شہر قائد میں ہونے والا کراچی آپریشن تاریخ کے آئینے میں

وطن عزیز کے سب سے بڑے شہر میں جرائم پیشہ مافیا کے خلاف جاری اہم عسکری مہم کا ماضی وحال


سید عاصم محمود December 20, 2015
وطن عزیز کے سب سے بڑے شہر میں جرائم پیشہ مافیا کے خلاف جاری اہم عسکری مہم کا ماضی وحال ۔ فوٹو : فائل

''انسان تمام زندہ چیزوں میں سب سے زیادہ شریف اور رحم دل ہے۔ لیکن اگر اسے قانون و انصاف کی پابندیوں سے آزاد کر دیاجائے، تو وہ سب سے خطرناک درندہ بن جاتا ہے۔''(یونانی فلسفی،ارسطو)
٭٭
یہ جون 1980ء کی بات ہے جب راقم والدین کے ہمراہ داتا کی نگری،لاہور سے عروس البلاد، کراچی پہنچا۔ اہل کراچی نے جو محبت دی، اس نے ہم لاہوریوں کے دل جیت لیے۔ میری نوجوانی نارتھ کراچی میں دوستوں کے ساتھ کرکٹ اور بیڈمنٹن کھیلتے گزری۔ وہ وقت شرارتوں، قہقہوں اور خوشیوں سے بھرپور تھا ۔ہمارے محلے میں مختلف زبانیں بولنے والے مل جل کر امن سے رہتے۔ پھر صد افسوس، روشنیوں کے شہر پر تاریکیاں راج کرنے لگیں۔ محبتیں دشمنی میں بدل گئیں اور بھائی چارے کی جگہ ہوس و انتقام نے لے لی۔ رفتہ رفتہ ہمہ اقسام کے جرائم کراچی کی پہچان بن گئے۔

اسلحے کی فراوانی نے کراچی کا پُر امن ماحول تباہ کرنے میںاہم کردار ادا کیا۔ عجب اتفاق کہ کراچی میں 1980ء کے بعد ہی بڑی تعداد میں اسلحہ آنا شروع ہوا۔ یہ افغان ۔روس جنگ کا شاخسانہ تھا جس نے پاکستان میں منشیات کی لعنت بھی وسیع پیمانے پر متعارف کرائی۔افغانستان سے آنے والے مہاجرین میں اسلحے اور منشیات کے اسمگلر بھی شامل تھے۔ وہ اہل کراچی کو سستے داموں اسلحہ فروخت کرنے لگے۔ یوں انہیں شہر قائد کی صورت نئی پُرکشش منڈی مل گئی۔

2001ء میں وفاقی وزیر داخلہ، لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین حیدر نے انکشاف کیا تھا کہ 1985ء کے بعد جب وفاق اور صوبوں میں سیاسی حکومتیں آئیں تو وہ قوانین کی پروا کیے بغیر اسلحے کے لائسنس بانٹنے لگیں۔ چناںچہ وزیروں، مشیروں، ارکان اسمبلیوں وغیرہ نے اپنے چیلے چانٹوں میں بڑی تعداد میں اسلحہ لائسنس تقسیم کردیئے۔ اس منفی رجحان نے بھی معاشرے میں اسلحے کی کثرت کردی۔

1985ء سے ہی کراچی میں لسانی، نسلی اور مذہبی فسادات بھی شروع ہوگئے۔ متحارب گروہ خود کو نت نئے اسلحے سے لیس کرنے لگے۔ غرض پہلے جس شہر میں پولیس اہل کار بھی کھلے عام رائفل یا پستول لے کر نہیں چلتے تھے، وہاں دن دیہاڑے اسلحے سے انسانوں کو مارا جانے گا۔ وجہ یہی کہ کراچی میں ایسے مخصوص مقامات وجود میں آ گئے جہاں اسمگل شدہ اسلحہ باآسانی ملنے لگا۔

اسلحے کی آسان دستیابی سے جرائم پیشہ گروہوں کے بھی وارے نیارے ہوگئے۔ انہوں نے چاقو اور خنجر کو خیرباد کہا اور ہاتھوں میں ٹی ٹی پستولیں اور کلاشنکوفیں تھام لیں۔جیسے جیسے کراچی کی آبادی ہوش ربا انداز میں بڑھی، جرائم بھی اسی رفتار سے بڑھتے چلے گئے۔ ایک طرف چوریاں، ڈاکے اور اغوا برائے تاوان کے کیس سامنے آئے، تو دوسری جانب متحارب جماعتوں کے مسلح دستوں کی لڑائیاں بڑھتی چلی گئیں۔

کراچی کا مضافاتی علاقہ سہراب گوٹھ 1986ء تک ''باڑہ مارکیٹ'' کا روپ دھار چکا تھا۔ وہاں منشیات اور اسلحے کا غیر قانونی کاروبار بھی جاری تھا۔ 12 دسمبر 1986ء کو سندھ حکومت نے ''آپریشن کلین اپ'' کے ذریعے سہراب گوٹھ میں جرائم پیشہ گروہوں کے اڈے مسمار کر دیئے۔ ان گروہوں نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے معاملے کو لسانی و نسلی رنگ دے ڈالا۔

14 دسمبر کو ان گروہوں کے مسلح کارندے اورنگی ٹاؤن میں داخل ہوئے اور مخصوص نسل کے مرد و زن کو قتل کرنے لگے۔ان کے گھر بھی جلائے گئے اور ہر طرح کا جرم حملہ آوروں سے سرزد ہوا۔ یوں کراچی میں ایسے ہولناک نسلی و لسانی فساد کا آغاز ہوا جس کی تپش اب تک سرد نہیں ہوپائی۔ 14 دسمبر کو تقریبا پونے دو سو افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دو بیٹھے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔

آپریشن بلیو فوکس
رفتہ رفتہ جرائم پیشہ لوگ بھی متحارب سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مسلح ونگوں کا حصہ بن گئے۔ اس چلن نے کراچی میں قتل و غارت کو بڑھاوا دیا اور مخالفین پر حملے کرنا معمول بن گیا۔ اس خوفناک عمل نے اہل کراچی کو نفسیاتی مریض بنا دیا۔ لوگ اتنے خوفزدہ ہوگئے کہ گھر سے نکلتے ہوئے ڈرنے لگے۔ بڑھتے ہوئے جرائم اور متحارب سیاسی و مذہبی قوتوں کی لڑائیوں نے شہریوں کو عجیب عذاب میں مبتلا کر ڈالا۔جب بھی ہنگامے ہوتے،ان عام لوگوں کی روزی روٹی خطرے میں پڑ جاتی جو روزانہ کی بنیاد پر کماتے ہیں۔

اب وفاقی نواز شریف حکومت اور صوبائی حکومت پر یہ دباؤ بڑھا کہ شہر قائد کو جرائم پیشہ گروہوں اور جنگجو سیاسی تنظیموں سے پاک کرنے کی خاطر بڑا آپریشن کیا جائے۔ چناںچہ 19 جون 1992ء کو کراچی میں ''آپریشن بلیو فوکس'' کا آغاز ہوا جو 16 اگست 1994ء تک جاری رہا۔

یہ آپریشن سندھ پولیس اور پاکستان رینجرز نے مل کر انجام دیا۔ ان دونوں سکیورٹی فورسسزکو انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پاک فوج کی حمایت حاصل تھی۔ واضح رہے، اندرون سندھ یہ آپریشن 5 مئی سے جاری تھا جو ڈاکوؤں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف شروع کیا گیا۔ جون میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کوٹری میں ایم کیو ایم کے مقامی دفتر پر چھاپا مارا۔ان کا دعوی ہے، وہاں سے ''جناح پور'' کے نقشے برآمد ہوئے۔ اس کے بعد کراچی میں آپریشن کا رخ کسی حد تک ایم کیو ایم کی سمت مڑگیا۔

آپریشن بلیوفاکس نواز شریف حکومت بدل جانے اور مختلف تنازعات میں الجھنے کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکا۔ تاہم کراچی میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بہتر ہوئی۔ خصوصاً کار چھیننے اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں نمایاں کمی آگئی۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ دوران آپریشن اس کے کارکنوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔

جرائم کے نئے رجحان
اکیسویں صدی میں کراچی میں ایک نئی مجرمانہ روش ''بھتا خوری'' نے جنم لیا۔ موبائل فون کی ایجاد اور موٹر سائیکلوں کی بہتات نے رابطہ کرنا آسان بنایا، تو مجرم اس سے فائدہ اٹھانے لگے۔ وہ یک جنبش انگلی صنعت کاروں اور تاجروں کو فون کرنے لگے کہ جان کی امان چاہتے ہو، تو یہ رقم ادا کردو ورنہ...

آہستہ آہستہ بھتا خوری ایک صنعت کا درجہ اختیار کرگئی جس کی مالیت کروڑوں روپے تھی۔ بھتا طلب کرنے والے جرائم پیشہ افراد تھے اور سیاسی و مذہبی تنظیموں کے کارندے بھی۔ جو شہری بھتا دینے سے انکار کرتا، اسے مار دیا جاتا۔ جلد ہی بھتا خور ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے آپس میں لڑنے لگے۔ اس رواج نے کراچی میں ایک اور عجوبے ''ٹارگٹ کلنگ'' کو جنم دے ڈالا۔ بھتا خوروں اور منشیات فروشوں سے لے کر سیاسی و مذہبی تنظیموں کے جنگجوؤں تک،سبھی ایک دوسرے کے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کرنے لگے۔ کبھی یہ تصادم نسلی،لسانی یا مذہبی چولا بھی پہن لیتا۔کبھی ملازمتیں پانے اور کاروبار جمانے کے لیے باہمی معاشی مقابلہ وجہ ِنزاع ٹھہرتا۔



دو کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والا کراچی وطن عزیز کی تجارتی شہ رگ ہے۔ پاکستان کی 25 فیصد سے زائد معاشی سرگرمیاں اسی نگر میں جنم لیتی ہیں۔ جب بھتا خوری اور ٹارگٹ کلنگ سے کراچی کا امن و امان تباہ ہوا اور معاشی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں، تو شہری وسیع پیمانے پر آپریشن کا مطالبہ کرنے لگے۔شہر میں طالبان تنظیموں کی آمد نے معاملات مذید الجھا دئیے تھے۔ اب شہری مجرموں کے ہاتھوں یرغمال بننے کو تیار نہیں تھے۔ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔

رینجرز آپریشن
اہل کراچی کے پُر زور مطالبے پر 5 ستمبر 2013ء کو نوازشریف حکومت نے شہر میں نیا عسکری آپریشن شروع کرنے کی منظوری دے دی۔یہ حکومت کا مستحسن ودلیرانہ فیصلہ تھا۔ اس آپریشن کا نشانہ جرائم پیشہ افراد کو بننا تھا... چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی، مذہبی اور معاشرتی تنظیم یا جماعت سے ہو۔ آپریشن انجام دینے کی ذمے داری سندھ رینجرز کو سونپی گئی جس کے تب سربراہ میجر جنرل رضوان اختر تھے۔ مجرموں تک رسائی کی خاطر رینجرز کو تفتیش اور گرفتار کرنے کا حق دیا گیا۔ کراچی پولیس اور وفاقی و صوبائی انٹیلی جنس ادارے رینجرز کے معاون قرار پائے۔

آپریشن انجام دینے والی سکیورٹی فورسسز کو پاک فوج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔جب نومبر میں جنرل راحیل شریف نے فوج کی کمان سنبھالی تو اس حمایت میں نئی توانائی،نیا جوش ولولہ آ گیا۔دسمبر میں آرمی اسکول میں دہشت گردی کا المناک واقعہ پیش آیا۔تب پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے لگی۔اس واقعے نے بھی یہ تاثر ابھارا کہ کراچی میں رینجرز آپریشن کامل طاقت سے کیا جائے۔

آغاز میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتا خوری اور دہشت گردی... ان چار جرائم میں ملوث مجرموں کو نشانہ بنانا مقصود تھا ۔ راقم کو یاد ہے، اس موقع پر کئی ہم وطنوں کا خیال تھا کہ ماضی کی مہمات دیکھتے ہوئے یہ آپریشن بھی خاطر خواہ نتائج نہیں دے پائے گا۔ اس موقع پر ایک دوست نے یہ کہانی بھی سنائی:

''ایک بار جنگل کا بادشاہ ببر شیر شدید زخمی ہوگیا۔ اس امر نے سبھی جانوروں کو پریشان کردیا۔ جنگل میں بندر سب سے زیادہ عقل مند اور تجربے کار سمجھا جاتا تھا۔ چناں چہ اس سے کہا گیا کہ وہ بادشاہ سلامت کو صحت یاب کرنے کی تدبیر کرے۔

''بندر درختوں کی شاخوں پر اچھلنے کودنے لگا۔ کبھی ایک شاخ پر چھلانگ لگاتا، تو کبھی دوسری پر! ساتھ ہی وہ زور زور سے چیختا چلاتا رہا۔ اس کا بھاگ دوڑ والا یہ تماشا ایک گھنٹے تک جاری رہا۔اس دوران شدید زخمی بادشاہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔ سبھی جانور بندر پر برس پڑے اور بادشاہ کی موت کا ذمے دار اسے قرار دیا۔ بندر بے چارگی سے بولا:

'''بھائیو! میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ بادشاہ سلامت تندرست ہوجائیں۔ اب وہ چل بسے، تو میرا کیا قصور؟''

میرا دوست کہنے لگا کہ ہماری حکومتیں کراچی کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کا سلوک کررہی ہیں۔ وہ شور مچا کر یہ تو عیاں کرتی ہیں کہ انہیں کراچی کی صورت حال پر سخت تشویش ہے، مگر زخم زدہ شیر کو تندرست کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔

یہ امر باعث مسّرت ہے کہ میرے دوست کی پیشن گوئی خاصی حد تک غلط ثابت ہوئی۔ پچھلے دنوں جب رینجرز آپریشن کے آغاز کی دوسری سالگرہ آئی، تو یہ جان کر سبھی نے خوشی ظاہر کی کہ کراچی میں جرائم کی شرح بقول رینجرز کے 70 فیصد تک گھٹ چکی۔اہل کراچی کی اکثریت بھی تصدیق کرتی ہے کہ رینجرز آپریشن شروع ہونے کے بعد شہر قائد میں رونما ہونے والے جرائم میں نمایاں کمی آئی ہے۔اس کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ آپریشن بلاامتیاز تمام جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا گیا اور کسی سے رو رعایت نہیں برتی گئی۔

اعدادو شمار کی رو سے پچھلے دو برس میں رینجرز اور پولیس نے مل کر مجرموں کے خلاف تین ہزار سے زائد آپریشن کیے۔ ان آپریشنوں کے ذریعے تین ہزار جرائم پیشہ افراد گرفتار ہوئے۔ ان میں دہشت گرد، بھتا خور، ٹارگٹ کلر اور اغوا برائے تاوان میں ملوث مجرم شامل تھے۔ مقابلوں میں تقریباً چار سو مجرم مارے بھی گئے۔



شہر قائد کو مجرموں سے پاک کرنے کی مہم کے دوران 232 پولیس والوں اور 23 رینجرز نے جام شہادت نوش کیا۔اہل وطن ان شہدا کے حضور سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ انہی بہادر سپوتوں کی بیش قیمت جانوں کا صدقہ ہے کہ آج عروس البلاد کراچی میں جرائم کی شرح کم ہوچکی۔

یہ واضح رہے کہ رینجرز 1992ء سے کراچی میں موجود ہیں۔تاہم انھیں مجرم گرفتار اور ان سے تفتیش کرنے کے اختیارات حاصل نہیں تھے۔جب حالیہ آپریشن شروع ہوا تو 1997ء کے انسداد دہشت گردی قانون میں جامع ترمیمات کی گئیں۔تب اس قانون کے ذریے رینجرز کو خصوصی اختیارات دئیے گئے تاکہ وہ شہر قائد سے جرائم پیشہ مافیاؤں کا خاتمہ کر سکیں۔

کرپشن کے خلاف مہم
ماہ اگست 2015ء سے رینجرز کرپشن مافیا کے خلاف بھی سرگرم عمل ہوگئے۔ اس ضمن میں پہلے ان مقامی وصوبائی سرکاری اداروں کو نشانہ بنایا گیا جہاں بقول رینجرز کے سرکاری افسر اور سیاست دان مل بانٹ کر حرام کی کمائی کھارہے تھے۔ زمینوں پر قبضہ کرنے والی مافیا اور چائنا کٹنگ کے مرتکب بھی اس مہم میں گرفتار کیے گئے۔

اہل کراچی نے کرپٹ مافیا کے خلاف رینجرز کے اقدامات کو بھی پذیرائی بخشی۔ دراصل کرپشن ہی کے بطن سے جرائم جنم لیتے ہیں اور جرائم کے ذریعے دہشت گردی وجود میں آتی ہے۔ لہٰذا دہشت گردی اور جرائم کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کرپشن بلکہ ہر قسم کی بے ایمانی کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔

تاہم سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کی گرفتاری نے صوبائی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو متوحش کردیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بے گناہ افسروں اور سیاسی لیڈروں کو بھی گرفتار کیا جارہا ہے۔ چناں چہ کرپشن مخالف مہم شروع کرنے کی وجہ سے رینجرز آپریشن متنازع ہوگیا۔آپریشن سے متاثر سیاسی جماعتوں کو جب حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ملی،تو اسے انھوں نے اپنی طاقت بنا لیا۔وہ پھر رینجرز آپریشن کو محدود کرنے کی سعی کرنے لگیں۔ اگر حکومت میں مختلف سطحوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہو تو کرپشن کرنے کے مواقع بہت کم رہ جاتے ہیں۔

اہل کراچی کا تو مطالبہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اندر موجود جرائم پیشہ عناصر کو نکال پھینکیں تبھی عوام ان پر اعتماد کرسکیں گے۔ کراچی کے عوام یہ بھی چاہتے ہیں کہ جن سیاسی جماعتوں یا تنظیموں نے ''مسلح ونگ'' بنارکھے ہیں، وہ بھی ختم کیے جائیں۔تبھی شہر میں امن جنم لے سکے گا۔

یہ بات سچ ہے کہ شہری مسائل کا حل ڈنڈے کے زور پر نہیں نکل سکتا۔ بہترین حل یہی ہے کہ اچھے انتظام یا گڈگورننس سے کراچی کے سیاسی، معاشی، انتظامی مسائل کیے جائیں۔ اس ضمن میں شہر کی مقامی حکومت کا دیانت دار اور مضبوط ہونا ضروری ہے۔ سکیورٹی فورسسز کے ذریعے حکومت چلانا مسئلے کا حل نہیں۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی معاشی شہ رگ، کراچی میں رینجرز آپریشن سے سیاسی، فرقہ ورانہ اور معاشرتی جرائم میں نمایاںکمی آئی ۔ یوں عوام کا حکومت پر اعتماد بحال ہوا اور وہ پہلے کی طرح دل جمعی سے اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف ہونے لگے۔ سرمایہ کاری بڑھی اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔یہ ضروری ہے کہ شہر قائد میں رینجرز مذید عرصہ قیام کریں تاکہ جرائم پیشہ مافیا کی جڑیں تک کاٹ دی جائیں اور وہ آئندہ کبھی سر نہ اٹھاسکے۔

کراچی کی اہمیت
وطن عزیز کا سب سے بڑا شہر، کراچی معاشی سرگرمیوں کے سلسلے میں بھی یہی اعلی مقام رکھتا ہے۔ پاکستان کی بیشتر کمپنیوں کے صدر دفاتر اسی شہر میں واقع ہیں۔ نیز کراچی میں تیس ہزار سے زائد چھوٹے بڑے صنعتی ادارے کام کررہے ہیں۔

شہر کی صنعت وتجارت سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ ان میں سے کئی لاکھ پاکستانی دیگر صوبوں سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے واپس اپنے گھر پیسا بھجواتے ہیں۔ اسی رقم سے ان کے گھروں میں چولہا جلتا ہے۔ چناں چہ کراچی پاکستان بھر میں لاکھوں لوگوں کو پال رہا ہے۔

ایک رپورٹ کی رو سے کراچی میں ہر روز 50 تا 60 ارب روپے مالیت کی معاشی سرگرمیاں جنم لیتی ہیں۔ چناں چہ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ جنم لینے سے ہنگامے پھوٹ پڑیں تو معاشی سرگرمی شدید متاثر ہوتی ہے۔

پچھلے چند برس سے بھتا خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا، تو کئی صنعت کار اور تاجر پنجاب یا بیرون ملک چلے گئے۔ مگر آپریشن کے بعد کراچی میں امن قائم ہوا، تو معاشی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔اس چلن میں بہتری آرہی ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کو ٹیکسوں کی صورت کراچی سے اربوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ مثلاً کسٹمز ڈیوٹیوں کا 75 فیصد اور درآمدت پر سیلز ٹیکس کا 79 فیصد کراچی ہی سے ملتا ہے۔ تاہم اہل کراچی کو شکایت ہے کہ صوبائی حکومت آمدن کا اتنا حصہ شہر کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ نہیں کرتی جتنا اسے خرچنا چاہیے۔ اسی لیے کہیں گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں تو کہیں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں۔n

پاکستان رینجرز سندھ
1943ء کی بات ہے جب برطانوی ہند حکومت نے سندھ کے علاقے میں ''سندھ رائفلز'' کے نام سے ایک خصوصی فورس تشکیل دی۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی سرحد کی حفاظت اسی فورس کے ذمے لگائی گئی۔ پنجاب میں یہی کام نئی فورس،پنجاب ہوم گارڈز کے سپرد ہوا۔ 1971ء میں ان دونوں فورسز کے ادغام سے ''پاکستان رینجرز'' کا قیام عمل میں آیا۔مارچ 1995ء میں پاکستان رینجرز کودو حصوں... پاکستان رینجرز سندھ اور پاکستان رینجرز پنجاب میں تقسیم کردیا گیا۔ صوبہ سندھ میں پاکستان رینجرز سندھ سرحدوں کی حفاظت اور اندرونی سلامتی کی اہم ذمے داریاں جانفشانی سے نبھا رہی ہے۔

پاکستان رینجرز سندھ نیم فوجی (پیرا ملٹری) فوج ہے۔ یہ کراچی میں تعینات کور 5 کے ماتحت ہے۔ اس کی کمان میجر جنرل کے سپرد ہوتی ہے۔ فی الوقت پچیس ہزار سے زائد رینجرز اس پیرا ملٹری فورس کا حصہ ہیں۔ ان میں سے نصف تعداد کراچی آپریشن میں شریک ہے۔ رینجرز کی جدوجہد و سعی سے کراچی میں حالات بہتر ہوئے ہیں۔n

اسلحے کی فروانی
دو سال قبل جب رینجرز آپریشن شروع ہوا، تو کراچی میںروزانہ بارہ تیرہ شہری اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے تھے۔ اکثر قتال کا تعلق بھتا خوری، ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ ورانہ فساد سے تھا۔ اس خوفناک صورت حال نے اسلحے کی فراوانی کے باعث ہی جنم لیا۔

ایک اندازے کے مطابق کراچی میں پندرہ سے بیس لاکھ چھوٹے بڑے ہتھیار موجود ہیں۔ اسلحے کا یہ انبار پچھلے پینتیس برس کے دوران ہی وجود میں آیا۔ اس اسلحے نے شہر میں سیاسی ،جرائم پیشہ اور مذہبی نوعیت کے مسلح گینگ تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

کراچی میں اسلحے کی اسمگلنگ کے کئی تیس سے زائد راستے اور طریقے ہیں۔ اسمگلر خشکی کے علاوہ سمندری اور فضائی راستے بھی اسلحہ شہر میں لانے کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔ رینجرز کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق کراچی میں جمع ''75فیصد'' اسلحہ غیر ملکی ہے۔

اس غیر ملکی اسلحے کی اکثریت افغانستان کے راستے خیبرپختونخوا یا بلوچستان پہنچتی ہے۔ پھر وہاں سے اسمگل ہوکر کراچی آتی ہے۔ماضی میں بس اور ٹرک اسلحہ اسمگلنگ کا بڑا ذریعہ تھے۔ ان بسوں اور ٹرکوں میں خفیہ خانے بنے ہوتے جہاں اسلحہ چھپا دیا جاتا ۔ ان گاڑیوں کے مالکان انتظامیہ کو بھی بھاری رشوت دیتے تاکہ اسلحے کی اسمگلنگ بلارکاوٹ جاری رہے۔ رینجرز آپریشن کے ذریعے اس بھیانک چلن کی بیخ کنی کردی گئی۔

کراچی میں ٹی ٹی اور نائن ایم ایم پستولیں بہ حیثیت چھوٹا اسلحہ مقبول ہیں۔ ٹی ٹی پسٹل معیار کے لحاظ سے آٹھ تا پندرہ ہزار میں مل جاتی ہے۔ نو ایم ایم پستول، دس تا پچاس ہزار کی حد میں دستیاب ہے۔

بڑے ہتھیاروں میں اے کے۔47 اور کلاشنکوف کراچی کے مجرموں کا پسندیدہ اسلحہ ہے۔ رائفل کی یہ دونوں اقسام عموماً دہشت گرد اور بڑے جرائم پیشہ گروہ استعمال کرتے ہیں۔ ان رائفلوں کی قیمت لاکھوں روپے میں ہے۔
رینجرز نے چند ماہ قبل غیر قانونی ہتھیار حکومت کے پاس جمع کرانے کی مہم چلائی تھی جس سے خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ واضح رہے، غیر قانونی اسلحہ رکھنا جرم ہے اور جس کے مرتکب کو 14 سال تک سزائے قید مل سکتی ہے۔یہ حقیقت ہے، اگر شہر قائد اسلحے سے پاک نگر بن جائے، تو وہاں امن و امان برقرار رکھنا کٹھن مرحلہ نہیں رہے گا۔n

اہل کراچی نے آپریشن کو کیسا پایا
کراچی کے شہری آپریشن کے متعلق جو تاثرات، جذبات اور خیالات رکھتے ہیں، ان کا جائزہ پیش خدمت ہے۔ یہ جائزہ فکر انگیز نکات سامنے لاتا اور افشا کرتا ہے کہ باشندگانِ کراچی اپنے شہر کے دگرگوں حالات سنوارنے کی بھرپور سعی کررہے ہیں۔

٭۔۔۔۔۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ بڑی مچھلیوں اور بڑے مگرمچھوں کو بھی گرفتار کریں۔ کسی پاکستانی کو قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ تبھی عام شہری امن و سکون کی زندگی گزار سکے گا۔ اسلحے کی سرعام نمائش پر پابندی لگائی جائے۔ نیز شناختی کارڈ میں بھی اسلحہ لائسنس نمایاں ہونا چاہیے۔ (نذر عباس، نارتھ کراچی)

٭۔۔۔۔۔کراچی میں امن بحال ہونا اسی وقت ممکن ہے جب پولیس سیاسی اثرات سے مکمل آزاد ہوجائے۔ تب کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی کرے، پولیس اسے گرفتار کرلے۔ پولیس کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونا چاہیے۔ مجرم پکڑنے کے لیے انہیں جدید ٹیکنالوجی بھی دی جائے۔ (سلیمہ احمد، گلشن اقبال)

٭۔۔۔۔۔کراچی میں جاری آپریشن کے دوران رینجرز اور پولیس کے درجنوں جوان جرائم پیشہ گروہوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوچکے۔ انہی کی وجہ سے کراچی میں امن کا قیام ممکن ہوسکا۔ میں انہیں سیلوٹ پیش کرتا ہوں۔ (حسن خان، سولجر بازار)

٭۔۔۔۔۔آپریشن سے شہر کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا ۔ تاہم ''سٹریٹ کرائمز'' کا بھی سدباب ہونا چاہیے۔ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی ابتر حالت میں ہے۔ یہ دونوں اہم مسائل حل ہوجائیں تو کراچی میں پرامن اورخوشگوار ماحول جنم لے سکتا ہے۔(پروین سید، واٹر پمپ)

٭۔۔۔۔۔میری تجویز ہے کہ ساحل سمندر پر ہی کراچی کے نزدیک ایک اور نیا شہر آباد کیا جائے۔ دراصل کراچی اتنا پھیل چکا کہ موجودہ انتظامیہ اس کے تمام مسائل کوشش کے باوجودکبھی حل نہیں کرسکتی۔ اتنے بڑے شہر کا انتظام سنبھالنا بچوںکا کھیل نہیں۔ شہر پھیل جانے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی جرائم پیشہ گروہوں کا بخوبی مقابلہ نہیں کرپاتے کیونکہ انھیں محدود نفری میں وسیع علاقے کا بندوست کرنا پڑتا ہے۔(روبینہ، ناظم آباد)

٭۔۔۔۔۔کراچی میں رینجرز کی شبانہ روز سعی سے جرائم میںکمی آئی، کامیابی میں پولیس کا کردار کم ہے۔ حقیقتاً کراچی پولیس میں بہت سی کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ وہ مجرموں سے مل کر جرائم میں اضافہ کرتی ہیں۔(ذیشان حسن، کلفٹن)

٭۔۔۔۔۔ایک خبر میں بتایا گیا کہ کراچی میں اب بھی مجرموں کے ''سلیپرسیل'' موجود ہیں۔ اہل کراچی کا فرض ہے کہ وہ ان پوشیدہ اور چھپے مجرموں کو پکڑنے کے لیے سکیورٹی فورسسز کی مدد کریں۔ تمام محب وطن شہریوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھیں اور کان ہونا چاہیے۔ شہریوں کے تعاون ہی سے شہر بھتا خوروں، ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں سے نجات پاسکتا ہے۔(کامران سلیم، نیو کراچی)

٭۔۔۔۔۔اس میں شک نہیں کہ جرائم کی شرح نیچے آچکی، مگر بہت سے مجرم زیر زمین چلے گئے یا بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ لہٰذا ان کی موجودگی کراچی میں امن کے لیے مسلسل خطرہ بنی رہے گی۔اس وجہ سے رینجرز آپریشن جاری رہنا چاہیے۔(داؤد اقبال، صدر)

٭۔۔۔۔۔جنرل راحیل شریف کی قیادت میں رینجرز نے کراچی میں عمدہ کام انجام دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کو محب وطن، دیانت دار اور بہادر قیادت میسر آجائے، تو وہ تیزی سے ترقی کرتا اور خوشحالی کو گلے لگاتا ہے۔ ہمیں بھی ذاتی مفاد رکھنے والے لیڈر نہیں قومی مفادات مدنظر رکھنے والے رہنماؤں کی ضرورت ہے۔(شاہینہ انصاری، حسن اسکوائر)

٭۔۔۔۔۔میری تجویز ہے کہ کراچی کو کم از کم 30 اضلاع میں تقسیم کردیا جائے۔ ہر ضلع کے تھانوں میں مناسب نفری رکھی جائے۔ تھانوں کی ساری پولیس اپنے اپنے ضلع میں صرف اور صرف قانون کی بالادستی کے لیے سرگرم عمل ہو۔ یوں ہر قسم کے جرائم کی روک تھام میں مدد ملے گی۔(جواد نظیر،کیماڑی)

٭۔۔۔۔۔کراچی میں سکیورٹی فورسسز کا نشانہ بالعموم چھوٹے مجرم رہے ہیں۔ ان کے طاقتور سرپرست بہت کم تعداد میں گرفت میں آ پائے ۔ لہٰذا جب تک وہ آزاد ہیں، کراچی میں دیرپا اور پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔(زویا،گذری)

٭۔۔۔۔۔ایک خبر کے مطابق رینجرز نے جو مجرم پکڑے،ان میں سے ایک ہزار سے زائد عدالتوں نے رہا کر دئیے۔اب وہ کراچی کی سڑکوں پر آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ ان کے خلاف مضبوط کیس تیار نہ ہو سکے۔گویا پولیس کی تفتیش اور عدالت کے نظام میں موجود سقم دور کرنے کی اشد وفوری ضرورت ہے۔اگر یہی صورت حال رہی تو سبھی کو یہ خوفناک پیغام ملے گا:''پاکستان میں قتل اور زنا جیسے گھناؤنے جرم بھی کر لو،قانون تمھارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔''( ذاکر سلیم،سائٹ)

٭۔۔۔۔۔کراچی آپریشن ہر قیمت پر جاری رہنا چاہیے۔ اگر کسی قسم کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے اسے روک دیا گیا، تو جرائم پیشہ گروہوں کے حوصلے بلند ہوجائیں گے۔ وہ پھر مستقبل میں بلا دھڑک جرائم کریں گے کیونکہ انہیں قانون کا ڈر ہوگا نہ خوف! بلکہ اس آپریشن کو پورے سندھ میں پھیلایا جائے تاکہ مجرموں کا قلع قمع ہوسکے۔(روبینہ ترین،اسٹیل ملز)

٭۔۔۔۔۔رینجرز کے آپریشن سے کراچی کو فائدہ پہنچا ہے لیکن ان کی راہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں ہوئیں جو اب بھی جاری ہیں۔ کرپٹ لوگ کام نہیں کرتے اور نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں۔(طارق کھوکھو،انچولی)

٭۔۔۔۔۔کراچی کے حالات صرف منتخب مقامی حکومت ہی حل کرسکتی ہے۔ اگر کوئی مقامی حکومت اچھا کام نہیں کرتی، تو لوگوں کو چاہیے کہ الیکشن کرواکے نئی حکومت لے آئیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ سکیورٹی فورسز مسلسل کسی شہر کا انتظام نہیں چلاسکتیں۔(رابعہ ،نارتھ ناظم آباد)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں