’’اَلرسول ؐ‘‘
تھوڑی دیرکے لیے شعور اور لاشعور کی منزل سے باہر نکل جائیے۔ استدلال اور منطق کی ڈوریاں کھول دیجیے
درویش، بابے اور صوفی انتہائی خطرناک لوگ ہوتے ہیں۔ انتہائی قلیل مدت میں انتہائی سادگی سے آپ کا سب کچھ اپنے چوغہ کی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ پھر اطمینان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کون ہیں۔ لاکھ بتانے پر پہچانتے نہیں۔ پوچھنے پر نہ انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اقرار لیکن آپ کو کسی بھی مصیبت یا الم میں گرفتار دیکھ کر سب کچھ واپس لوٹا دیتے ہیں اور وہ بھی سود سمیت۔ یہ تمام لوگ راہِ عشق کے مسافر ہیں۔ میں ان لوگوں سے بہت دور رہنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔ پر یہ کوشش ہمیشہ ناکام ہوتی ہے۔ شائد میں دور رہنے کی کوشش کرتا ہی نہیں ہوں۔
آئرلینڈ کا صوفی مزے میں ہے۔ اسطرح کی شاعری کرتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ خدایا، یہ سب کچھ کیسے لکھ پا رہا ہے۔ بہت دنوں سے بات نہیں ہوئی۔ درویش کی صحبت سے بھی دور رہ رہا ہوں۔ مگر ذہنی طور پر شائد زیادہ نزدیک۔ اپنے اردگرد ایک "ملامتی حصار" بنا چکا ہوں۔ اس دائرہ میں بہت عرصہ تک اپنے آپ سے بھی ملاقات نہیں ہوتی۔ مگرعجیب بات ہے کہ میرا یہ بندوبست اس قدر کمزور ہے کہ کوئی نہ کوئی اپنی غیراعلانیہ آمد سے برباد کر ڈالتا ہے۔ میں سوچتا رہتا ہوں کہ بالاخریہ مردِ صحرا میرے پاس کیسے اور کیونکر پہنچا۔ بلکہ اب توکبھی کبھی یہ بھی خیال ذہن میں بار بار آتا ہے کہ میں ہی کیوں! یہ لوگ میرے پاس کیوں آتے ہیں۔ آخر کیوں۔ مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا اورسچ تو یہ ہے کہ میں چاہتا بھی نہیں کہ مجھے کسی قسم کا جواب ملے۔ جو بھیجتا ہے، ذمے داری اس کی ہے۔ میں نے تو کبھی خواہش ہی نہیں کی۔
تھوڑی دیرکے لیے شعور اور لاشعور کی منزل سے باہر نکل جائیے۔ استدلال اور منطق کی ڈوریاں کھول دیجیے۔ ایسے ایسے مشکل سوال ملیں گے کہ آپ ششدر رہ جائینگے۔ مگر مشکل ترین سوال کا جواب بھی الماری کے ایک خانہ میں موجود ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا آپکو جواب کے خانہ تک رسائی کی اجازت ہے کہ نہیں۔ تمام گُتھیوں کے سلجھاؤ کی چابی صرف ایک منزل پر موجود ہے اور وہ ہے عشق اور صرف عشق۔ بہرحال یہ لکھتا لکھتا کہاں پہنچ گیا ہوں؟
فون پر دوسری طرف سے آواز آئی کہ قادری بول رہا ہوں۔ آواز میں عجیب ساخلوص اور اپنائیت تھی۔ لندن سے بول رہا ہوں، بتانا تھا کہ پاکستان آرہا ہوں اور ملنا چاہتا ہوں۔ اب اس کا کیا جواب دوں۔ اس کے بعد میں حسبِ عادت بھول گیا۔ کئی ہفتے گزر گئے۔ ذہن سے فون اور گفتگو سب کچھ تحلیل سا ہو گیا ۔بیس دن پہلے دوبارہ فون آیا کہ میں پاکستان آچکا ہوں اور ملتان میں ہوں۔ بزرگوں کا ایک عرس ہے اس کا اہتمام کر رہا ہوں۔ لہجہ میں قیامت کی سادگی اور بے ساختگی تھی۔ چنددن پہلے فون آیا کہ شام کو آپکے گھر آرہا ہوں۔ عین اسی وقت کسی اور جگہ سے پیغام آیا کہ ایک گھنٹہ تاخیر ہو جائے گی کیونکہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے دربار پر حاضری ہے۔ میں مختلف کڑیاں ملانے کی کوشش کرتا رہا۔ لندن، ملتان اور پھر وقت کے بادشاہ کا مزار۔ یہ شخص کون ہے اور میرے پاس کیوں آرہا ہے۔
خیر تشریف لائے اور ملاقات ہوئی، ساتھ دو اور صاحبان بھی تھے۔ باتیں شروع ہو گئیں۔ قادری صاحب شکل سے بالکل عام سے مولوی معلوم ہو رہے تھے۔ لمبی سی داڑھی اور حلیہ بھی انتہائی سادہ۔ پہلا ذہنی جھٹکا اس وقت لگا جب بتانے لگے کہ ان کی تعلیم کیا ہے۔ برسلز یونیورسٹی سے قانون کی اعلیٰ ترین ڈگری لے چکے ہیں۔ برطانیہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز (International Relations) میں پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے۔ مانچسٹر میں ایک سرکاری نوکری کر رہے ہیں۔ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ دنیاکے اعلیٰ ترین مقامات سے تحصیل علم کے بعد ایسا حلیہ کہ میرے جیسے جاہل کو گمان گزرے کہ بالکل عام سے مولوی ہیں۔ خیرمولوی کبھی عام نہیں ہوتا، یہ بھی علم وفضل کا ایک باعزت مقام ہے۔ خیر باتیں ختم کرنے سے پہلے سادگی سے میرے ہاتھ میں اپنی تصنیف شدہ ایک کتاب تھما دی۔ عنوان دیکھ کر میں ایک عجیب سی کیفیت کا شکار ہو گیا۔
"اَلرسولؐ" کے عنوان سے لکھی ہوئی یہ کتاب مجھے دیتے ہوئے کہنے لگے کہ مجھے یقین ہے کسی نہ کسی دن آپ اس کتاب کے متعلق ضرور لکھیں گے۔ میں حیران صرف اس لیے ہوا کہ اس وقت میں بعینہ یہی سوچ رہا تھا کہ میں اس کتاب پر ضرور لکھوں گا مگر میرے ذہن کی بات اس شخص کوکیسے معلوم ہوئی۔ قادری کے ساتھ دوشخص اور بھی تھے۔ ایک تو مانچسٹر میں کسی میڈیا ہاؤس سے منسلک، اوردوسرے ایک سادہ سے "عاشقِ رسول"۔ ان کا تعلق جلال پور پیروالہ سے تھا اور وہاں کوئی کاروبار کر رہے تھے۔ خیر ان دونوں سے کوئی زیادہ بات نہ ہو سکی۔ بات تو خیر قادری صاحب سے کھل کر نہ ہو پائی کیونکہ نشست میں وقت کا پتہ ہی نہیں چل سکا۔
کتاب پڑھنی شروع کی توحیرت اور عقیدت کا ایک باب کھلنے لگا۔
فروغ اسمِ محمدؐ ہو بستیوں میں منیرؔ
قدیم یاد نئے مسکنوں سے تازہ ہو
(منیرؔنیازی)
یہ قیمتی شعر اس کتاب کے آغاز میں لکھا ہوا تھا۔ منیز نیازی سے بہت تعلق رہا۔ ان کے اکثر اشعار زیرغور رہے۔ پر یہ شعر پہلی بار نظرسے گزرا۔ میرا خیال ہے کہ منیر نیازی کی مغفرت اور بلندمقام پر فائز ہونے کے لیے یہ ایک شعر ہی کافی ہے۔ کتاب شروع کی تو آغاز سے ہی قادری کی شخصیت ایک دم صفحہ سے باہر آنے لگی۔ آقاؐ کی سیرت پر قلم اٹھانا ہرگز ہرگز معمولی بات نہیں ہے۔ یہ مقام ادب ہے۔ یہ پہلی سیرت ہے جو "ادبی فکر" سے لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کی پیشانی پر بھی یہی کچھ درج ہے۔ ادب کا یہ عالم ہے کہ ہرجگہ ایک کامل شعرکے حکم کو سامنے رکھا گیا ہے۔
باب جبریل کے پہلو میں ذرا چپکے سے
فخر جبریل کو یہ کہتے ہوئے پایا گیا
اپنی پلکوں سے درِ یار پہ دستک دینا
اونچی آواز ہوئی عمرکا سرمایہ گیا
یہ ضرور عرض کرونگا کہ اس کتاب کے مسودہ کی تصحیح ایک عجیب مگر پرسوز طریقے سے کی گئی ہے۔ قادری صاحب مسودہ لے کر آقاؐ کے دربار چلے گئے۔ وہاں حرم نبوی میں بلند آواز سے مسودہ پڑھنے لگ گئے۔ جہاں کہیں خدشہ محسوس ہوا تو دل میں تصحیح کا خیال آجاتا۔ تمام مسودہ ریزہ ریزہ ہو کر خود دربار میں پڑھ کر سنا ڈالا۔ اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ چند فکری سوالات کی لازماً گنجائش تھی۔ باب ابوبکر صدیقؓ سے حرم سے نکلتے ہوئے اچانک ملاقات حمزہ یوسف سے ہو گئی۔ اپنے سوالات ان کے سامنے دوہرا ڈالے۔ جواب حسب منشا ملے۔ اور اسطرح تدوین کا سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ میں نے آج تک حمزہ یوسف کی تالیف نہیں پڑھی۔ لیکن اب تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کیا پڑھا ہے اور کیا رہ گیا ہے۔ لگتا ہے کہ جو کچھ بھی پڑھاہے، اصل میں وہی نہیں پڑھا۔
اس کتاب میں ایک اورخاص بات ہے۔ لکھنے کا کام بھی روضہ رسولؐ سے شروع ہوا تھا۔ یہ 1990ء کی بات ہے۔ معراج کی رات تھی۔ قادری صاحب سترہ سال کے وقفہ سے مدینہ پہنچے تو یہ وہی خاص شب تھی۔ ایک ہفتہ مدینہ میں روضہ پر قیام رہا۔ اور کتاب "اَلرسولؐ" کی تصنیف کا کام شروع ہوا۔ لازم ہے کہ موضوع اتنا ادب کا حامل ہے کہ لکھتے لکھتے کئی سال لگ گئے۔ اس طرح اس کتاب کی تصحیح بھی وہیں ہوتی رہی۔ اس پر میں گزارش پہلے ہی عرض کر چکا ہوں۔
"حب رسول" وہ جذبہ ہے جوکسی تعلیم کا محتاج نہیں۔ آقاؐ سے عشق بذات خود منزل بھی ہے اور ایک سفر بھی۔ غالبؔ نے فارسی میں کیا کمال شعرکہا ہے۔
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
آں ذات پاک مرتبہ دانِ محمداست
عشق ہی وہ دریا ہے جس میں نہ تیرنا ممکن ہے اور نہ ڈوبنا۔ یہ کیفیت کیسے شروع ہوتی ہے اور کیسے انسان اپنی ہستی سمیت اس میں شرابور ہو جاتا ہے، اس بارے میں کچھ نہ کہنا بہتر ہے۔ اس دریا کے پانی سے جو فیضیاب ہو گیا، وہ ساری عمر کے لیے بارآور ہو گیا۔ دلیل اور عقل اس دریا کے کنارے ہاتھ باندھ کر کھڑی رہتی ہے کیونکہ جہاں ایک کی حدختم ہوتی ہے تو دوسرے کی حد شروع ہوتی ہے۔ اسے سمجھے بغیر، اس گنجل کو کھولا نہیں جا سکتا مگر گرہ کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گرہ کو گرہ ہی رہنا چاہیے۔
اب ایک اور نکتہ کی طرف آتا ہوں۔ آپ ظاہری صورت سے کسی کو پرکھتے ہوئے سنگین غلطی کر سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ اس راہ کے مسافر نے دھونی رچائی ہوئی ہو اور لنگوٹ کس کر کسی مزار پر براجمان ہو۔ یہ سب کچھ تو باطنی لباس سے ہی ممکن ہے۔ صرف اور صرف باطنی لباس سے۔ ایک مغرب زدہ انسان پینٹ کوٹ میں ملبوس ہو کر بھی "بابا" ہو سکتا ہے۔ ایک ظاہرمیں"کلین شیو" شخص بھی سلوک کے قافلہ کا مسافر ہو سکتا ہے۔ سب کچھ اس فیض کی بات ہے جو نہ صرف کائنات پلٹ دیتا ہے بلکہ شائد آپکو مکمل طور پر بدل دیتا ہے۔ یہ تبدیلی آپ محسوس کر سکتے ہیں پر بتا نہیں سکتے۔
پر اب میرا اپنے آپ سے سوال ہے۔ آئرلینڈکاصوفی، درویش، قادری سرکار اور اب احمد قادری، یہ سب کچھ میری "ملامتی فصیل" پر کیوں حملہ آور ہوتے ہیں۔ میں سائنس کی دنیا کا آدمی ہوں۔ عمل اور ردِعمل پر یقین کرنے والا عام سا شخص۔ یہ اس "ملامتی حصار" کو اپنی باتوں سے برباد کر ڈالتے ہیں اور میں صرف سوچتا رہ جاتا ہوں کہ آخر میں ہی کیوں۔ آخرکیوں!