معاشرہ اور انتشار
مریکا اور انگلینڈ جیسے لبرل معاشروں میں جب ایک صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب ہوتا ہے
باشعور معاشروں میں کردارکی پختگی کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔کسی بھی شخص کی ذہانت اور اس کی کامیابیوں میں اس کا مضبوط، صاف ستھرا کردار بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔امریکا اور انگلینڈ جیسے لبرل معاشروں میں جب ایک صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب ہوتا ہے تو کردار پر گہری نظر ڈالی جاتی ہے۔
اس کا ماضی، اس کا حال چھانا جاتا ہے اور ہم مسلمان جن کی میراث ہے ان کا عالی کردار ہے وہ اتنی بدبختی کی طرف گامزن ہیں کہ ہر برائی کو فیشن بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ آہستہ آہستہ عقل سے اندھے ہوتے جا رہے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی نسل کو بھی ستیا ناس کرنے پر تلے ہوئے ہیں، O اور A لیول کی پڑھائی اگر انسان کو انسان بناتی تو پورا یورپ انسانوں کی اعلیٰ مثال بن جاتا، مگر بدقسمتی سے O اور A لیول کی پڑھائی کو اچھے پیسے کمانے کا ذریعہ سمجھنا اور بات ہے۔ہماری روایات، خاندانی روایات، میل و ملاپ، ثقافت وکلچر، جوائنٹ فیملی سسٹم، بزرگوں سے گھروں میں برکت یہ تمام ہماری مضبوط کردارکی بنیادی ضروریات میں سے ہیں۔
مگر جیسے جیسے ہم ترقی کی دوڑ میں دوڑنے لگے اورماڈرن بننے کے چکر میں، دھوکا بازی، جھوٹ، ذاتی مفادات، ریاکاری میں مبتلا ہوتے چلے گئے، ویسے ویسے ہمارے کردار بھی کمزور ہوتے چلے گئے۔کتابیں بہت اہم ذریعہ ہیں، ان تمام معلومات کے لیے،ان تمام گزری ہوئی تاریخوں کو پڑھنے کے لیے ،گویا بہترین مصنف کی لکھی ہوئی تحریریں زندہ وجاوید رہنے کے ساتھ ساتھ کردارکو اعلیٰ نمونہ بنانے میں بھی مددگار ہوتی ہیں۔گویا جو حرف لکھے جاچکے ہیں وہ کسی نہ کسی کو ضرور پڑھنے کے بعد یا تو پسند آئیں گے یا ان پر تنقید ہوگی۔
مصنف کے بارے میں بھی چھان بین ہوتی ہے اگر مصنف اعلیٰ کردار کا ہے اور وہ جو کچھ بھی تحریرکرتا ہے تو وہ بہت سارے لوگوں سے اپنے لیے توصیف و تعریف کے القاب حاصل کرتا ہے بالکل اسی طرح اگر مصنف کے کردار میں کوئی جھول ہو اور وہ بہترین لکھاری ہو تب بھی بہت سارے اس کے پرستار اور بہت سارے نقاد جو اس کی تحریروں کے علاوہ اس کے کردار پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں۔سڑکوں پر پڑے ہوئے ایسے بہت سے لوگ جو نشے کی لت میں مبتلا ہیں کبھی ایسے جملے بازی کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے مگر ان کو Phd کی ڈگری اعزازی ہی سہی نہیں دی جاسکتی۔
مختلف طریقوں سے نشہ حاصل کرنے والے اپنے آپ کو کبھی عقل کل اورکبھی عظیم فلاسفی تصور کرتے ہیں،کبھی دکھوں کو روتے ہیں توکبھی عیش وآرام کی آخری حد تک جانا چاہتے ہیں، معاشرے کا بگاڑ بڑی تباہی کا باعث ہوتا ہے۔بہت ضروری ہے کہ کردار کی پختگی کو بہت اہمیت دی جائے، انسان اور انسانیت کے تمام تر لوازمات پورے ہوتے رہیں۔شدید ذمے داریاں عائد ہیں ہماری سوسائٹی کے ہر فرد پر، ہر دانشور پر، ہر پڑھے لکھے شخص پر کہ وہ گرتی ہوئی دیواروں سے جہاں تک ممکن ہو وہاں تک نہ صرف اپنے آپ کو بچائے بلکہ ان تمام لوگوں کو بچائیں جوکہ اس کی زد میں آسکتے ہیں، توازن کو باتوں میں، انسانوں میں، اداروں میں، رویوں میں قائم رکھنے کی شدید ترین ضرورت ہے، زندگی پوری کی پوری توازن سے عبارت ہے۔
ہمارا کردار ہماری زندگی کا آئینہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم تنزلی کی طرف جا رہے ہیں، حالانکہ ایک شاندار دین، ایک شاندار ضابطہ حیات ہماری میراث ہے، مگر ہمارا لالچ، ہمارا حرص، ہمارا حسد، ہماری دنیا و آخرت دونوں تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ عجیب بے حسی کی چادر ہم پر تن رہی ہے کہ نہ ہم دنیا کے رہیں گے نہ دین کے۔پچھلے دنوں آرٹس کونسل کراچی میں جمیل الدین عالی کی یاد میں تعزیتی اجلاس ہوا تو احساس ہوا کہ ایسی خوبصورت سوچ رکھنے والے جمیل الدین عالی اپنے قلم سے اپنی سوچ سے، اپنے الفاظ سے زندگی بھر روحوں کوگرماتے رہے، جیوے جیوے پاکستان کے خالق ایسی خوبصورت شاعری کا ذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں جو آنیوالی نسل کے لیے بھی صحیح سمت کا تعین کرتا ہے۔
آرٹس کونسل کراچی میں آٹھویں اردو کانفرنس آج کل جاری ہے، ہمارے مصنف، ہمارے شاعر، ہمارے فلاسفر، مختلف سیگمنٹ میں اپنی سوچ، آج کا معاشرہ، انسانیت، اردو ادب، گزرے ہوئے کل، آنیوالے کل، ان سب کو اور ان سب کے مسائل کو مخاطب کرتے نظر آرہے ہیں۔اور ہمیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں کہ اتنے شاندار لوگوں کے بعد کیا ایک خلا رہ جائے گا؟ کشور ناہید ہو یا امجد اسلام امجد، ضیا محی الدین ہو یا انور شعور، حسینہ معین ہو یا سحر انصاری ، افتخار عارف ہو یا پھر انور مقصود کہاں روز روز یہ گوہر پیدا ہوتے ہیں؟
مگر یہ گوہر اپنے جیسے طالبعلموں کو صحیح سمت کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ نوجوان نسل مناسب پلیٹ فارم نہ ملنے کی وجہ سے عجیب ذہنی کشمکش کا شکار ہے وہ اپنے رویوں پر ، اپنی سوچ پر مثبت اثر چاہتی ہے مگر بدقسمتی سے ریا کاروں نے اس نوجوان نسل پر جھوٹ، دکھاوے کی نقلی، بناوٹی دنیا کی ایسی رنگین تصویر پیش کی ہے کہ نہ ادھر کے نہ ادھر کے۔رہی سہی کسر، سوشل میڈیا پوری کر رہا ہے کہ وہ زبان استعمال کی جا رہی ہے جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ نہ بڑے کی عزت نہ چھوٹے کا ادب۔ اوئے سے لے کرگالی گلوچ تک ایک رویہ بنتا جا رہا ہے اب سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کس کو روئیں؟