ٹیکس کلچر اختیار کا ایمانداری سے استعمال
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہر حکومت اپنے دور کا آغاز رومانس کی فضا میں کرتی ہے
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہر حکومت اپنے دور کا آغاز رومانس کی فضا میں کرتی ہے اور لوگ اس سے توقعات وابستہ کرلیتے ہیں لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ حکومت کی سمت متعین نہ ہو تو لوگ تین ماہ کے بعد اس رومانس اور حسن ظن کی فضا سے نکل آتے ہیں اور کھل کر تنقید یا مایوسی کا اظہار شروع کردیتے ہیں۔
قوم کی توقعات بنتی اور بگڑتی ہیں، یہ پیغام حکومت خود نہیں دیتی در اصل یہ پیغام اس کے اقدامات دیتے ہیں۔حکومت وقت نے اقتدار سنبھالتے ہی سرکاری خزانے کو پہنچنے والے اس نقصان کا تدارک کرنے کا واشگاف اعلان کیا تھا، جو ٹیکس کی عدم وصولی کے سبب ہورہا ہے، لیکن افسوس یہ اعلان محض اعلان ثابت ہوا۔ وطن عزیز کا ہمیشہ سے یہ المیہ چلا آرہا ہے وہ ٹیکس کے حصول میں دنیا کے بدترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ہماری ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ یہاں غریب عوام سے ٹیکس لے کر اشرافیہ پر خرچ کیا جاتا ہے، ٹیکس چوری یہاں ایک ایسا رواج ہے جس کا تحفظ حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، سول سروس، میڈیا اور دوسرے بااثر طبقوں میں شامل طاقتور لوگ دہائیوں سے کررہے ہیں۔
ٹیکس سے متعلقہ ادارے (مثلاً فیڈرل بورڈ آف ریونیو) جان بوجھ کر کمزور رکھے گئے، تاکہ طاقتور ٹیکس چور کو پکڑنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ایف بی آر کا ریکارڈ اٹھاکر دیکھیں تو بااثر طبقات میں شامل ایک بڑی تعداد ٹیکس گوشوارے تک جمع کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتی لیکن اس قانون شکنی کے باوجود ان سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔
کیا ہم نے کبھی سنا کہ ٹیکس والوں نے کبھی ہمارے کسی وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وزیر، مشیر، جنرل، جج کو ٹیکس نوٹس بھیجا اور جائز ٹیکس وصول کیا؟ یہاں تو اگر طاقتور صحافی کو ٹیکس نوٹس بھجوانے اور اپنے خلاف ٹیکس چوری ثابت ہونے پر ایف بی آر میں بڑے بڑوں کو ٹرانسفر کروادیتے ہیں۔ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے بااثر طبقات کے تمام بڑوں کو ٹیکس کا پابند کرانا حکومت یا ریاست کا فرض اولین ہونا چاہیے اور ٹیکس چوری کے تمام راستوں کو بند کرنے میں ایف بی آر کی مدد کو ممکن بنانا بھی اس کا وطیرہ ہونا چاہیے۔
جس طرح مالیاتی اداروں یا سرکاری بالخصوص بینک ملازمین کی تنخواہ میں سے انکم ٹیکس کٹ کرکے اس کی سیلری سلپ میں آتا ہے، کے طرز کا نظام مراعات یافتہ طبقے پر بھی مسلط کردینا چاہیے۔
ہر محکمے میں خرابی اور کرپشن کھل کر پائی جاتی ہے۔ ملکی منظرنامے کی یہ ہولناک شکل اب کسی سے چھپی نہیں رہ گئی کہ ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 60 فیصد ارکان نے ٹیکس کے گوشوارے جمع نہیں کرائے ہیں اور وہ ٹیکس نادہندگان میں شامل ہیں۔ جب کہ الیکشن کمیشن کے قواعد میں یہ لازم ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار ٹیکس نادہندہ نہ ہوں۔ کسی قسم کا ٹیکس کوئی یوٹیلٹی بل ان کے ذمے واجب الادا نہ ہوں اور یہ کہ منتخب ہونے کے بعد تمام منتخب ممبران پر لازم ہے کہ ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائیں، اگر ایسا نہ ہو اور کوئی رکن ٹیکس نادہندگان میں شامل ہو تو اسے قومی یا صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔
حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی کے امیدوار صدیق بلوچ کو اس بنیاد پر الیکشن میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیا کہ انھوں نے 2014-15 کے لیے ٹیکس گوشوارے مقررہ مدت کے اندر جمع نہیں کرائے حالانکہ انھیں مقتدر اداروں کے ارکان کی حیثیت سے دوسروں کے لیے قابل تقلید مثال بننا چاہیے اور اس کے بعد میڈیا کے مطابق تقریباً 60 فیصد ارکان اسمبلیوں کے ارکان کے سروں پر نااہلیت کی تلوار لٹک رہی ہے جنھوں نے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے ہیں یا اپنی آمدن کو چھپایا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ 2013 کے عام انتخابات کے وقت 461 قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے اپنے گوشوارے ظاہر نہیں کیے تھے اور یوں اگر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے رہنمائی لی جائے تو اس بنیاد پر 632 ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نااہل قرار دیے جاسکتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہم مسلمانوں نے جب انسانی تاریخ کی پہلی ''ویلفیئر اسٹیٹ'' قائم کی تھی تو اس کی بنیاد حکمران کی نیکی اور نیکی کے قاعدوں، ضابطوں اور اصولوں پر رکھی تھی۔ مسلمانوں کے عقیدے اور ان کے سیاسی کلچر میں یہ بات موجود ہے کہ حکمرانوں کی نیکی یا بدی نیچے تک سرائیت کیا کرتی ہے۔ وہ اقتدار کے ایوانوں کی چار دیواری میں بند نہیں رہتا۔
حکمران اچھا خدا ترس اور نیک ہوتا ہے تو عوام بھی اس کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر حکمران برا اور ظالم ہوتا ہے تو عوام کا مزاج بدل جاتا ہے، ظالم شیر ہوجاتے ہیں اور مظلوم سہم جاتے ہیں۔ہماری دانست میں ہمارے ارباب اختیار اپنے ''اختیار'' کو ایمان داری سے استعمال نہیں کررہے اور جہاں تک ایمان داری کا تعلق ہے تو اس کا صرف مال و دولت اور رشوت اور لوٹ کھسوٹ سے تعلق نہیں ہوتا۔ اس کا صلاحیت اور اختیار کے استعمال سے تعلق ہوتا ہے۔ وہ حاکم جو ایک شلوار، ایک قمیض، ایک دری اور ایک کمرے میں پوری زندگی گزاردے لیکن اس کے اختیار، اس کے اقتدار سے کسی شخص کو کوئی فائدہ نہ نہ پہنچے تو اس حاکم سے وہ چپراسی ہزار درجے بہتر اور ایماندار ہے جو کسی صاحب کے کمرے سے نکل کر سائلوں کو خوش خبری سناتا ہے۔
جس کے وجود، جس کے اختیار سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔افسوس، صد افسوس! ہمارے پاکستان میں تو پلاننگ نام کی کسی چڑیا کا پر مارنا بھی ممکن نہیں کیوں کہ ہم نے ایک ایسا ''ڈنگ پٹاؤ'' کلچر پال پوس کر جوان کرنے کے بعد اپنے کاندھوں پر چڑھالیا ہے جسے شاید اب اتارنا بھی چاہیں تو اتار نہ سکیں۔ افراد ہوں یا ادارے سب کے سب ''لمحہ موجود'' میں زندہ ہیں، بہت دور تک دیکھنا تو بہت دور کی بات ہے یہاں تو جو کوئی اپنی ناک کی نوک تک بھی دیکھ لے تو لوگ اسے ''مدبر اور مفکر''سمجھنے لگتے ہیں۔بہرکیف اختیارات کا صحیح اور بروقت استعمال کسی بھی ملک اور کسی بھی شعبہ حیات کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
ٹیکس گوشوارے کا مسئلہ ہو، بے روزگاری کا مسئلہ ہو، لوڈشیڈنگ کا ہو یا پھر کوئی بھی سلگتا ہوا پرابلم ہو، یہ حقیقت پوری طرح واضح ہے کہ عوام کے حالات زندگی کو بہتر بنانے اور ملک کو حقیقی معنوں میں خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کرپشن کا خاتمہ حکومت وقت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے اور پوری دیانتداری سے ہونا چاہیے اور یہ مسائل اب تک نہ جمہوری حکومت ترجیحی، دیانت داری سے حل کرسکے ہیں اور نہ فوجی حکومتیں۔ جب کہ وطن عزیز کے ''جسد'' کا سب سے بڑا ناسور ''کرپشن'' کا خاتمہ یا اس پر قابو پانے کے لیے احتسابی ادارے ہر دور میں بنائے جاتے رہے ہیں اور یہ دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں کہ اس مسئلے پر قابو پالیا گیا ہے۔
اس صورتحال میں پوری سنجیدگی کے ساتھ قومی سطح پر سوچا جانا چاہیے کہ آخر یہ مسئلہ اب تک حل کیوں نہ ہوسکا اور اس مقصد کے لیے بنائے جانے والے احتسابی ادارے پوری کامیابی کیوں حاصل نہیں کرسکے۔ اس اہم سوال پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر حکومت جو احتسابی ادارے بناتی ہے وہ بالآخر اس کے ''سیاسی مفادات'' اور مقاصد کے حصول کا ذریعہ بن کر رہ جاتے ہیں۔