تم زندہ ہو

اسلامی عقیدے کے مطابق ’’وقت‘‘ ربِ دو جہان کی وحدت ہی کا ایک روپ ہے


Amjad Islam Amjad December 16, 2015
[email protected]

اسلامی عقیدے کے مطابق ''وقت'' ربِ دو جہان کی وحدت ہی کا ایک روپ ہے اور یوں کسی مخصوص دن کو ''منحوس'' قرار دینا درست نہیں چاہے اس کے ساتھ کتنی بھی ناخوشگوار باتیں کیوں نہ وابستہ ہوں یہی اصول 16 دسمبر پر بھی عائد ہوتا ہے کہ اس برس یعنی 2015 کو پشاور میں ہونے والی دہشت گردی اور 140 سے زیادہ معصوم بچوں کی شہادت کا ایک برس پورا ہو گیا اور مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا ہوئے 44 برس ہو جائیں گے۔

اس کے علاوہ بھی بے شمار افراد کی اس دن سے کئی ذاتی تکلیف دہ یادیں وابستہ ہو سکتی ہیں جو اس کے آنے سے ایک بار پھر سے تازہ ہو جاتی ہیں سو اس فطری عمل کو روکنا اور ان یادوں سے چشم پوشی کرنا بھی ایک اعتبار سے خلاف فطرت ٹھہرتا ہے۔ پاکستان کی حکومت' عوام اور میڈیا نے سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں اور دیگر افراد کی پہلی برسی پر جس طرح سے ان بچوں کے سوگوار والدین کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔

وہ اس اعتبار سے بہت صائب اور بابرکت ہے کہ باہمی محبت اور مشترکہ خطرات کا مل جل کر سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں دشمن سے مقابلہ کرنے کے ایک ایسے عزم اور حوصلے کا اظہار بھی ہے جو ہر طرح کے دفاعی ہتھیاروں سے زیادہ مضبوط' تباہ کن اور دور مار ہے کہ ایسے ظالم اور شقی قاتلوں کا راستہ صرف عوامی جذبے کی دیوار ہی روک سکتی ہے۔

حکم الٰہی ہے کہ اللہ کے رستے میں جاں بحق ہونے والوں کو مردہ نہ کہا جائے کہ یہ شہید ہماری آپ کی طرح سے ہی کسی اور روپ میں زندہ ہیں جس کو ہم بوجوہ جان نہیں سکتے یہی وہ خیال تھا جس کو بنیاد بنا کر میں نے اس سانحے کے فوراً بعد ''تم زندہ ہو'' کے عنوان سے ایک گیت لکھا تھا جسے راحت فتح علی خان اور حنا نصراللہ نے آواز دی' جس کی موسیقی ساحر علی بگا نے ترتیب دی تھی اور جس کی پروڈکشن پی ٹی وی ہوم کے لیے میاں یوسف صلاح الدین نے کی تھی۔

ظاہر ہے جن گھروں کے سورج اور چاند ان چند بھیانک لمحوں میں غروب ہو گئے ان کے لیے تو ایک ایک لمحہ پہاڑ سے زیادہ گراں بار ہو گیا تھا اور گھر کی ہر چیز میں ان کی یادیں مجسم ہو کر رہ گئی تھیں سو ان کے لیے تو فوری طور پر اپنے گئے ہوؤں کو زندہ تصور کرنا مشکل ہی نہیں تقریباً نا ممکن تھا مگر جس طرح سے پوری قوم نے اس غم میں ان کا ساتھ دیا اس کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ ان کا انفرادی غم ایک اجتماعی شکل میں تبدیل ہونے کی وجہ سے کسی نہ کسی حد تک کم ہو گیا اور بیشتر شہید بچوں کے لواحقین اور زندہ بچ جانے والے زخمی بچوں نے ایسے ناقابل یقین عزم اور ردعمل کا اظہار کیا جو تمام دہشت گردوں' ان کے ساتھیوں اور سرپرستوں کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں تھا۔

میری کوشش تھی کہ میں اس گیت میں اس ساری فضا کو بیان کر سکوں جو ان شہید بچوں کے گھروں سے لے کر تمام اہل وطن کے دلوں تک پھیلی ہوئی تھی، میں اس میں کس حد تک کامیاب ہو سکا اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کو سننے کے بعد ایک طرف تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے ہیں اور دوسری طرف اپنی آنکھوں میں ان قاتلوں کے خلاف ایک ایسی نفرت بھی جاگ اٹھتی ہے جو اس عزم کا اعلان کرتی ہے کہ اب آیندہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

دین اور مذہب کے نام پر قتل و غارت کرنے والے ان بچوں کے قاتل وہ مجنون اور درندے ہیں جنھیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے کہ اسلام کا تو مطلب ہی سلامتی ہے۔ ایسی سلامتی جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اللہ کی پیدا کی ہوئی تمام تر مخلوق کے لیے ہے ارشاد ربانی ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کا ناحق خون کیا سمجھو کہ اس نے پوری انسانیت کا خون کیا ہے۔

سو آئیے اس گیت کی لائنوں میں ایک بار پھر ان معصوم شہیدوں کو زندہ دیکھتے ہیں۔
جب تک دنیا باقی ہے
تم زندہ ہو
اے میرے وطن کے شہزادو تم زندہ ہو
خوشبو کے روپ میں اے پھولو' تم زندہ ہو
تم زندہ ہو
ہر ماں کی پُرنم آنکھوں میں
ہر باپ کے ٹوٹے خوابوں میں
ہر بہن کی الجھی سانسوں میں
ہر بھائی کی بکھری یادوں میں
تم زندہ ہو۔ تم زندہ ہو
جن کو بھی شہادت مل جائے
وہ لوگ امر ہو جاتے ہیں
یادوں کے چمن میں کھلتے ہیں
خوشبو کا سفر ہو جاتے ہیں
تم زندہ ہو تم زندہ ہو
ہم تم کو بھول نہیں سکتے
یہ یاد ہی اب تو جیون ہے
ہر دل میں تمہاری خوشبو ہے
ہر آنکھ تمہارا مسکن ہے
تم بجھے نہیں ہو روشن ہو
ہر دل کی تم ہی دھڑکن ہو
کل تک تھے بس اپنے گھر کے باسی تم
اب ہر اک گھر میں بستے ہو
تم زندہ ہو تم زندہ ہو
اے میرے وطن کے شہزادو تم زندہ ہو
خوشبو کے روپ میں اے پھولو تم زندہ ہو
تم زندہ ہو تم زندہ ہو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں