بشیر احمد بلور آپ بھی ہمیں یاد ہو

دسمبر بھی بڑاستم گر ہے،کیوں کہ پہلے اس خنک مہینے میں ملک کاآدھاحصہ کٹ گیا،


امجد عزیز ملک December 21, 2015
[email protected]

SWAT: دسمبر بھی بڑاستم گر ہے،کیوں کہ پہلے اس خنک مہینے میں ملک کاآدھاحصہ کٹ گیا،پھر چوالیس برس بعد اسی تاریخ کو ظلم و ستم اور بربریت کی ناقابل فراموش داستاں رقم ہوئی،اسی طرح پھراسی ہی مہینے خیبر پختون خوا حکومت میں سینئر وزیر کی حیثیت سے شامل دہشت گردوں کو للکارنے والے نڈراوربے باک بشیر احمد بلور نے ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دے کر خود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ،چند ہی دنوں بعد عالم اسلام کی عظیم سیاست دان محترمہ بے نظیر بھٹوکوظالموں نے ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کردیاجب کہ ان ہی تلخ یادوں میں ہم بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش شاید اس جذبے اور ولولے سے نہ منا سکیں گے جس کا یہ دن تقاضاکرتا ہے کہ شہادتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ پہلے تو غم و اندوہ صرف پشاور تک محدود ہوا کرتا تھا اب تو ساری دنیا ہمارے غم میں شریک ہے۔

یہ مہینہ شروع ہوتے ہی بلور خاندان اپنے قابل فخر سپوت بشیر احمد بلور کی یادوں میں کھو جاتا ہے۔بشیر بلور ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جسے شہر پشاور سمیت سارے صوبے میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ان کے بڑے بھائی حاجی غلام احمد بلور ایک معتبر بزرگ سیاست دان ہیں، کئی بار رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر رہے اور پشاور میں ان کی ایک بڑی وجہ شہرت عام انتخابات میں ان کی پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون پر کامیابی تھی بعد میں انھوں نے عمران خان کی چھوڑی نشست پر بھی مد مقابل امیدواروں کو مات دی۔بشیر احمد بلور پانچ بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، دو بار صوبائی اور ایک بار سینئر وزیر رہے،تیسرے بھائی الیاس احمد بلور تاجروں کی سیاست کے سرخیل بنے جب کہ چوتھے بھائی عزیز احمد بلور نے سول سروس میں نام کمایا۔

شہید کے بیٹے ہارون بلور ٹاؤن ناظم کی حیثیت سے ہر عام و خاص میں مقبول رہے۔لوگ پوچھتے تھے کہ بلور خاندان نے عوامی نیشنل پارٹی کے نظریات کو کیوں اپنایا ؟سیاست دان بھائیوں کا جواب کچھ بھی ہو لیکن بشیر احمد بلور کہا کرتے تھے کہ اصل کامیابی قوم پرستی میں ہے اور جب آپ اپنے علاقے کے عوام کی خدمت کرنے کو عبادت سمجھیں گے تو حقیقتاً یہی قوم پرستی ملک و قوم کی کامیابی کا باعث بنتی ہے !کیا آپ کے لیے سب سے پہلے پاکستان نہیں ہے؟میرے اس سوال کے جواب میں مسکراتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی پاکستان بننے کے خلاف تھی اور ہمیں بھی لوگ غدار کہا کرتے تھے لیکن اب انھیں معلوم ہو گیا ہے کہ ہم نہ تو پاکستان بننے کے خلاف تھے اور نہ ہی غدار ہیںجب ہم قوم پرستی کی بات کرتے ہیں تو درحقیقت یہی ملک کے استحکام کا باعث بنتی ہے !ہم نے تو اپنا راہ نما باچا خان کے عدم تشدد کے فلسفہ کو اپنایا ،خان عبدالولی خان نے بھی اسی فلسفہ کو آگے بڑھایا اور ہم ان کے سپاہیوں کے طور پر اسی عدم تشدد کے فلسفے کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں!تو کیا یہی وجہ تھی آپ کی حکومت نے طالبان سے مذاکرات کو ترجیح دی؟

اگر وہ تشدد کرتے ہیں تو ہم ان سے مذاکرات کر کے انھیں سیدھے راستہ پر لا سکتے ہیں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ اگر کوئی غلط راستے پر چل رہا ہو تو آپ بھی اپنا راستہ چھوڑ کر اس کی راہ پر چل نکلیں۔بشیر بلور بول رہے تھے اور میںسن رہا تھا وہ کہنے لگے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے اقتدار سنبھالتے ہی صوبے میں قیام امن کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیںاور یہ کوششیں تب ہی کامیاب ہو سکتی ہیں جب دونوں فریق ایک پیج پر ہوں اور کسی کو کوئی بھی غلط گائیڈ نہ کرے!آج ان کی شہادت کے بعد مجھے یقین ہے کہ بشیر بلور کی روح کو سکون ہو گا کہ جو بات وہ کیا کرتے تھے آج امریکا سمیت ساری دنیا کر رہی ہے سبھی دہشت گردوں سے بات چیت کرنے کا کہہ رہے ہیں کاش یہ گھناؤنا کھیل نہ کھیلا جاتا کہ شہید بشیر احمد بلور سمیت پچاس ہزار سے زیادہ لوگ آج ہم میں موجود ہوتے۔

جب پھولوں کا یہ شہر بم دھماکوں کی زد میں تھا تو ساری قوم نے بشیر احمد بلور کو ایک نئے روپ میں دیکھا جونہی شہر میں کوئی دھماکا ہوتا اگلے چند لمحوں میں شہید بشیر احمد بلور موقع پر پہنچ جاتے ایسا کئی بار ہوا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کیوں دھماکے کی جگہ پہنچتے ہیں خدانخواستہ دوسرا دھماکا ہو جائے تو بہت نقصان ہو جائے گا تو وہ پشتو میں کہتے جو رات قبر میں ہے وہ آ کر ہی رہے گی، جب تک زندگی کی سانسیں ہیں وہ بے گناہ عوام کے دکھوں میں ان کے ساتھ شریک ہوتے رہیں گے اور شدت پسندوں کو ہر بار یہ پیغام دیں گے کہ ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے وہ دہشت گردی کے خلاف اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے۔

پھر ایک نہیں تین بار ان کو نشانہ بنایا گیا مگر وہ بچ گئے، موت کو قریب سے دیکھنے کے باوجود وہ باز نہ آئے اور پھر22 دسمبر 2012 ء کو انھیں اس وقت ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا جب وہ قصہ خوانی کی پشت پر واقع ڈھکی نعلبندی میں ایک سیاسی تقریب میں شرکت کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔شہید بشیر احمد بلور ایک بردبار اور منجھے ہوئے سیاست دان تھے ان کی پارٹی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس بردباری، برداشت اور تحمل و حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی اور پھر انھوں نے اپنے خون کی قربانی دے کر اپنا حصہ بھی ڈالا۔

دھماکوں کی جگہ ان کے ساتھ میاں افتخار حسین بھی موجود ہوا کرتے تھے ان کااکلوتا بیٹا بھی دہشت گردوں کا شکار بنا پھر عوامی نیشنل پارٹی کے اراکین اسمبلی سمیت سیکڑوں کارکنوں نے بھی لازوال قربانیاں دیں مگر بشیر احمد بلور کی قربانی نے بھی ملک میں جموری اداروں کے استحکام میں بڑا اہم کردار ادا کیا انھوں نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کا پیغام دیا جس پر ان کی زندگی میں تو عمل نہ ہوا مگر اب ان کی روح یقیناً خوش ہو گی کہ شہیدوں کی قربانیاں رنگ لانے لگی ہیں۔آج بشیر احمد بلور کے فرزند ہارون بلور اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اپنے بھائی عثمان بلور کے انتقال کے بعد وہ بشیر بلور خاندان کا واحد اثاثہ ہیں، اپنے والد کی تیسری برسی کے موقع پر وہ اکیلے نہیں ہم سب ان کے ساتھ ہیں کہ بشیر احمد بلور کی عظیم قربانی کبھی بھلائی نہیں جا سکے گی ان کی یادیں ہمیشہ دلوں میں رہیں گی اور نئی نسل اپنے نظریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلاشبہ ان کی شہادت پر فخر کرتی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں