وراثت اور وارث
فیملی کے دوسرے تمام افراد جن میں کچھ پاکستان میں اور کچھ بیرون ملک مقیم ہیں اکٹھے ہیں
گزشتہ ماہ میں اپنے دیرینہ کرم فرما سعید امامی کی فیکٹری میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ کراچی ہائی کورٹ بار کے سینئر ممبر جناب مسعود کا ٹیلیفون آیا۔ انھوں نے بتایا کہ میرے ایک عزیز کی فیملی کا وراثت سے متعلق تنازع کا مقدمہ ان کے پاس ہے اور وہ ہائی کورٹ میں اس کی پیروی کر رہے ہیں۔
فیملی کے دوسرے تمام افراد جن میں کچھ پاکستان میں اور کچھ بیرون ملک مقیم ہیں اکٹھے ہیں جب کہ میرا عزیز دوسری طرف اکیلا ہے جس کے وکیل مسعود خان ہیں والد کی زندگی میں صرف وہی ان کے کاروبار میں شریک تھا اور صرف اس کی فیملی والدین کے پاس رہتی تھی یعنی ان بزرگوں کی دیکھ بھال بھی میرا عزیز ہی کرتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دوسرے تمام بہن بھائی اس اکیلے سے کاروبار جائیداد اور بینک بیلنس میں سے اپنا شرعی حق بذریعہ عدالت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
میرے عزیز کا موقف ہے کہ وہ گزشتہ پچیس سال سے اکیلا والد کا ہاتھ بٹا رہا تھا لہٰذا دوسرے بہن بھائی جو الگ رہتے اور اپنا اپنا کماتے کھاتے ہیں کیونکر برابر کے حصہ دار ہو سکتے ہیں۔ مسعود صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں ان تمام کو اکٹھا کر کے ثالثی کرنے پر تیار ہو جاؤں تو تمام وارث اسے تسلیم کر لیں گے۔ مجھے معلوم ہے کہ ثالثی کرانے کے دوران میرا کیا حشر ہو گا۔ اس لیے میں نے شرط رکھ دی ہے کہ تمام فیملی ممبر عدالت میں بیان دے کر مقدمہ واپس لے لیں کہ وہ مجھے ثالث مقرر کر رہے ہیں اور میرا فیصلہ سب کو قبول ہو گا۔ اب دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ ادھر سعید امامی نے میری گفتگو سن کر مشورہ دیا ہے کہ اپنی جان چھڑاؤ۔ خود اس نے دو آنکھوں دیکھے وراثت کے تنازعات مجھے چائے کے دوسرے پیالے پر سنائے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ محکمہ ٹیکس کے ایک اعلیٰ افسر ان کے پڑوس میں رہتے ہیں جب ان کی تعیناتی دوسرے شہروں میں ہوتی تو ان کی موروثی کوٹھی میں ان کے بڑے بھائی کی فیملی رہتی۔ یہ دونوں بھائی اس کوٹھی کے برابر حصے دار تھے۔ بڑے بھائی درمیانے درجے کے کاروباری ہیں۔ افسر بھائی اکثر اسلام آباد میں تعینات رہے، لاہور تبادلہ ہوا تو بزور بازو کوٹھی کے بڑے حصے پر قبضہ کر کے سکونت اختیار کر لی جس کی وجہ سے بھائیوں کے باہمی تعلقات خراب رہنے لگے۔
افسر بھائی کا بس نہیں چلتا تھا کہ بڑے بھائی کو کوٹھی سے نکال باہر پھینک دے۔ پھر افسر بھائی نے مذہبی رجحان کی وجہ سے ریش مبارک بھی بڑھا لی اور کوشش کر کے ڈائریکٹر جنرل جج تعینات ہو گئے۔ جب سعید امامی یہاں تک پہنچے تو میں نے بھی موصوف کو پہچان لیا کہ میں نے اس کا دوسرا روپ بھی دیکھا ہوا تھا اور کئی باتوں اور مناظر کا عینی شاہد تھا۔ بہرحال سعید صاحب نے مجھے اپنے کراچی والے عزیز کی فیملی وراثت کی ثالثی سے باز رکھنے کے لیے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ افسر بھائی نے بڑے بھائی کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے کوٹھی میں سے نکال باہر پھینکا جس کے بعد بڑے بھائی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔
افسر بھائی نے اس کی یہاں بھی نہ چلنے دی اور تنازع مرنے مارنے تک جا پہنچا اور مقدمہ عدالت عالیہ میں پہنچ کر طوالت پکڑ گیا۔ بڑا بھائی مقدمہ لڑتے لڑتے ہلکان ہو چکا تھا۔ ایک پیشی پر وہ جج صاحب کے سامنے آ کر اجازت لے کر کہنے لگا حضور میں بے حد بیمار ہوں اور اگر مقدمے کا جلد فیصلہ نہ ہوا تو کسی پیشی پر حاضر ہونے پر عدالت کی دہلیز پر گر کر مر جاؤں گا اور مقدمہ بھی وراثت میں چھوڑ جاؤں گا۔ یہ فقرہ افسر بھائی نے سنا تو بڑبڑایا ''تو پھر جلد مر جاؤ'' یہ فقرہ جج صاحب نے بھی سن لیا اور ان کے دل کے تار ہلا گیا۔ انھوں نے مقدمے کا فیصلہ بلاتاخیر بڑے بھائی کو اس کا حق نصف کوٹھی کی صورت میں دیتے ہوئے افسر بھائی کا اپنے بڑے بھائی کی موت کی خواہش میں بولا ہوا فقرہ بھی اپنے فیصلے میں QUOTE کر دیا۔
سعید امامی نے وراثت سے متعلق دوسرا واقعہ بتایا اور یہ بھی ان کے ذاتی علم میں تھا۔ یہ صاحب ایک سول سرونٹ تھے۔ خوشحال گھرانے کے فرزند تھے۔ شادی ہوئی لیکن اولاد سے محروم رہے۔ انھیں اپنے والدین سے ترکے میں لاہور اور کراچی میں ایک ایک مکان ملا۔ تیسرا مکان رہائش کے لیے اسلام آباد میں خود تعمیر کیا۔ اسی میں رہتے تھے۔ دوسرے مکان کرایہ پر دے رکھے تھے۔ اپنی اولاد نہ تھی اس لیے انھوں نے ایک بچی کو گود لے کر پالا تھا۔ میاں بیوی کی محبت کا مرکز اب وہ بچی ہی تھی۔
وہ بڑی ہوئی تو اس کی شادی کی اور اسے کراچی والا مکان دے دیا۔ وہ میاں بیوی کبھی لاہور آتے تو اپنے مکان ہی میں قیام کرتے۔ ملازمت سے ریٹائر ہو کر لاہور آ گئے۔ کئی سال بعد میاں کا انتقال ہوا تو بیوی اکیلی رہ گئیں۔ کبھی لے پاک بیٹی کے پاس کراچی چلی جاتیں اور کبھی لاہور آ جاتیں جہاں ملازم ان کے پاس ہوتے۔ پھر اچانک کئی رشتہ دار ان کے پاس کثرت سے آنے لگے۔ ان کی آمد و رفت خود غرضانہ تھی۔ ان کی گفتگو سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس خاتون کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں تا کہ وہ ان کے دو مکانوں پر قبضہ کر سکیں۔ کئی قریبی رشتہ دار تو خاتون کے پاس دو چار دن قیام بھی کرنے لگے جس پر خاتون کو ان کی نیتوں میں فتور اور اپنی جان کو خطرے کا قوی شبہ ہونے لگا۔
رشتہ داروں کی مشکوک حرکات پر خاتون کو یقین ہو گیا کہ وہ اس کے دو مکانوں اور دیگر اشیاء کو ہڑپ کرنے کی غرض سے اس کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ پھر وہ ایک روز بیمار پڑ گئی تو رشتہ داروں نے موقع غنیمت جانا اور اسے اسپتال داخل کرا دیا۔ بیماری کے دوران اس کے ذہن میں ایک پلان آیا جس سے وہ فوراً صحت یاب تو ہو گئی لیکن اسپتال سے ڈسچارج ہونے سے انکار کر دیا اس نے وکیل کو اسپتال میں بلا کر اپنی وصیت قلمبند کروائی کہ اس کی وفات کے بعد اس کے دونوں مکان ایدھی ویلفیئر کو عطیہ کر دیئے جائیں۔ وصیت کا علم ہونے کے چند ہی روز بعد اس کے تمام لالچی رشتہ داروں نے اس کا پیچھا چھوڑ دیا۔
اسی محفل میں موجود ایک صاحب نے بتایا کہ وہ اسکول میں پڑھتا تھا جب اس نے گھر کے قریب ایک خالی پلاٹ دیکھا جو اس کے فارغ التحصیل ہونے تک خالی ہی رہا وہ ملازمت شروع کر کے دوسرے شہر چلا گیا۔ ایک بار کئی سال بعد اپنے آبائی مکان پر آئے تو دیکھا کہ وہاں تعمیر ہو رہی ہے۔ رک کر معلوم ہوا تو پتہ چلا کہ اس پراپرٹی کے حصول کے لیے وارثان کی باہمی مقدمہ بازی پر بیس سال لگے دو عدد قتل ہوئے تو اگلی نسل کے مابین کسی نے ثالثی کرا دی اور اب اس پلاٹ کا خریدار وہاں مکان تعمیر کر رہا تھا۔ ملک کی عدالت میں ہزاروں کی تعداد میں وراثتوں کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور بے شمار ایسے تنازعات عدالتوں سے باہر برسرپیکار ہیں۔ لالچی یا جاہل لوگ شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ ملک عدم کی طرف روانہ ہونے کے بعد وہ اپنے پیاروں کے لیے دولت نہیں مصائب چھوڑ کے جا رہے ہیں۔