دہشت گردی و کرپشن
پاکستان میں جب بھی دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف کارروائی کی گئی وہ کبھی اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچی
پاکستان میں جب بھی دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف کارروائی کی گئی وہ کبھی اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچی، کیونکہ اس آپریشن میں ہونے والی کارروائیوں کے سامنے ہمیشہ سیاستدان ہی آتے رہے۔ ہمارے ملک میں سیاستدان بہت طاقتور ہیں اور ان کے ساتھ بیوروکریٹس، جب یہ دونوں مل جائیں تو نتیجہ کبھی منطقی انجام والا نظر نہیں آتا۔ 5 دسمبر 2015 سے قبل تقریباً ڈھائی سال کی مدت میں فوج کے تعاون سے رینجرز کے ایکشن سے دہشت گردوں کو دبانے کا موقع ملا اور ضرب عضب کے نام سے شروع ہونے والا ایکشن فاٹا کے علاقے میں بہت کامیاب رہا، کیونکہ وہاں پر بدنام زمانہ دہشت گرد کارروائی کرنے والے نام نہاد مجاہدین نے ڈیرا ڈالا ہوا تھا، ان کے پاس جدید اسلحہ کی کمی نہیں تھی اور نہ اسلحہ چلانے والوں کی، لیکن اگر پاکستان کے ان اداروں میں صلاحیت ہوتی جو اندرون ملک سرحد سے جانچ پڑتال کرتے ہیں، تو کبھی دہشت گرد لاہور میں پناہ لیتے نہ کراچی میں۔
انھوں نے اپنی سرگرمیاں اتنی تیز کردی تھیں کہ ان کا نیٹ ورک، ان کے مسلح گروپ، ان کے خودکش بمبار، خاص طور پر شہر کراچی میں قدم جمانے میں کامیاب ہوئے۔ اس میں وزارت داخلہ کی کمزوری رہی اور ہمارے بعض سیاسی رہنماؤں کی طرف مزاحمت نہ ہونا، اور 2013 کے عام انتخابات میں ان تمام جماعتوں کو کامیابی ملی جو طالبان کے خلاف مزاحمت میں شامل نہ تھیں اور ان تمام سیاسی جماعتوں کو شکست ہوئی جو طالبان کے خلاف مسلسل مزاحمت کررہی تھیں، جس میں پی پی پی اور اے این پی بھی شامل ہے۔ جیتنے والے سیاستدانوں نے خوب سیاسی فائدہ ضرور اٹھایا مگر وطن کی سالمیت داؤ پر لگادی، جس کے نتیجے میں ایک ایسی دہشت گردی عمل میں آئی جو انتہائی سیکیورٹی کی حامل تھی۔ میرا اشارہ پشاور کے اس اسکول کی طرف ہے، جہاں ہماری پاک افواج کے خاندان کے بچے زیر تعلیم تھے۔ وہاں یقیناً حسب معمول سیکیورٹی کے انتظامات پہلے ہی موجود تھے، مگر اس حصار کو توڑ کر دہشت گردوں نے جو ظالمانہ حرکتیں کیں، اس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔
اگر جمہوریت کے متوالے کسی وقت ہمارے دین یعنی اسلام کے اس فلسفہ پر غورکرتے، جس میں سزا اور جزا کا تصور بہت عادلانہ ہے، خاص طور پر اسلام میں جو بھی سزائیں ہیں جیسے شرابی کو کوڑے مارنا، زانی کو سنگسار کرنا، چور کے ہاتھ کاٹنا اور ڈاکوؤں کے ہاتھ اور پیر کاٹنا، اس میں دہشت گردوں کی بھی سزا ہے، مگر فلسفہ ان سزاؤں کا اسلام میں یہ بھی ہے کہ ہر مقدمہ گواہ کی بنیاد پر قائم ہو اور ہر سزا پانے والے کی سزا کو چھپ کر نہیں بلکہ سرِعام لوگوں کے مجمع میں دی جائے، تاکہ دیکھنے والا عبرت حاصل کرلے۔ یہی وہ فلسفہ ہے جس کے تحت معاشرہ بہتر ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں اسلامی سزاؤں پر اسی طرح عمل ہوتا رہا اور جب تک یہ سزائیں کھلے عام دی جاتی رہیں وہاں جرائم، چوری، ڈکیتی، زنا کی وارداتیں برائے نام تھیں۔
اگر زمین پر ریال پڑے ہوں تو لوگ اٹھاتے ہوئے ڈرتے تھے، وہاں کے علما کے ذریعے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ادارہ بہت بااثر تھا، اس لیے وہاں چھوٹا سا بچہ بھی مسجد میں پانچوں وقت کی نماز پڑھتا تھا اور سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں بھی بڑا اعتدال تھا، کسی ملک کے داخلی معاملات میں مخالفت نہ کرتے تھے، اور نہ ہی کسی مسلم ملک کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ۔ دنیا کے خطے میں سعودی عرب بھی اتنا پرسکون اور امن کا گہوارہ تھا جتنا سوئٹزرلینڈ ہے۔ مگر جب سے عربوں نے مل کر انقلاب ایران کے خلاف تحریک میں حصہ لیا اور عربی عجمی کی خلیج پیدا اور عراق کے صدر صدام حسین کو ایران کے خلاف جنگ کرنے پر اکسایا، جب سے ان عرب ملکوں کی معیشت بھی اور اقتصادیات بھی نقصان میں جانے لگی اور اندرونی مسائل میں اضافہ ہوا، امن اور سکون برباد ہوا اور سب سے بڑا نقصان دنیائے اسلام کے ماننے والی ریاستوں کو ہوا۔
کبھی یہ حال تھا اسرائیل عربوں سے ڈرتا تھا، مسلمان ریاستوں سے ڈرتا تھا اور تحریک آزادی فلسطین بہت اثر پذیر تھی۔ مسلمان آزادی کشمیر پر جمے ہوئے تھے اور دنیا میں مسلمان ریاستیں ایک قوت کے طور پر موجود تھیں لیکن ہم نے امریکا اور یورپ کی سازش پر کام کیا اور افغانستان میں روس کے خلاف امریکیوں کی اور یورپ کی حمایت میں نکل آئے۔ جب کہ یہ جنگ دنیا کی دو سپرپاور کی تھی اور ان سپرپاور کا وجود مسلمانوں کے حق میں تھا۔ لیکن امریکا نے خاص طور پر پاکستان کے ذریعے روس جیسی سپرپاور کو شکست دے کر اپنے لیے میدان ہموار کیا اور پھر آہستہ آہستہ دیگر اسلامی ریاستوں کی طرف بڑھنے لگا، خاص طور پر تیل سے مالامال ریاستوں میں اپنی اجارہ داری کے لیے وہاں کے حکمرانوں کا دھڑن تختہ کیا، جس میں عراق، مصر، لیبیا شامل ہیں اور اب اس کی نظریں شام، بحرین، قطر پر ہیں، اور اس کی کامیابی ہی ہے کہ آج مسلمانوں میں انتشار بھی ہے اور دہشت گردوں کی بھرمار بھی۔ اب نہ ہی مسلمان ریاستوں میں امن و سکون ہے۔
ہمیں سوچنا ہوگا، ہم میں سے کوئی صلاح الدین ایوبی بن کر یا ٹیپو سلطان، محمد بن قاسم بن کر سامنے آئے اور اپنے وطن کی کھوئی ہوئی عزت اور وقار کو بحال کرے۔ پاک وطن کی زمین کو دہشت گردوں اور بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز اور کرپشن کرکے زمینوں پر قبضہ کرنے والوں اور ناجائز آمدنی جمع کرکے بیرون ملک بھیجنے والوں کے ساتھ ایسی کارروائی ہو کہ ایسے سماج دشمن عناصر عبرت پکڑیں اور ہمارا وطن جہاں قدرت نے مال و زر، زراعت اور معدنیات سب کچھ دیا ہے، اس کی اس طرح تقسیم ہو کہ پاکستان کا ہر شہری بنیادی سہولتوں سے محروم نہ ہو۔ ہر ایک کو خوراک، مکان، تعلیم، صحت، روزگار کم سے کم اتنا تو ہو کہ وہ دو وقت کی روٹی کھاسکے اور زندگی عزت و سکون سے گزار سکے۔
یقیناً یہ سب کچھ کرنے کے لیے پاکستان فوج سے بڑھ کر کوئی ادارہ نہیں، کیونکہ یہ واحد ادارہ ہے جس کی صلاحیت بھی مسلم ہے اور اس کی Cradibility بھی قائم ہے، جب کہ تمام ادارے خاص طور پر ایف آئی اے، پولیس یہ سب مخدوش ہوچکے ہیں، ان کی بھی تعمیر نو ہونی چاہیے، لیکن یہ سب جب ہی ممکن ہے جب حکومت پاکستان ریاست کو مضبوط کرنے کا عزم رکھتی ہو۔ ہمارے وزیراعظم محمد نواز شریف میں یہ خوبی ہے کہ وہ معاملات کا حل بہت جلدی نکال لیتے ہیں اور وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد بڑی جانفشانی اور باقاعدہ انداز سے وزارت داخلہ کو چلارہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی کابینہ کے چند بہترین وزیروں میں وہ صف اول میں ہیں جو صاف شفاف اور آئینی اختیارات کو بہتر انداز میں استعمال کررہے ہیں۔
اگر حکومت واقعی یہ چاہتی ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور کرپشن پر صاف شفاف موثر انداز میں نتیجہ خیز کارروائی ہو تو کچھ عرصے کے لیے وزارت داخلہ کا قلمدان پاک فوج کے حوالے کردے، جو اس ادارے کو بہتر بنانے میں مددگار ہوں گے۔ یہی موجودہ معاملات کا حل ہے۔ جتنی جلد ہوسکے یہ قدم اٹھایا جائے تو بہتر ہوگا، خاص طور پر کراچی آپریشن کو رینجرز کے ذریعے چلانا ضروری ہے کیونکہ جب تک ہمارے دوسرے ادارے پولیس، ایف آئی اے آزادانہ طور پر خودمختار نہ ہوں فوج کی مدد جاری رکھی جائے، ورنہ سندھ میں گورنر بھی تبدیل ہوجائے گا اور گورنر راج بھی لگ جائے گا، اور شاید آئینی ترمیم سے رینجرز کے اختیارات صوبوں میں قانون بنا دیے جائیں گے۔