فاتح زمانہ
خدا خدا کرکے خاصی مدت بعد پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے (
خدا خدا کرکے خاصی مدت بعد پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے (عدلیہ اور عوام کے اصرار پر) جن کو تین مراحل میں مکمل کیا گیا۔ گزشتہ ہفتے تیسرا مرحلہ بھی بخیر و خوبی پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ پنجاب میں (ن) لیگ ہی فاتح قرار پائی۔ مگر آزاد امیدواروں پر عوام نے زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کیا۔ پی ٹی آئی کے علاوہ پی پی پی نے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔
جب کہ کراچی میں باوجود تمام تر اعلیٰ ادارتی و سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ اور منفی پروپیگنڈے کے نتیجہ وہی ''ڈھاک کے تین پات'' رہا، یعنی ایم کیو ایم نے ہمیشہ کی طرح میدان مارلیا۔ بقول ایک سیاسی رہنما (ٹی وی پروگرام میں) ہمارے خلاف مسلسل پروپیگنڈے کا اثر یہ ہوا کہ ہم نہ صرف حیدرآباد، میرپورخاص، بلکہ کئی شہروں میں کامیاب ہوچکے ہیں (یہ بات تیسرے مرحلے سے قبل کی ہے)۔
جس کا مطلب ہے کہ عوام نے اس پروپیگنڈے کا کوئی اثر قبول نہیں کیا، بلکہ وہ ان تمام اعلیٰ سطح کی چالوں کو بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ ملک پر قابض طبقہ اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے، اس جنگ میں ملک کے تمام ادارے بھی ان کو بچانے کی مقدور بھر کوشش کررہے ہیں۔ تب ہی تو ملک کو لوٹنے والے کرسیٔ اقتدار پر یا پھر بیرون ملک عیش کررہے ہیں۔ لہٰذا عوام جانتے ہیں کہ کون اس طبقے کے خلاف عوام اور ملک بھر کے مظلوم افراد کے مفاد کی خاطر انتقامی کارروائیوں اور اپنے خلاف مہم کو خندہ پیشانی سے برداشت کررہا ہے۔ ملک کے ناخداؤں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر عوامی مقبولیت کا رازکیا ہے؟
دنیا بھر میں جمہوریت کا مطلب عوامی رائے کا احترام ہوتا ہے جب کہ ہمارے یہاں جمہوریت، آمریت سے بھی بدترین کسی صورت کو قرار دیا جاتا ہے، عوام کے ووٹ سے برسر اقتدار آنیوالے بغیر ایوان سے منظوری، بنا آئینی تقاضوں کو پورا کیے جب چاہیں ٹیکس بڑھادیں یا نئے عائد کردیں، جب چاہیں عوام کے حقوق غصب کرلیں اور پھر بھی خادم قوم کہلائیں۔ ملک کے تمام وسائل ان خادمین قوم کے اختیار اور تصرف میں ہیں۔ موت تو بہرحال آنی ہے۔
''سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ''۔بہرحال بلدیاتی انتخابات نے ثابت کردیا کہ کراچی کے عوام اپنوں کو بخوبی پہچانتے ہیں اور برسوں سے وفاق اور دوسرے علاقوں کے سیاسی تسلط کا خواب پورا نہیں ہورہا، کیوں کہ اہل کراچی جانتے ہیں کہ ان کی خدمت کون کررہا ہے، کون اس شہر سے محبت کرتا ہے اور کون اس کے وسائل پر نظر جمائے ہوئے ہے یا سیاسی قبضے کے خواہاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر قوم کے کرتا دھرتا عوام کے حقیقی نمایندوں سے اس قدر نالاں کیوں ہیں؟ کہ کبھی انھیں دہشت گرد، غدار حتیٰ کہ غیر ملکی ایجنٹ تک قرار دیا جاتا ہے، پریس کانفرنس میں جب الزامات عائد کیے جاتے ہیں تو فرمایا جاتا ہے کہ ثبوت آیندہ پیش کیے جائیں گے۔
مگر وہ ''آیندہ'' کبھی نہیں آتی۔ اخلاقی و آئینی طریقہ تو یہ ہے کہ پہلے ثبوت پیش کیے جائیں پھر الزام عائد کیا جائے، مگر جہاں اندھیر نگری چوپٹ راج ہو وہاں ایسے اخلاقی اصولوں کو کون مدنظر رکھے؟ اتنے زور و شور کے باوجود ہر ادارہ اپنی ہی ڈگر پر گامزن ہے، ہر طرف لوٹ مار، بدنظمی، بدعنوانی کا دور دورہ ہے، بلا امتیاز سب کے خلاف کارروائی کا بھی بڑا شور ہے۔
مگر آج تک کسی ملزم کو کیفر کردار تک پہنچتے نہ دیکھا نہ سنا، بڑا زبردست کام ہورہا ہے مگر سندھ بلکہ کراچی کے علاوہ پورے ملک میں راوی چین ہی چین بیاں کرتا ہے۔ کراچی میں بھی کون پکڑا گیا، کس کو سزا ہوئی مگر ماورائے عدالت قتل کیے گئے کسی مقتول کے قاتلوں کے پکڑے جانے کی کوئی اطلاع ہے نہ سزا۔ یہ صورتحال عوام کو اندیشوں اور بدگمانیوں میں مبتلا کررہی ہے کہ آخر سب کچھ سامنے ہوتے ہوئے صرف ایک گروہ کے خلاف پروپیگنڈہ کیوں؟ اس تناظر میں کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں کے عوام کا فیصلہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔
بشرطیکہ کوئی آنکھوں سے تعصب اور جانبداری کی پٹی اتار کر دیکھے۔ (عزیر بلوچ کے مبینہ انکشافات کی روشنی میں ان تمام الزامات کا رخ کسی اور جانب ہوگیا ہے)۔اگر یہ دیکھا جائے کہ عوام نے یہ فیصلہ کس بنیاد پر کیا تو جہاں تک عقل رہنمائی کرتی ہے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وطن عزیز پر چند افراد یا کچھ خاندان اپنی جاگیریں بچانے اور عوام پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جو ان کے بس میں ہے۔ وہ ہمیشہ برسر اقتدار آنیوالوں کے گرد گھیرا تنگ کرلیتے ہیں، اگر حکمران عوام سے تھوڑے سے بھی مخلص ہوں تو یہ طبقہ اپنے مفاد کو عوام کی خدمت پر ترجیح دینے پر مجبور کردیتا ہے۔
سامنے کی بات ہے کہ آج تک کسی سیاسی لیڈر نے جاگیردار طبقے کو نہیں للکارا، حتیٰ کہ ملک پر کافی عرصے ڈکٹیٹر بھی برسر اقتدار رہے اور نہیں رہے تو جمہوری حکمراں بھی ان کے سامنے دست بستہ کھڑے رہے مگر انھوں نے بھی اس طبقے کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ حالانکہ وہ ایک حکم نامے کے ذریعے ملک سے جاگیردارانہ نظام ختم کرسکتے تھے۔سیاسی جماعتوں میں بھی کسی نے کبھی ان کے خلاف آواز نہ اٹھائی، پی ٹی آئی کے چیئرمین نے بدعنوانی، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ اور بیرونی قرضوں کو اپنے خطابات کا موضوع بنایا مگر طبقہ امرا کے خلاف ایک لفظ بھی نہ کہا، بلکہ ملک کے امیر ترین لوگ تو خود ان کے گرد جمع ہیں۔
ان انتخابات میں ایسی تمام سیاسی جماعتیں جو عوام کی خدمت کے دعوے کرتی ہیں مگر جاگیرداروں اور وڈیروں کو ہی اسمبلی کے نمایندے بناکر خود کو قائم رکھتی ہیں۔ (جن کے انتخابی ٹکٹ کروڑوں میں خریدے جاتے ہیں، ان کی نمایندگی کوئی عام آدمی کرسکتا ہے؟) ان سب کو آئینہ دکھایا گیا کہ پی پی پی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے صدور و جنرل سیکریٹری ایم کیو ایم کے عام کارکنان سے شکست کھا گئے۔
کراچی کے باشعور عوام جانتے ہیں کہ صرف ایم کیو ایم ہی وہ سیاسی جماعت ہے جس نے نہ صرف جاگیردار بلکہ طالبان کو بھی برسر عام للکارا اور بے وسیلہ نچلے، درمیانی طبقے کے پڑھے لکھے مہذب نوجوانوں کو ایوان میں کئی کئی بار اپنی دولت کے بل بوتے پر آنیوالوں کے برابر لاکر بٹھایا تو بھلا یہ طبقہ اس کو برداشت کرے گا؟ ان چند افراد کا پورے ملک پر قبضہ عوام کبھی بھی پسند نہیں کرتے۔ ایم کیو ایم نے ان ہی عوام کے دل جیتے ہیں، ان کے دکھ بانٹ کر ان کے غم اور خوشی میں شریک ہوکر۔ وہ جو آکر کراچی والوں کے زخموں پر نمک پاشی کریں، انھیں کالے کلوٹے، بھوکے ننگے اور زندہ لاشیں قرار دیں، اور پھر کراچی فتح کرنے کے خواب بھی دیکھیں، نہیں پتہ ہمیں کہ عوام کے دل جیتنا ہی عوامی مقبولیت کا راز ہے:
جو دلوں کو فتح کرے وہی فاتح زمانہ