلقے کے حوصلے بلند کردیے اور اس نے ستمبر2013سے امن و امان کی صورتحال کا بہانہ بنا کر کراچی میں آپریشن شروع کردیا ۔

4 ستمبر2013 کو گورنر ہاؤس کراچی میں ہونے والے اجلاس میں راقم نے وفاقی حکمرانوں پر واضح کردیا تھا کہ وہ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں، اس کے انجام کے بارے میں بھی پہلے سے سوچ لیں، مگر لاہور اور اسلام آباد سے جہاز بھر کر لائے جانے والے صحافیوں کی خواہش تھی کہ کل کا شروع ہوتا آپریشن آج ہی شروع کردیا جائے۔

سپریم کورٹ میں جو رپورٹ جمع کرائی گئی تھی، اس میں پانچ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ظاہر کیے گئے تھے، مگر کارروائی صرف ایک جماعت کے خلاف شروع کی گئی۔ ایک مذہبی جماعت کی قیادت مذہبی شدت پسندوں کو ببانگ دہل شہید قرار دیتی رہی۔ جس کا ایک سابقہ امیر قتال فی سبیل اللہ کی باتیں کرتا ہو۔ اس جماعت کو دیدہ و دانستہ نظر انداز کیاجا رہا ہے بلکہ تحریک انصاف کے ساتھ اس جماعت کو کراچی پر مسلط کرنے کی کوششیں تک کی گئیں۔

ا یم کیو ایم کیوں بنی؟ کراچی کے عوام ایم کیو ایم کی طرف کیوں گئے اور کیوں مسلسل اس کے ساتھ وابستہ ہیں؟ ان سوالات پر غور کرنے کے بجائے شاؤنسٹ ذہن کے حامل دانشور وںاور تجزیہ نگاروں کا مسلسل ایک ہیRhetoric ہے کہ ایم کیو ایم جنرل ضیا نے بنائی ہے۔ یہ دعوے کرتے وقت وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایم کیو ایم حقیقی بھی تو جنرل آصف نوازجنجوعہ نے بنائی تھی ، لیکن وہ تو عوام کے دل نہیں جیت سکی۔ کسی جماعت، فرد یا کمیونٹی پر الزام تراشی آسان ہوتی ہے، مگر زمینی حقائق کو سمجھنا اور ان کا ادراک کرنا مشکل اور باریک بینی کا کام ہوتا ہے۔

یہ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی کہ جس امتیازی سلوک کا آغاز ایوب خان کے دور سے ہوا تھا، اس کا تسلسل ایم کیوایم کے بننے اور مقبول ہونے کا باعث بناہے کیونکہ 1970اور1977میں کراچی کی نمایندگی کرنے والی تینوں قومی جماعتیں(جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اور پیپلز پارٹی) کراچی کے عوام کو ان کے حقوق دلانے میں ناکام رہی تھیں۔ ان تینوں جماعتوں کو یکساں تعداد میں نشستیں ملی تھیں جب کہ ایک آزاد امیدوار ظفر احمد عثمانی مرحوم 1970میں جماعت اسلامی کی حمایت سے کامیاب ہوئے تھے۔

ستمبر2013سے شروع ہونے والے رینجرز آپریشن کے بارے میں بعض قانونی اور ٹیکنیکل بنیادوں پر تحفظات کے باوجود شہر کے تمام شراکت داروں نے حمایت کی تھی اور آج بھی کررہے ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ کوئی بھی ذی شعور شخص جرائم کے خلاف کارروائی کی مخالفت نہیں کرسکتا مگر آپریشن کو غیر جانبدار رکھنے کے بجائے جب اس کا رخ واضح طور پر اربن سندھ کی ایک مقبول عوام جماعت کی جانب موڑ دیا گیا۔

تو عوام نے اپنا ردعمل دینا شروع کردیا۔NA246 کا ضمنی انتخاب اس ردعمل کی واضح مثال تھا۔ مگر طاقت کے نشے میں چور ریاستی منصوبہ سازوں نے نوشتہ دیوار کو پڑھنے کے بجائے زیادہ شدومد کے ساتھ ایسے اقدامات شروع کردیے جن سے واضح ہونے لگا کہ آپریشن کا مقصد امن وامان کی بحالی نہیں بلکہ مخصوص مفادات کا حصول ہے۔

راقم نے اپنے اظہاریوں اور مختلف چینلوں پر حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ، تو بعض دوستوں نے ایم کیوایم کی طرف جھکاؤ کا الزام عائد کردیا۔ حالانکہ ہمارا روز اول سے یہ موقف رہا ہے اور آج بھی ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی ضرور ہونا چاہیے مگر ہر کارروائی قانون کے دائرے میں ہو۔ بغیر وارنٹ گرفتاری سے اجتناب برتا جائے۔ گرفتاری کے بعد عدالت سے لازمی ریمانڈ لیاجائے۔ سب سے بڑھ کر یہ تاثر قائم نہیں ہونے دینا چاہیے کہ کارروائی کا ہدف ایک ہی جماعت ہے۔

وفاق اور سندھ کی صوبائی حکومت کے درمیان رسہ کشی نے حالیہ آپریشن کو بھی 1992 کے آپریشن کی طرح متنازع بنا دیا۔ نتیجتاً عوام نے پہلے سے بھی زیادہ شدومد کے ساتھ ایم کیو ایم کا ساتھ دے کر حکومتی موقف کو ردکردیا ۔ اس پر طرہ یہ کہ وفاقی حکومت نے ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل کا مقدمہ پاکستان میں درج کر کے مزید جلتی پر تیل چھڑک دیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کھیل وفاقی حکومت اور بعض اداروں کی انا کی تسکین کا باعث ہو مگر ملک میں نفرتوں کی جو خلیج پیدا کردی گئی ہے، اس کا طویل عرصہ تک پاٹا جانا شاید ممکن نہ ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں