روزن زنداں
وقت کے ساتھ ہر شعبے میں تبدیلی آتی ہے۔ بعض اوقات یہ تبدیلیاں نئی اور پرانی روایات میں ٹکراؤ کا باعث بنتی ہیں۔
وقت کے ساتھ ہر شعبے میں تبدیلی آتی ہے۔ بعض اوقات یہ تبدیلیاں نئی اور پرانی روایات میں ٹکراؤ کا باعث بنتی ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچھی روایات جدت کے بہاؤ میں بہہ جاتی ہیں اور ان کی جگہ سطحی اور کھوکھلے رویے مروج ہو جاتے ہیں۔ جدت کا تقاضا سہل پسندی، لاتعلقی اور انفرادی سوچ کی اہمیت ہے جب کہ مشرقی تہذیب کی اقدار ان رویوں سے قدرے مختلف ہیں۔ یہ رویے محنت، قربت اور اجتماعی سوچ کے سرچشمے ہوا کرتے تھے۔
لوگ مشینوں کی جگہ ہاتھ سے کام کرتے تھے۔ جسمانی مشق اور ہلچل کی وجہ سے ذہنی و جسمانی صحت قابل رشک ہوا کرتی تھی۔ کتاب پڑھنے کا اپنا ایک الگ لطف ہے۔ کتابیں آج کل موبائل اور کمپیوٹرز پر بھی پڑھی جاتی ہیں۔ مگر کتاب پڑھتے ہوئے جو یکسوئی اور راحت ملتی ہے وہ کتاب اور ہاتھوں کی قربت کا ثمر ہوتی ہے۔
ہاتھ سے کھانا زیادہ صحت بخش ہے بہ نسبت چمچ کے ذریعے کھانا کھانے سے۔ اسی طرح جب ہاتھ سے لکھائی کی روایت تھی، اس وقت تک ہاتھ براہ راست ذہن سے رابطے میں ہوا کرتے تھے۔ پھر ٹائپ رائٹرز آ گئے اور آج کل کمپیوٹرز پر لکھنے لکھانے کے مرحلے طے پاتے ہیں۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر، لکھنے والے کی ذہنی و جسمانی کیفیات کا عکس کہلاتی ہے۔ آپ ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر دیکھ کے شخصیت کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔
تحریر کے بہت سے حوالوں میں ایک خوبصورت حوالہ خط بھی ہے۔ کوئی زمانہ تھا خط کی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ اس زمانے میں رابطے آسان نہیں تھے۔ لہٰذا ذہن رابطے کے سحر میں جکڑا ہوا تھا۔ تعلق میں عجیب سی چاشنی محسوس ہوتی۔ خط کی انفرادیت اور عبارت سے جھلکتی احساس کی مہک ذہن کو تحویل میں لے لیتی۔ ذہن، لفظوں سے عجیب تصوراتی خاکے بناتا۔ سوچ کے تانے بانوں سے تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ ملتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ تخلیقی صلاحیت فقط تحریر و تقریر کے فن تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ مثبت رویہ پوری زندگی پر محیط ہے۔ جب تک خط لکھنے کی روایات زندہ تھیں، اس وقت تک سوچ تخلیقی اور احساس میں تعمیر کا عنصر سانس لیتا تھا۔ جدید ٹیکنالوجی نے یہ سحر توڑ دیا۔ موبائل کے ذریعے فوری پیغام رسائی نے ذہنی فاصلے کم کر دیے مگر احساس کے فاصلے بڑھا دیے۔
ای میل، فیس بک، واٹس ایپ اور اسی طرح کی درجنوں سہولیات نے فاصلوں کی کشش اور احساس کے سحر کو بے معنی بنا دیا۔ کوئی دور تھا جب لاحاصل خواہشیں تحرک عطا کرتی تھیں۔ دوری میں قربت کے پُر فسوں خواب مہکتے تھے۔ مگر جیسے ہی رابطوں کے جدید ذرایع متعارف ہوئے تو سوچ کے زاویے بھی بدلنے لگے۔ زیادہ قربتیں اور دسترس ہمیشہ خوشیوں و رابطوں میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں کیونکہ انسان رویوں و رابطوں میں کم ہی اعتدال قائم کر پاتا ہے۔
حیدرآباد کی فضائیں نئے موسم کے پھولوں سے مہکنے لگیں۔ سکوت اور یکسوئی آج بھی اس شہر کے مزاج کا حصہ ہیں۔ اجوکا تھیٹر کی دستک سے یہ نیم خوابیدہ شہر جاگ سا گیا۔ جہاں ایسے پروگرام کم ہی ہوتے ہیں۔ ''روزن زنداں'' کے عنوان سے فیض احمد فیضؔ کے خطوط پر مبنی یہ خوبصورت تمثیل جس نے ذہنوں کو اپنے پر فسوں حصار میں جکڑ لیا، سوچ کے نئے زاویے متعارف کرا گئی۔ نعیم طاہر اور یاسمین طاہر نے فیض صاحب اور ایلس فیض کے خطوط خوبصورت اور پراثر پیرایے میں بیان کیے، جب کہ فیض کے کلام پر اداکارہ سوہائے علی ابڑو اور وہاب شاہ نے خوبصورت رقص پیش کر کے سماں باندھ دیا ۔
''صلیبیں میرے دریچے میں'' 135 خطوط پر مشتمل یہ مجموعہ فیض احمد فیض کے جیل میں گزارے ہوئے مشکل ترین ایام کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں۔ راولپنڈی سازش کیس کے سلسلے میں قید و بند کی کٹھن گھڑیاں فیض صاحب نے تخلیقی مصروفیات میں گزاریں۔ جیل میں پھول و پودے اگائے، چوزے و بلیاں پالیں، مشاعرے و فکرانگیز محفلیں منعقد کروائیں اور اپنے خاندان کی معاشی کفالت بھی کرتے رہے۔
ان تخلیقی خطوط میں احساس کی وسیع دنیا آباد ہے۔ ایک ترقی پسند شاعر، دانشور، مزدور طبقوں کے رہنما، انسانیت سے محبت کے گیت تخلیق کرنے والا تخلیق کار، کس طرح منتشر احساس کو لمحہ لمحہ جوڑتا ہے۔ زخموں کی یہ رفوگری کمال کی ہے۔ حسن، محبت، پیار، زندگی، حکایات، ادبی تبصرے، کہیں نٹشے اور آسکر وائلڈ کا ذکر تو کہیں غالب و شیکسپیئر کا تذکرہ۔ بدلتے موسموں کا ذکر اور ان موسموں کے سائے تلے احساس کا بکھرنا اور سمٹنا۔ بھنگ کے تیز و تیکھے پیالے جیسی گرمی اور احساس کی ان گنت چٹکیاں ان خطوط کا حصہ ہیں۔
فیض احمد فیض کے خطوط پر مشتمل یہ تمثیل، فکرانگیز اور نئی نسل کی ذہنی و فکری افزائش کا ایک مضبوط حوالہ ہے۔ ڈرامہ یا فلم ایک ایسا ذریعہ ہے، جس سے نئے خیال اور سوچ کا بیج ذہنوں میں بویا جاتا ہے۔ فقط ایک جملہ اور اچھا احساس بھی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ فیض صاحب کی زندگی پر ڈاکیومنٹری فلم بھی بننی چاہیے۔
ادبی خطوط کی اگر بات کی جائے تو اردو میں علامہ شبلی نعمانی، اکبر الہ آبادی، رشید احمد صدیقی، اختر شیرانی، ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، نیاز فتح پوری، جگر مرادآبادی، علامہ محمد اقبال اور سندھی میں علی محمد راشدی، شیخ ایاز کے خطوط شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان میں ہنری جیمس، فرانزکافکا، پشکن، آسکر وائلڈ، جان کیٹس کے خطوط احساساتی جمال، وجودیت، حسن، عشق و درد سے بھرپور شاہکار ہیں۔ اس حوالے سے سندھی، اردو و انگریزی ادب میں طویل فہرست ملے گی۔ جس میں مطبوعہ و غیر مطبوعہ خطوط شامل ہیں۔ یہ سوانحی خطوط، اپنی گہرائی میں ہر دور کا آئینہ ہیں۔
اردو ادب میں غالب کے خطوط کا بڑا چرچا رہا ہے۔ یہ خط حسن سادگی، بے ساختہ انداز بیان اور بے تکلف احساس پر مبنی ہیں۔ غالب ایک عام بات دلچسپ پیرایے میں بیان کرنے کا ہنر رکھتے تھے۔ غالب کے خطوط کے مجموعات ہیں۔ علاوہ ازیں متفرق خطوط رسائل میں چھپتے رہے ہیں۔ جن میں ''نادر خطوط غالب''، ''مکاتیب غالب'' اور ''نادرات غالب'' وغیرہ شامل ہیں۔
ادب زندگی کا ترجمان ہے۔ زندگی کی ترجمانی فرانز کافکانے بھی اپنی کہانیوں و ناولوں میں کی ہے۔ بلکہ کافکا کو اپنے دور میں اتنی پذیرائی حاصل نہ ہو سکی، کیونکہ اس کی تحریر کی جدت کو اس کی موت کے کئی سالوں بعد سمجھا گیا۔ کافکا کی حساسیت تکلیف دہ تھی۔ پراگ کا رہائشی، جرمن زبان کا یہ ادیب کئی سال پیچیدہ بیماری کا شکار رہا۔ وہ اس بیماری سے محظوظ ہوتا رہا اور اسے طوالت دیتا رہا۔ کافکا کو قانون، ضابطے سے نفرت تھی کیونکہ یہ نفرت و خوف کو جنم دیتے ہیں۔ کافکا کے سوانحی خطوط اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ اختیار اور خاکمیت کو ناپسند کرتا تھا۔ یہ فطری اظہار کے دشمن ہیں۔ اس کے فن نے دبے ہوئے غصے کی مزاحمت سے جنم لیا۔ کافکا اور اس کی محبوبہ فیلائس کے خطوط ادبی شہ پارے ہیں۔ جو کافکا کی احساس محرومی، دکھوں، ذہنی شش و پنج، وہم، گمان، احساس و خوابوں کی آنکھ مچولی پر مشتمل ہیں۔
ہر دور میں خطوط کی اہمیت رہی ہے۔ خط ذہنی، جسمانی و روحانی طور پر شفاف بنانے کا ذریعہ رہے ہیں۔ ان کہی باتوں کے گواہ یہ خطوط، زندگی کے حبس میں بہار کا جھونکا بن جاتے ہیں۔ خطوط کا سلسلہ ترک ہونے کے بعد ذہنی گھٹن میں اضافہ ہوا ہے۔