دہشت گرد گروہوں کے نت نئے نقاب

پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو غلط فہمیاں ہیں اس نے افغان آبادی کے ایک بڑے موثر حصے کو متاثر کیا ہوا ہے۔


Zamrad Naqvi December 21, 2015
www.facebook.com/shah Naqvi

گزشتہ سے پیوستہ ہفتے میں اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ہوئی جس میں چین، ایران، بھارت اور افغانستان سمیت دس ممالک کے وزرائے خارجہ شامل تھے۔ اس کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس میں 29 ملکوں سمیت علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمایندوں نے شرکت کی۔ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے مطابق اس کانفرنس کا آئیڈیا امریکی صدر باراک اوباما نے پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم مودی سے ہونے والی ملاقات میں تجویز کیا پھر مودی نے اس تجویز سے متعلق مشورہ پاکستانی وزیر اعظم سے ہونے والی تاریخی ملاقات میں کیا۔

یوں اس طرح اس کانفرنس کا کامیاب انعقاد ممکن ہو سکا۔ اس کانفرنس میں چار ملکوں کا اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس میں پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین شامل تھے، ان کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ کابل حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مفاہمتی عمل بحال ہونا نہ صرف افغانستان بلکہ اس خطے میں امن و استحکام لانے کی طرف بڑی پیشرفت ہو گی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر 43 نکاتی جامع مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس کی توثیق اس کانفرنس میں شامل تمام ممالک اور اقوام متحدہ کے نمایندوں نے کی۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں قیام امن اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے علاقائی ممالک میں اشتراک عمل بڑھایا جائے یعنی افغانستان میں طالبان سمیت تمام دھڑوں کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت رکوائی جائے۔

یہ بڑا اہم نکتہ ہے کیونکہ یہ مالی وسائل ہی ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر دہشت گرد اسلحہ ٹریننگ اور گروہی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے غریب سادہ لوح لوگوں کو شامل کرتے ہوئے اپنے نیٹ ورک کو وسعت دیتے ہیں۔ اعلامیے میں اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا کہ افغانستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے گا اور افغان فوج کی بھرپور معاونت کی جائے گی اور تمام دہشت گرد تنظیموں جن میں القاعدہ، داعش اور ان کے ذیلی گروپ بھی شامل ہیں، کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ ان کے خفیہ ٹھکانے اور تربیتی کیمپ تباہ کیے جائیں گے اور سپلائی لائن کاٹ دی جائے گی۔ اس اعلامیے میں افغان طالبان کے تمام گروپوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں شریک ہوں اور افغان مسئلے کا پرامن حل تلاش کریں۔ یہ بھی طے ہوا کہ سرحدوں کی نگرانی سخت کی جائے گی اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے افغان صدر اشرف غنی کے دورہ اسلام آباد پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ افغان صدر کو کن حالات اور کس دباؤ میں کانفرنس میں شرکت کرنا پڑی، اس کا اندازہ ہم صرف اس ایک واقعے سے ہی کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو غلط فہمیاں ہیں اس نے افغان آبادی کے ایک بڑے موثر حصے کو متاثر کیا ہوا ہے۔ ایک طرف افغانستان میں اینٹی پاکستان لابی بہت موثر ہے تو دوسری طرف افغان رائے عامہ کے ایک حصے کا خیال ہے کہ افغانستان جن مسائل سے گزر رہا ہے اس کا ذمے دار پاکستان ہے۔ پاک افغان تعلقات کی تاریخ بہت افسوسناک ہے۔ دو برادر اسلامی ملک ہونے کے باوجود جن کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں وہ کچھ نہیں ہو سکا جو ایک دوسرے کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے تھا کیونکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی پختونستان کا شوشا چھوڑ دیا گیا۔

ایک نوزائیدہ ملک اپنی پیدائش کے ساتھ ہی مغربی سرحدوں کی حفاظت کے معاملے میں عدم تحفظ کا شکار ہو گیا۔ اس کے ساتھ افغانستان نے پاکستان کو تسلیم کرنے میں حتی الامکان تاخیر سے کام لیا۔ بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور افغان حکمران سردار داؤد ڈیورنڈ لائن سمیت دیگر معاملات کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن بعد میں افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد اور امریکی مداخلت سے ایک ایسی تباہی کا آغاز ہوا جس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔ افغانستان میں غیر ملکی مداخلت نے دونوں ملکوں کو بے دست و پا کر دینے کے ساتھ ایسے دہشتگرد پیدا کر دیے جن کے مفادات عالمی قوتوں سے وابستہ ہو گئے۔ بیرونی مفادات کی آبیاری نے اس خطے کو بے پناہ جانی و مالی آلام سے دوچار کیا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی مستقبل بعید میں اس کا کوئی خاتمہ نظر آتا ہے۔

ہمارا خطہ پچھلے چالیس سالوں سے بہت بڑی آفت سے دوچار ہے۔ جتنا اس آفت سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اتنا ہی اس میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ ابھی تک تو اس آفت سے نکلنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ دہشتگردی نئی سے نئی شکلوں میں سامنے آ رہی ہے۔ جب ایک دہشتگرد گروہ کا نقاب مسلمانوں پر کھلتا ہے تو ایک دہشتگرد گروہ کو ایک نئے نقاب اور نئے نام کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے لایا جاتا ہے۔ مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو متحد نہ ہونے دینا اور مذہب کے نام پر ان کو تقسیم کرنا اور اس تقسیم کو گہرا کرتے جانا۔ حال ہی میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ایک عرب بادشاہت کی سربراہی میں ایک نیا اتحاد قائم کیا گیا ہے جس میں پاکستان کو شامل کر لیا گیا ہے، اس معاملے میں پاکستانی عوام کی نمایندہ پارلیمنٹ کا کوئی کردار نہیں۔ اس نئے اتحاد کا امریکا نے پرجوش خیرمقدم کیا ہے۔

ظاہر ہے جس اتحاد کو امریکا کی تائید و حمایت حاصل ہو گی اس اتحاد سے خیر کی کہاں امید کی جا سکتی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی مشرق وسطیٰ میں دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں لیکن جب روس پہلی مرتبہ اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے میدان میں اترا تو سامراجیوں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی کہ اب تو حقیقی معنوں میں دہشتگردی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ مسلمان اور عالم عرب دونوں اس کی نوسربازی کو جان گئے ہیں کہ دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر دہشتگردوں کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔ نئے اتحاد کے نام پر تازہ ترین کوشش یہ کی گئی ہے کہ مسلمانوں کو دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر سنی اور شیعہ میں تقسیم کر دیا جائے۔ دہشتگردی امریکا کا اسٹرٹیجک ہتھیار ہے جسے امریکا نے مسلم دنیا کی تباہی کے لیے اگلی کئی دہائیوں تک استعمال کرنا ہے۔ اب امریکا کامیاب ہوتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ مسلمانوں کی اجتماعی بصیرت نے کرنا ہے... ورنہ تو یہ گزشتہ چالیس سالہ سامراجی دھوکہ ہی تھا جس نے کروڑ سے زائد مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا... اب اس سازش کی تیاریاں ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اگلے دو سال اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کو شکست ہو گی یا مسلمانوں کو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں