میرے عالی جی
اسٹیج پر بیٹھنے کے بجائے مہمانوں کی پہلی قطاریں ایک نشست پر بیٹھ گئے۔
دنیائے ادب کا ایک چمکتا ستارہ غروب ہو گیا
میں ایک جان ہوں کب تک ہزار سمت کھنچوں
اب آئے موت گلے سے لگائے ماں کی طرح
وہ ایک خوبصورت شام تھی جب کراچی آرٹس کونسل میں دنیائے ادب کے زیر اہتمام نوجوان شاعر خالد معین کے ہمراہ ایک شام منائی جا رہی تھی ایک گہما گہمی سی تھی جو تھوڑی دیر میں دھیمے دھیمے جوش و خروش میں بدل گئی۔ عالی جی آ گئے۔ وہ اپنی سی چال میں دھیمے چلتے سلام کرتے لوگوں کے ہاتھ سے ماتھے تک لا کر جواب دیتے۔
اسٹیج پر بیٹھنے کے بجائے مہمانوں کی پہلی قطاریں ایک نشست پر بیٹھ گئے۔ لوگوں نے چاہا کہ وہ اسٹیج پر جلوہ گر ہوں پر ان کا عاجزانہ، پرخلوص انکار کہ میں یہیں ٹھیک ہوں ان کی اعلیٰ ظرفی ظاہر کر رہا تھا جیسے وہ ایک عام سے انسان ہوں اسی قربت کا فائدہ اٹھا کر ہمیں بھی ان کے نزدیک پہنچنے کا موقع ملا۔ اس وقت بزم طلبا کے سنکی ذہن پر سوار رہتی تھی ویسے خود کو خاصے ادب دان سمجھتے تھے لہٰذا سوچا کہ موقعے سے فائدہ اٹھا کر بہانہ بنایا جائے۔
السلام و علیکم جمیل صاحب! جواباً انھوں نے ذرا چونک کر پلٹ کر دیکھا۔ وعلیکم السلام ! ہم نے جلدی جلدی اپنا مدعا بیان کیا اور ان سے ان کا فون نمبر طلب کیا جو انھوں نے فوراً لکھوا دیا۔ سر! انشا اللہ جلد ہی میں آپ سے رابطہ کروں گی۔ وہ زیر لب مسکرائے اور گویا ہوئے۔ ضرور ضرور۔ مجھے سب عالی جی کہتے ہیں آپ نے مجھے جمیل صاحب کہہ کر پکارا تو میں ذرا حیران ہوا کہ یہ جمیل صاحب کہنے والا کون ہے؟ اوہ سوری عالی جی! کچھ خجالت سی محسوس ہوئی لیکن ان کے شرارتی تبسم پر کچھ حوصلہ بندھا۔
عالی جی بہت وضع دار، خاندانی اور محبت کرنے والے انسان تھے وہ ایک بڑا نام رکھنے کے ساتھ دل بھی بڑا رکھتے تھے۔ ٹھہرے ٹھہرے انداز میں گفتگو کرتے ساتھ ساتھ معلومات بھی فراہم کرتے جاتے ایک بڑے شاعر کا انٹرویو کرنا خاصا مشکل کام تھا۔ اردو بولنے اور لکھنے میں جو مہارت ان کو حاصل تھی اس اعتبار سے ہم بالکل کم علم تھے۔ ویسے ان کا انٹرویو کرنے میں ایک اعزاز حاصل کرنے کا چسکا بھی تھا کہ بڑے بڑے نام فہرست میں شامل ہو جاتے۔ اس میں ہماری ساتھی کی محنت بھی تھی ''اچھا تم لوگوں نے تابش دہلوی کا بھی انٹرویو کیا ہے۔''
''جی ، جی۔''
'' ارے وہ بہت اچھے انسان ہیں بہت بڑے شاعر ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ان جیسا اچھا شاعر پورے پاکستان میں کیا ہندوستان میں بھی نہیں مل سکتا۔'' وہ نہایت کھلے دل سے ایک دوسرے شاعر کی تعریف کرنے لگے۔ گو یہ حقیقت بھی ہے کہ تابش دہلوی مرحوم ایک بڑے قدآور شاعر تھے لیکن جس جذبے اور سادگی سے عالی جی نے ان کی تعریف کیں اس سے ان کی فطرت میں کھرے پن اور خلوص کی چاشنی گھلی نظر آتی ہے، یہ اتفاق ہی تھا کہ دوران انٹرویو مشہور مصنف و ڈرامہ رائٹر شوکت صدیقی کا فون آ گیا۔
(شوکت صدیقی مرحوم شہرہ آفاق ڈرامہ و ناول ''خدا کی بستی'' اور جانگلوس و دیگر ناولز کے باعث نہ صرف پاکستان میں بلکہ پاکستان سے باہر اردو بولنے اور پڑھنے والوں میں مقبول ہیں) عالی جی نے ان سے ادھر ادھر کی باتیں کیں جو غالباً کسی ادبی مجلس کے حوالے سے تھیں۔ فون رکھنے کے بعد مسکراتے ہوئے گویا ہوئے ''جانتی ہو یہ کس کا فون تھا؟ یہ شوکت صدیقی کا فون تھا۔ جنھوں نے خدا کی بستی۔۔۔۔ نام تو سنا ہو گا ناں، بڑا مشہور ڈرامہ آیا کرتا تھا ٹی وی پر۔ انھوں نے ہی تو لکھا تھا۔''
شوکت صدیقی کا نام اور ''خدا کی بستی'' کا نام تو پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ سے جڑا ہے لیکن اتفاقاً اس کا تعلق کچھ اس طرح سے میرے والد مرحوم سے جڑا تھا کہ جب انھیں بتایا تو عالی جی ذرا چونکے۔ اچھا تو یہ بات ہے بھئی! پھر تو تمہیں ان کا انٹرویو ضرور کرنا چاہیے۔
میر بشارت علی میری والدہ کے ماموں اور کسی زمانے میں کراچی کی سوشل سوسائٹی میں خاصے معروف تھے۔ عالی جی سے اس طرح شناسائی جو ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئے ''بھئی! میں تمہارے والد کو اور بشارت صاحب کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ تو بہت اچھا ہوا کہ تم تو ہمارے ہی حلقہ احباب کے بچے ہو۔'' اس کے بعد ان کی محبت میں شفقت کا عنصر بھی شامل ہو گیا اور یہ مختصر سا انٹرویو جو ڈیڑھ دو گھنٹے میں ختم ہو جانا تھا خاصا طویل ہو گیا جاتے جاتے انھوں نے ''ارمغان عالی'' کا تحفہ بھی دیا۔ ان کے یہ جملے بڑے دلچسپ تھے جو انھوں نے اس کے ساتھ ادا کیے تھے۔
''ارے بڑی بانٹی ہیں یہ میں نے۔۔۔۔ اس میں میری تمام زندگی، شاعری، شخصیت و دوہے وغیرہ جو میں نے لکھے ہیں تم لوگ پڑھنا۔ میں نے اب یہ لوگوں کو دینا بند کر دی ہے۔ میں تو محبت کا آدمی ہوں۔ لیکن اب کیا کریں تم اتنے پرانے اور اتنے قریبی جاننے والوں کے بچے ہو کہ دینا تو فرض ہے اور ابھی تم نے یہ سفر شروع کیا ہے اسے بند نہ کرنا۔ انھوں نے ایک خوبصورت جلد والی اچھی خاصی موٹی کتاب کھول کر ورق گردانی کی۔
''انکل!'' بے ساختہ منہ سے ادا ہوا پھر جلد ہی قابو پایا۔ ''عالی جی! اس پر اپنے ریمارکس بھی لکھ دیں پلیز!''
''ہاں ہاں۔ کیوں نہیں کیوں نہیں۔ ایسے ہی تھوڑی دے دوں گا۔ لکھتا ہوں۔'' یہ کہہ کر انھوں نے اپنا قلم اٹھایا غالباً قریب کی نظر کا چشمہ بھی تبدیل کر کے لگایا تھا پھر مجھ سے والد مرحوم کا پورا نام پوچھا اور سب سے پہلے بسم اللہ لکھا اس کے بعد اپنی قیمتی لکھائی سے تعریفاً نہایت محبت کے ساتھ دعاؤں بھرا پیغام لکھا، ارمغان عالی کا یہ صفحہ اب بھی میرے سامنے کھلا ہے۔ جو اب میرے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے کہ اب عالی جی کا قلم پھر دوبارہ اپنی مہ تابیاں نہیں بکھیر سکے گا۔
''اچھا یہ بتاؤ جاؤ گے کیسے تم لوگ۔۔۔۔۔ یہاں ٹرانسپورٹ اتنی آسانی سے نہیں ملتی۔'' وہ اب پکے پکے انکل سے بن گئے تھے فکر لاحق تھی اب ہماری واپسی کی۔
''ہم چلے جائیں گے۔۔۔۔ انکل! آپ نے ٹیکسی والے کو تو روک رکھا ہو گا۔'' فوٹو گرافر عظیم جمال کچھ شرمندہ سے ہو گئے کیونکہ ٹیکسی والے نے مقررہ وقت کے بعد چلے جانا تھا۔
''ارے خمر یوں ۔۔۔۔ ایسے کیسے چلی جاؤ گی۔۔۔۔ میرا ڈرائیور تمہیں چھوڑ کر آئے گا۔ تمہیں یہاں کا علم نہیں ہے۔ سو لوگ آتے ہیں کسی نے سو دو سو زیادہ دے کر لے لیا ہو گا اسے۔'' ٹیکسی ڈرائیور کے بارے میں ان کا شبہ درست ہی تھا۔ دن گزر جاتے ہیں لوگ بھی گزر جاتے ہیں کہ یہ دنیا کا دستور ہے جو آج ہے اسے جانا ہی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ انسان اپنے خلوص، اپنی محبت اپنے اچھے رویے کی بدولت دل تک میں اتر جاتا ہے۔ اس دل تک کی رسائی کے بعد ہی وہ بڑا شاعر، مصنف یا محقق بنتا ہے۔ سب عالی جی کی تعریفیں کر رہے ہیں اور آج جب دل سے ان کی مغفرت کی دعا نکلتی ہے تو یقیناً وہ واقعی اچھے تھے کہ بس یہی ایک انسان کا مقام ہے۔