اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے شاخسانے
مجھے تاریخ سے دلچسپی ہے کیونکہ یہ ایسا مضمون ہے جس میں امید اور...
مجھے تاریخ سے دلچسپی ہے کیونکہ یہ ایسا مضمون ہے جس میں امید اور حوصلے کے چراغ بھی جلتے نظر آتے ہیں اور سحر انگیز لمحے بھی انگڑائیاں لیتے آپ کی نگاہوں میں گھوم جاتے ہیں۔ تاریخ عبرت کا سامان بھی ہے، انسان چاہے تو اس سے سبق سیکھ کر اپنے حال اور مستقبل کو ان سانحوں اور المیوں سے بچانے کی سعی کر سکتا ہے' جن سے ماضی کا انسان دوچار ہوا۔ میں پاکستان کے حالات دیکھتا ہوں تو مجھے ان میں کہیں کہیں ماضی کا تسلسل نظر آتا ہے۔
پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے، صدیوں پہلے بھی اپنوں اور اجنبیوں کے اتحاد نے یہاں کے مکینوں کا قتل عام کیا اور ان کے گھر بار لوٹ لیے۔ میں اس برس مارچ میں دس بارہ صحافیوں کے ہمراہ جنوبی وزیرستان گیا تھا' ہم ڈیرہ اسماعیل خان سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جنڈولہ پہنچے' یہاں انگریزوں نے ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا جسے جنڈولہ فورٹ کہا جاتا ہے' کبھی یہاں انگریز فوج تعینات تھی جو یہاں سے جنوبی وزیرستان کی نگرانی کرتی تھی' آج یہی قلعہ پاک فوج کا بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ہے۔
انگریزوں نے اپنے دور میں قبائلی علاقوں کی نگرانی کے لیے مختلف مقامات پر چھائونیاں قائم کر رکھی تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے یہ چھائونیاں ختم کر دی تھیں، انھوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا، یہ الجھا دینے والی بحث ہے، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ60 برس بعد آج پاک فوج کو انھیں مقامات پر پوزیشنیں لینا پڑ رہی ہیں جہاں ماضی میں انگریز حکمرانوں نے ایک قلعہ تعمیر کرنا اور وہاں سے اگلے علاقوں کی نگرانی کرنا ضروری سمجھا تھا۔ اس وقت پاک فوج ان قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں' شرپسندوں اور تخریب کاروں کے خلاف برسرپیکار ہے اور بلاشبہ اس نے اس سلسلے میں قابل قدر کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ پاک فوج نے ان علاقوں میں دہشت گردی کا کافی حد تک خاتمہ کر دیا ہے
تاہم انتہا پسندوں کے دوبارہ زور پکڑ لینے کے خدشے کے تحت اسے مسلسل ان علاقوں کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو پاکستان میں موجود ایک مخصوص ذہنیت نے عوام کو باور کرایا کہ سوویت فوجیں افغانستان تک محدود نہیں رہیں گی اور اس ملک کو فتح کرنے کے بعد پاکستان پر بھی حملہ کر دیں گی۔ اس سلسلے میں مختلف نوعیت کی تھیوریاں پیش کی جاتی رہیں جو دراصل عام پاکستانیوں کو ڈرانے کا حربہ تھا تاکہ اس وقت کے حکمران افغان جہاد کے نام پر جو چاہے کرتے رہیں اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ سوویت فوجیں تو کچھ عرصے کے بعد دریائے آمو کے پار چلی گئیں لیکن امریکا اور نیٹو ممالک کی فوجیں ہماری شمالی سرحدوں پر آ بیٹھیں اور نہ جانے کب تک ہمارے سر پر مسلط رہیں گی۔
طالبان اپنی جانیں بچانے کے لیے قبائلی علاقوں میں آئے' پاکستان میں موجود ان کے اتحادیوں نے انھیں بچانے کے لیے پناہ گاہیں دیں اور یوں پاکستان اس تنازعے کا حصہ بن گیا' دہشت گردی کے خلاف جنگ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو گئی۔ آج پاکستان کی فوج پر حملے ہو رہے ہیں۔ دہشت گرد جی ایچ کیو پر حملہ کر چکے ہیں' کراچی کی مہران بیس بھی ان کے نشانے پر آ چکی ہے۔ بنوں جیل سے دہشت گردوں کا فرار بھی ایک انوکھا واقعہ ہے۔ یہ سب پرانی باتیں ہیں، ہفتے دو ہفتے کا ذکر کریں توگجرات میں بھی ہمارے فوجیوں پر حملہ ہوا ہے' جس میں8 شہادتیں ہوئیں۔ اس سانحے کے بعد لاہور میں خیبر پختونخوا سے آئے ہوئے زیر تربیت پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا، دہشت گرد یہاں بھی اپنامشن مکمل کر کے باآسانی فرار ہو گئے۔ یہ سب کچھ آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ دشمن ہماری فوج اور سیکیورٹی اداروںکو ایک کے بعد ایک زخم لگا رہا ہے' یہ زخم بڑھتے گئے تو کیا ہو گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی مشکل اس کا نظریاتی خلفشار یا کنفوژن ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ہو یا سیاستدان، دانشور ہوں یا عوام سب اس کنفوژن کا شکار ہیں ۔ جب تک شمال مغرب سے امڈتے ہوئے طوفان کو خطرہ تسلیم نہیں کیا جاتا، کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کے شمال مغرب میں یہ خلفشار دو رخا جب کہ مشرق اور جنوب میں یک رخا ہے۔ شمال مغرب میں مذہب اور قوم پرستی ایک دوسرے میں مدغم ہیں۔ طالبان پشتون بھی ہیں اور مسلمان بھی جب کہ دیگر صوبوں میں انھیں صرف مسلمان ہونے کی بنا پر ہمدردی ہے، ان کی قومیت کی وجہ سے نہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں میں شمال مغرب کے بارے میں ایک رومانی تصور رہا ہے۔ یہ تصور پھیلانے میں مسلم اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان اہل علم نے اہم کردار ادا کیا جو اپنا سلسلہ نسب برصغیر کی سرحدوں سے کہیں باہر تلاش کرتے تھے۔
یہ وہ حضرات تھے جو کلکتہ، لکھنئو، دہلی، حیدر آباد دکن اور لاہور کی عالی شان حویلیوں میں رہتے تھے لیکن انھیں اپنی دھرتی اور اپنے ہم وطنوں سے زیادہ ایران و توران کے گھسیاروں اور حملہ آوروں سے ہمدردی رہی حالانکہ برصغیر کے مسلمانوں کا قتل عام انھی علاقوں سے آنے والے حملہ آوروں نے کیا۔ بابر نے دہلی کا تخت کسی ہندو حاکم سے نہیں ابراہیم لودھی سے چھینا اور اس کے حامیوں کا قتل عام کیا۔ پورے مغلیہ عہد میں برصغیر کے شمالی علاقوں میں مغل فوجیں باغیوں کو نشان عبرت بناتی رہیں۔
پنجاب کا دلا بھٹی ہو یا خیبر پختونخوا کا خوشحال خان خٹک دونوں مغل اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑے۔ ایران کے حکمران نادر شاہ افشار نے دہلی میں جو قتل عام کرایا، اس میں دہلی کی اشرافیہ ختم ہوئی، یہ سب مسلمان تھے۔ احمد شاہ ابدالی نے پانی پت میں جو جنگ لڑی، اس میں مرہٹوں کے اتحادیوں میں شاہ عالم کی فوجیں بھی شامل تھیں، ابدالی کے حملے کے دوران دہلی، لاہور اور پشاور میں لوٹ مار ہوئی، جو لٹے وہ کون تھے؟ اس کا جواب تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ یہ وہ کڑوا سچ ہے، جسے پس پشت ڈال دیا گیا اور مسلمانوں میں نظریاتی خلفشار کو ہوا دی گئی۔
رنجیت سنگھ اور انگریزوں نے شمال مغرب میں جو مہم جوئی کی، وہ اسٹرٹیجک تھی لیکن ہمارے اہل علم نے اسے مسلم اور غیر مسلم کی لڑائی کا روپ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد اسی ذہن نے مشرقی سرحد کو غیر محفوظ قرار دیا۔ بھارت ہمارا دشمن ٹھہرا۔ افغانستان جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی تھی، اس سے ملحقہ علاقے ہمارے لیے اسٹرٹیجک ڈیپتھ قرار پائے۔ آج تاریخ نے اس پالیسی کو غلط ثابت کردیا ہے۔ ہماری اسٹرٹیجک ڈیپتھ سب سے زیادہ انتشار اور بدامنی کا شکار ہے۔ ہم نے، سوات، دیر، پشاور، بنوں، کوہاٹ، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل کو محفوظ بنانا ہے تو شمال مغرب میں ہارڈ ہٹ پالیسی اختیار کرنا پڑے گی، ڈیورنڈ لائن تک کے علاقے کو دہشت گردوں، جرائم پیشہ گروہوں اور قانون شکنوں سے پاک کرناہوگا تاکہ غریب قبائلی عوام سکھ سے رہ سکیں۔ یاد رکھیں، پشاور، بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان محفوظ ہوگا تو لاہور سے کراچی تک امن ہوگا، ورنہ ہر طرف خون بہتا رہے گا۔