اجالے اور اندھیرے میں ملاقاتیں
اس مصافحے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان دو منٹ 40 سیکنڈ تک باتیں ہوتی رہیں۔
چند سال قبل کھٹمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہی کانفرنس میں اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے پاس جاکر ان سے مصافحہ کیا تھا گوکہ اس مصافحے کا مقصد اس وقت دونوں ممالک کے سرد مہری کا شکار تعلقات میں گرمی بھرنا تھی مگر پرویز مشرف کو اٹل بہاری واجپائی کے پاس اس لیے جانا پڑا تھا کیونکہ وہ ایک آمرانہ دور تھا خوش قسمتی سے اس وقت ملک میں جمہوری حکومت قائم ہے اور یہ سراسر جمہوریت کا ثمر ہے کہ پیرس میں منعقد ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنی نشست سے اچانک اٹھ کر وزیر اعظم نواز شریف کے پاس آئے اور ان سے مصافحہ کیا۔
اس مصافحے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان دو منٹ 40 سیکنڈ تک باتیں ہوتی رہیں۔ قیاس کے مطابق نریندر مودی کچھ وضاحتیں کرتے محسوس ہوئے اور ایسا لگا کہ وہ میاں نواز شریف کوکسی نکتے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر میاں صاحب سر جھکائے ہوئے تھے جس سے لگا کہ کہیں میاں صاحب کو یہ پھر شیشے میں اتارنے کی کوشش تو نہیں تھی کیونکہ اوفا میں ایسا ہوچکا ہے کہ میاں صاحب وہاں بات چیت کے دوران مودی سے مرعوب نظر آئے تھے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شاید نریندر مودی، میاں صاحب کو مسئلہ کشمیر کے بغیر مذاکرات شروع کرانے پر راضی کرنا چاہتے تھے مگر میاں صاحب کے انکار میں سر ہلانے سے ایسا لگا کہ اب وہ مودی کے جال میں پھنسنے والے نہیں ہیں اور مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل کیے بغیر کسی قسم کے مذاکرات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ اوفا میں مسئلہ کشمیر کے بات چیت کے ایجنڈے میں شامل نہ ہونے پر ملک میں کافی تنقید کی گئی۔ بعد میں میاں صاحب نے اس ملاقات کو خوشگوار قرار دیا ہے ان کے اس جملے سے لگتا ہے کہ انھوں نے نریندر مودی کو مسئلہ کشمیر کو مذاکراتی ایجنڈے میں شامل کرنے پر راضی کرلیا ہے۔
بہرحال جو بھی ہو اس ملاقات سے اتنا تو ہوا کہ دونوں ممالک کے منجمد تعلقات میں بہتری کی ایک امید تو پیدا ہوئی۔ تاہم اس ملاقات میں نریندر مودی کی جانب سے پہل کرنے سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ وہ مشکل میں ہیں اور انھیں بالآخر اپنی انا اور ہٹ دھرمی کو چھوڑنا پڑا ہے جس کے پس پشت بہت سے عوامل ہوسکتے ہیں۔
اول تو بھارت کے روز افزوں بگڑتے ہوئے حالات ہیں۔ مودی کے پچھلے دنوں دورہ سری نگر کے موقعے پر مفتی سعید نے انھیں پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی جانب توجہ مبذول کرائی تھی، جس پر اس وقت مودی سیخ پا ہوگئے تھے مگر کشمیر میں پاکستان کی حمایت میں بڑھتے ہوئے مظاہروں نے انھیں ضرور متاثرکیا ہے پھر سب سے بڑھ کر پاکستان کی طرح بھارتی صنعت کار اور تاجر بھی پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو بہتر سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا کاروبار وسعت اختیار کرسکے چنانچہ یہ بھی خبریں ہیں کہ اس اچانک ملاقات میں بعض بڑے بھارتی کاروباری حضرات کا بھی عمل دخل شامل تھا۔
اب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج دورے پر پاکستان آئی ہوئی ہیں۔ ادھر جیسے ہی پیرس میں نواز مودی ملاقات کی خوش کن خبر آئی اس کے ساتھ ہی دونوں رہنماؤں کی گزشتہ سال 27 نومبر 2014 کو سارک کے کھٹمنڈو میں منعقدہ اجلاس میں ایک خفیہ ملاقات کی خبر ہر طرف گونجنے لگی۔ اس خفیہ ملاقات کا ذکر تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کیا جب کہ اس خبر کو بریک کرنے والی بھارتی صحافی برکھا دت ہے۔
عمران خان کا خیال ہے کہ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے قومی مفادات کے بجائے اپنے ذاتی کاروبار کے بارے میں بات کی تھی۔ ادھر وزیر اعظم کے ترجمان مصدق ملک نے اس خفیہ ملاقات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ وزیر اعظم پر سراسر بہتان ہے ان کے مطابق ایسا جھوٹا الزام لگانے پر عمران خان کو شرم آنی چاہیے۔
ادھر سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اس خفیہ ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر واقعی ایسی کوئی ملاقات ہوئی ہے تو اس میں کیا حرج ہے، البتہ اس میں ملک و قوم کے وقار کو ضرور ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تھا۔ نواز مودی ملاقات کا اصل منبع دراصل بھارتی صحافی برکھا دت ہے جس نے اب ایک سال بعد یہ خبر بریک کی ہے۔
یہ خفیہ ملاقات اگر ہوئی تھی اور اسے اس کا اس وقت علم ہوگیا تھا تو اسے اس خبرکو اسی وقت بریک کردینا چاہیے تھا تو شاید اس وقت اس کی زیادہ اہمیت ہوتی حیرت ہے کہ اس نے اس پرانی خبر کو اب طشت از بام کیا ہے؟ اس کا ضرور کوئی خاص مقصد ہوگا۔ افسوس تو اس امر پر ہے کہ بھارتی میڈیا نے بے پر کی خبریں محض سنسنی پھیلانے کے لیے نشر کرنا ایک وتیرہ بنا لیا ہے۔
ایسی خبروں سے اگرچہ وقتی طور پر ضرور کوئی ٹی وی چینل عوام کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے مگر بعد میں عوام کے سامنے اصل حقیقت آشکار ہونے سے وہ ٹی وی چینل اپنی وقعت کھو دیتا ہے۔ جہاں تک اس خفیہ ملاقات کی خبر کو میڈیا کے حوالے کرنے والی برکھادت کا تعلق ہے وہ یقینا بھارت میں ایک بڑی میڈیا رپورٹر مانی جاتی ہے مگر اس کی رپورٹنگ اکثر پاکستان کے خلاف رہی ہے۔
وہ کارگل کی جنگ اور ممبئی حملوں کی غلط رپورٹنگ کرکے پاکستان کو بدنام کرنے میں پیش پیش رہی ہے۔ برکھا دت کئی سال تک بھارتی این ڈی ٹی وی سے منسلک رہی ہے۔ اس کی رپورٹوں کو بھارت میں مقبولیت حاصل رہی ہے۔ وہ ایئر انڈیا کے ایک اعلیٰ عہدے دار ایس پی دت کی بیٹی ہے اس کی ماں بھی ایک مشہور جرنلسٹ تھی۔
برکھادت نے پہلی شادی ایک کشمیری مسلمان مسٹر میر سے کی تھی۔ اس سے طلاق لینے کے بعد اب دوسری شادی بھی ایک مالدارکشمیری مسلمان سے کی ہے ان کا نام حسیب دربو ہے وہ اس وقت جموں کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت میں وزیر خزانہ ہیں۔ برکھادت نے حال ہی میں این ڈی ٹی وی کی ملازمت چھوڑ دی ہے اور اب اپنا ایک میڈیا گروپ تشکیل دیا ہے۔ لگتا ہے اس نے اپنے اس نئے میڈیا گروپ کو پروموٹ کرنے اور اسے پاکستان و بھارت کے عوام کی توجہ کا مرکز بنانے کے لیے نواز مودی خفیہ ملاقات کا شوشہ چھوڑا ہے۔
برکھادت نے اس ملاقات کو کرانے میں سجن زندل کو اہم کردار قرار دیا ہے۔ یہ صاحب بھارت کے ایک بڑے صنعتکار ہیں یہ کانگریس کے ایک رہنما نوین زندل کے بھائی ہیں۔ برکھادت نے یہ بھی کہا ہے کہ سجن زندل افغانستان سے پاکستان کے راستے کچا لوہا بھارت درآمدکرنا چاہتے ہیں مگر چونکہ اس راہ میں پاکستان اور بھارت کے تلخ تعلقات حائل ہیں چنانچہ وہ دونوں وزرائے اعظم کو قریب لا کر دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے تھے۔ اگر اس خفیہ ملاقات کا مقصد واقعی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا تھا تو اب اس ملاقات کو ہوئے ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنے کے بجائے مزید کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔
پھر جہاں تک دونوں ممالک کے تعلقات کو محض دو طرفہ تجارت کے فروغ کی خاطر بہتر بنانے والی بات ہے تو اس کے لیے کسی خفیہ ملاقات کی کیا ضرورت ہے۔ تجارت کو بڑھانے کے سلسلے میں تو دونوں ممالک کے درمیان بات چیت ہوتی ہی رہتی ہے اور آیندہ بھی ہوتی رہے گی کیونکہ اس موضوع پر دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے باقاعدہ مذاکرات میں بھی بات ہوتی رہتی ہے چنانچہ لگتا ہے کہ برکھا دت نے خفیہ ملاقات کا شوشہ محض اپنے نئے میڈیا گروپ کی پبلسٹی کے لیے استعمال کیا ہے۔
اگر کوئی خفیہ ملاقات ہوئی ہوتی تو ضرور اس وقت اس کی خبر آؤٹ ہوچکی ہوتی کیونکہ اب میڈیا اتنا فعال ہوچکا ہے کہ اس سے کسی خبر یا ملاقات کو خفیہ رکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اب جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو وہ اس غیر مصدقہ خبر کا کیوں اتنے زور و شور سے ذکر کر رہے ہیں لگتا ہے وہ بلدیاتی انتخابات میں شیر کے ہاتھوں بلے کی شکست کا غم غلط کرنے کے لیے اس خبر کا سہارا لے رہے ہیں۔