مذاکرات یا ڈھونگ

سب ہی جانتے ہیں کہ نریندر مودی نے عام انتخابات میں پاکستان سے دشمنی کی بنیاد پر ہی کامیابی حاصل کی تھی


عثمان دموہی December 17, 2015
[email protected]

سب ہی جانتے ہیں کہ نریندر مودی نے عام انتخابات میں پاکستان سے دشمنی کی بنیاد پر ہی کامیابی حاصل کی تھی۔ اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے کشمیرکو بھارت میں ضم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی پھر کشمیری لیڈروں سے دہلی میں پاکستانی وفد کی ملاقات کو بہانہ بناکر پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ ختم کردیا گیا، ساتھ ہی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے جنگ جیسے حالات پیدا کردیے گئے۔

مودی نے یہ حالات بلاشبہ آر ایس ایس کے حکم پر ہی پیدا کیے تھے کیونکہ وہ پاکستان کے وجود کو ایک پل بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مودی سرکار پاکستان کو فتح کرنے کی ضرور تیاری کر رہی تھی، مگر ان کے اس اقدام سے مغربی ممالک میں سخت بے چینی پائی جاتی تھی۔اس بے چینی میں مودی کی پاکستان کے ساتھ روزبروز جنگ کے قریب پہنچنے کی پالیسی سے مزید اضافہ ہورہا تھا کیونکہ وہ بھارت میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کرچکے ہیں اور وہ دونوں ممالک کے مابین جنگ سے اپنے سرمائے کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔

چنانچہ ایک تو مغربی ممالک کے دباؤ نے اور دوسرا خود بھارتی سرمایہ کاروں کی تشویش سے مودی کو پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کے خیال کو فی الحال جھٹکنا پڑا ہے اور ناچاراپنی انا اور ضد کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہونا پڑا ہے۔ یہ مذاکرات اب ہوں گے تو ضرور مگر ان سے پاکستان کو کیا حاصل ہوگا؟ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کو کوئی فائدہ شاید ہی ہو البتہ ان مذاکرات کے اعلان کے ساتھ ہی بھارت نے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔

سب سے پہلے تو وہ مغربی ممالک کی بے چینی کو دورکرنے میں کامیاب ہوگیا ہے ساتھ ہی بھارت میں مغربی ممالک کی جو سرمایہ کاری رک گئی تھی اب اس کی بحالی کا بھی امکان پیدا ہوگیا ہے۔اس کے ساتھ ہی مودی نے اپنے ملکی سرمایہ کاروں کے ڈروخوف کو بھی نہ صرف دور کردیا ہے بلکہ ان کے افغانستان میں لگے سرمائے کو کارگر بنانے کے لیے پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے افغانستان تک راہداری کی سہولت حاصل کرنے کا راستہ نکال لیا ہے۔ دراصل یہ راہداری حاصل کرنا بھارت کے لیے ناگزیر ہے اس لیے کہ یہ نہ صرف افغانستان تک بلکہ اسے وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچا سکتی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر بھارت یہ راہداری حاصل کرلیتا ہے تو افغانستان میں اس کے لیے لامحدود معاشی امکانات کا دروازہ کھل سکتا ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت نے کرزئی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو اتنا مستحکم کرلیا تھا کہ وہ افغانستان کو بھارت کا ہی ایک صوبہ سمجھنے لگا تھا۔ چنانچہ جہاں بھارت نے وہاں کی انتظامیہ، فوج اور خفیہ اداروں میں اپنا زبردست اثرورسوخ پیدا کرلیا تھا وہاں افغانستان کے مختلف فائدہ مند صنعتی اور تجارتی شعبوں میں اپنی سرمایہ کاری کو عروج پر پہنچا دیا تھا۔

بھارت کے افغانستان کے ساتھ اگر تجارتی روابط پر نظر ڈالی جائے تو 2001 میں ان کی افغانستان سے تجارت کا حجم صرف 8 کروڑ ڈالر تھا جو 2010 میں بڑھ کر 80 کروڑ ڈالر ہوگیا تھا۔ افغانستان کا سب سے زیادہ فائدہ مند شعبہ اسٹیل میں سرمایہ کاری ہے۔ بامیان کے قریب حاجی کگ کی کانوں میں باافراط خام لوہا موجود ہے۔ ایک اندازے کیمطابق ان کانوں میں 12 ارب ٹن لوہے کے ذخائر موجود ہیں۔ بھارتی صنعت کار افغانستان کے اسٹیل کے شعبے میں 6.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکے ہیں

۔ بھارت کے جندل گروپ نے افغانی اسٹیل خریدنے کے لیے سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ افغان آئرن اینڈ اسٹیل نامی کنسورشیم میں جنرل گروپ کے سب سے زیادہ شیئر ہیں اس نے بامیان کی کانوں کے خام لوہے کو نکالنے کے لیے سب سے زیادہ بولی لگائی تھی۔ بھارتی کمپنیوں نے افغانستان میں خام لوہے سے 60 کروڑ ٹن اسٹیل بنانے کی صلاحیت رکھنے والا ایک مل اور 800میگاواٹ بجلی پیدا کرنیوالا کارخانہ لگانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ماہرین کے مطابق عالمی منڈی میں 6 کروڑ ٹن لوہے کی قیمت 303 ارب ڈالر بنتی ہے۔ جندل گروپ بھارت میں اسٹیل کے شعبے کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔ اس کا بھارت کے ایوان اقتدار میں بھی بڑا اثر ورسوخ ہے۔

جندل گروپ ہی نہیں بھارت کے دیگر سرمایہ کاروں نے بھی افغانستان میں کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے وہ سب بھارت کی پاکستان دشمنی سے سخت بیزار ہیں۔ وہ افغانستان سے تجارت اور صنعتی تعلقات کے لیے پاکستان سے راہداری کے حصول کو ناگزیر خیال کرتے ہیں۔ سابقہ بھارتی حکومتوں نے پاکستان سے راہداری کی سہولت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد ایران سے دوستی بڑھا کر اس کی چاہ بہار بندرگاہ کو متبادل راستے کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

اس سلسلے میں بھارت نے چاہ بہار بندرگاہ کو بین الاقوامی سطح کی بندرگاہ بنانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر ڈالے ہیں پھر وہاں سے کابل تک سڑک بنانے کے لیے بھی کثیر رقم خرچ کی ہے۔ یہ سڑک تیار تو ہوگئی ہے مگر اس میں کئی نقائص ہیں۔ اول تو یہ طالبان کے رحم و کرم پر ہے پھر سرد موسم میں یہ ناقابل استعمال ہوجاتی ہے۔ بھارت کا چاہ بہار سے کابل تک ریلوے لائن بچھانے کا بھی منصوبہ تھا مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ کیونکہ ایران پر مغربی ممالک کی جانب سے اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔

پھر چاہ بہار سے کابل تک کا راستہ بہت طویل ہے جب کہ پاکستان کے ذریعے کابل تک رسائی نہایت آسان ہے۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مودی جو پاکستان سے مذاکرات کے بجائے جنگ کی تیاری کر رہے تھے محض مغربی ممالک اور اپنے سرمایہ کاروں کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات کے لیے آمادہ ہوگئے ہیں۔ دراصل اس وقت دنیا میں معاشی مفادات اتنی اہمیت حاصل کرگئے ہیں کہ ہر ملک دوسرے سے دوستی کے لیے اس کی معاشی حیثیت کو پرکھنے لگا ہے اگر اس سے کچھ معاشی فائدہ نظر آتا ہے تو اسے دوست بنایا جاتا ہے ورنہ پھر عام جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔

اب تو امریکا، روس اور برطانیہ جیسے بڑے ممالک بھی چھوٹے ممالک سے اپنے تعلقات کو معاشی مفادات کی ترازو میں تول کر ہی اسے اہمیت دینے اور نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ پہلے ضرور کسی ملک کے محل وقوع کے لحاظ سے اسے اہمیت دیتے تھے اب دراصل یہ معیار پرانا ہوچکا ہے۔ پاکستان ایک زمانے تک محض اپنے آئیڈیل محل وقوع کی وجہ سے امریکا کی آنکھوں کا تارہ بنا رہا تھا مگر آج پاکستان اس کے لیے اس لیے غیر اہم ہوگیا ہے کیونکہ پاکستان سے اس کا کسی قسم کا معاشی مفاد وابستہ نہیں ہے جب کہ اس کے برعکس بھارت کی سوا کروڑ انسانوں کی منڈی نے امریکا کیا پوری مغربی دنیا کو اس کا دیوانہ بنادیا ہے۔

اب اس وقت مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا اعلان تو کردیا ہے مگر اب مذاکرات کو کمپوزٹ ڈائیلاگ کے بجائے کمپری ہینسیو ڈائیلاگ کا نام دے دیا گیا ہے۔ اب مذاکرات میں پرانے امور کے علاوہ کئی نئے امور بھی شامل کردیے گئے ہیں یعنی اب مذاکرات کو بھان متی کا کنبہ بنادیا گیا ہے۔ پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام امور کی ترتیب اس طرح رکھی گئی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو سب سے آخر میں رکھا جائے گا۔

لگتا ہے جب سیکریٹریوں کی سطح پر باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہوگا تو اوپر والے معاملات پر پہلے بات ہوگی جن میں الجھنے کے بعد کشمیر کے نکتے تک پہنچنے کی شاید کبھی نوبت ہی نہ آئے مگر بہرحال مجوزہ مذاکرات کو ماضی کی طرح وقت گزاری کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ مبصرین کے نزدیک بھارت نے ایک بار پھر سے مذاکرات کا ڈھونگ اس لیے رچایا ہے کیونکہ وہ پاکستانی حکمرانوں کو رام کرکے موسٹ فیور ایبل نیشن کا سرٹیفکیٹ یا افغانستان تک رسائی کے لیے راہداری کی سہولت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

جہاں تک راہداری کی سہولت کا معاملہ ہے وہ اس کے لیے ناگزیر ہے دراصل اس سہولت کے ذریعے وہ نہ صرف افغانستان بلکہ وسطی ایشیائی ممالک تک اپنی تجارت کو بڑھانے کے لیے بے چین و بے قرار ہے۔ اس وقت ہمارے حکمراں بھارت سے اس قدر مرعوب نظر آتے ہیں کہ وہ اسے کچھ بھی نواز سکتے ہیں لیکن اگر مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرکے ایسا کیا جاتا ہے تو پھر یہ عمل اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں