دسمبر کو سلام
دسمبر پاکستان کی تاریخ کے لحاظ سے ایک ایسا مہینہ ہے کہ اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
دسمبر پاکستان کی تاریخ کے لحاظ سے ایک ایسا مہینہ ہے کہ اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دنیا بھر کے شاعروں کی طرح ہرچند کے اردو شاعروں نے دسمبر کو ''تختہ مشق'' بناکر نہ جانے کیا سے کیا کردیا اور ناکامیوں، یاسیت اور اس قسم کے دوسرے تمام جذبوں کو اس سے نتھی کردیا۔ حالانکہ یہ جذبے پورے سال ہی ہوتے ہیں اور ہم اردو اور دوسری زبانوں کے شعرا اور لوگوں کے برعکس مغربی اقوام دسمبر کو بہت جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ کیونکہ دسمبر میں ہی کرسمس کا تہوار بھی آتا ہے مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ آخر کو دشمنی ہے دعا کو اثر کے ساتھ۔ تو ہم اسے اس کے برعکس سمجھتے اور ہمارے شعرا اسے رومان کی سردمہری بنانے پر تلے رہتے ہیں بقول شاعر:
کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
تو آخر سردیوں کی شاموں میں اداس رہنے کو کس نے کہا ہے ''پھرتے'' ذرا سا ہمیں معیوب لگتا ہے لہٰذا ہم نے اسے ''رہتے'' میں تبدیل کرلیا ہے اپنی سہولت کے لحاظ سے۔
ہمارا خیال ہے پھرتے ویسے بھی ''مارے مارے پھرتے'' میں زیادہ مستعمل ہے لہٰذا اس کا مطلب اداس ہونا ہرگز نہیں ہے اگر ''پھرتے'' ہو ہی رکھنا ہے تو ''اداس'' رہنے کی شرط کو ہٹانا پڑے گا۔ بہرحال یہ تو ایک نیم ادبی بلکہ واقعی ''ادبی'' اور ''لسانی'' بحث ہوجائے گی۔ کیونکہ زبان کے الفاظ رویے، اور برتاؤ کا اظہار ہوتے ہیں جو انسان انسانوں سے رکھتا ہے یا کرتا ہے تو سردیوں میں گل داؤدی کے نت نئے رنگ کے پھول کھلتے ہیں۔ برف کے پھول اس کے علاوہ ہیں اور انھیں دیکھنے لوگ دور دراز کے علاقوں سے آتے ہیں زر کثیر خرچ کرکے اور ان سے مقامی لوگ روز مرہ کی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ قدرت کا نظام بھی کیا عجیب ہے کوئی کچھ دیکھنے کو پیسہ خرچ کر رہا ہے اور کوئی اس کی دشواریوں سے بچنے کو پیسہ خرچ کر رہا ہے۔
یہ بھی قدرت کا ایک کرشمہ ہے کہ دیکھنے والوں سے رہنے والوں کو روزگار میسر آتا ہے اور اس سے وہ سال بھر گزارا کرتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ وہاں ہوتا تو لوگ دیکھنے نہ آتے اور ان کا روزگار انھیں نہ ملتا اور یہ پریشان ہی رہتے۔
اب یہ تو موسم کو محسوس کرنے پر منحصر ہے کوئی اس سے خوش اور شاداں کوئی اس سے پریشان مگر روزگار بھی حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان قدرت کا ایک انعام ہے اس کے رہنے والوں کے لیے اس میں دادو کی کیرتھر رینج کے ہل اسٹیشن گورکھ سے لے کر یا K-2 تک کے مقامات ہیں اور یہ مقامات اس ماہ میں اور اس کے بعد کے چند ماہ تک نہایت خوبصورت نظر آتے ہیں۔ سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبرپختونخوا میں ایسے مقامات ہیں جو قدرت کے حسن کا شاہکار ہیں جیسے کہ مالم جبہ، سیف الملوک، اسکردو کا علاقہ اور بہت سے علاقے، یہ سب دیکھنے کے لائق Worth Seen ہیں اور یہ ملک کے پانی کے بہت بڑے ذخائر بھی ہیں۔
ہر وقت کم ازکم میرے دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ اس سال اور برف پڑے یہ دعا کیوں اب میرے دل سے زیادہ اور شدت کے ساتھ نکلتی ہے کیونکہ بھارت نے پاکستان کے پانی کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور حکمرانوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ میں مسلسل یہ لکھتا ہوں کہ انھیں پاکستان سے دلچسپی نہیں ہے یہ ان کی چراگاہ ہے اور عوام بھیڑ بکریاں، ان کے گھر دوسرے ملکوں میں ہیں ان کو دوسرے ملکوں کی شہریت بھی حاصل ہوجائے گی کچھ کی شاید ہے بھی۔ یہ سب کچھ بیچ باچ کر وہاں چلے جائیں گے ملک ''برائے فروخت'' کے اشتہار کے نیچے تو چل رہا ہے۔ حکمرانوں کے بھی اب ایک سے زیادہ کاروبار ہیں۔ شکر، لوہا، مرغی اور نہ جانے کیا کیا۔ ایک صاحب تو مسٹر Ten پرسنٹ مشہور ہوئے تھے اب تو بہت سے Sent Percent ہیں آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں دسمبر اور برس سے کہاں پہنچ گیا۔ تو ان کے دلوں میں جھانک کر دیکھیے، قوم کے لیے ان میں دسمبر ہی ہے۔
یہ دسمبر ہی تو تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنگ بندی نہ ہونے دی قرارداد پھاڑ دی اور جنگ میں انھیں یقین تھا کہ پاکستان مشرقی محاذ پر کامیاب نہیں ہوگا۔ فاصلہ، لاجسٹک پرابلم، امریکا کے جھوٹے دلاسے اور بین الاقوامی سازش کے تار و پود جو برف کی لڑیوں کی طرح پاکستان کی تاریخ پر پھیل گئے تھے اور پاکستان کو پاکستان کے سلسلے میں شکست ہوگئی، جنرل نیازی نے پلٹن میدان ڈھاکہ میں پاکستان کو رسوا کردیا۔ اسی دسمبر میں ایک اور نیازی نریندر مودی سے مل رہا ہے۔ کیا عجیب دسمبر ہے اور کہہ رہا ہے کہ 2018 میں پاکستان کا وزیر اعظم میں ہوں گا۔ ہم تو شروع سے کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے نوجوان جو لہو دے رہے ہیں وہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے کام آئے گا صرف! جو عمران خان نریندر مودی کو للکار رہے تھے وہ بھی کرکٹ کی بات کرکے سبکی کروا آئے ہیں۔ جس بھارتی وزیر اعظم نے جنرل نیازی کی ہتھیار ڈالتے ہوئے تصویر حسینہ واجد سے وصول کی ہے اور کہا ہے کہ ہم نے پاکستان توڑنے میں بنگالیوں کی مدد کی تھی اس کے ساتھ بیٹھ کر کرکٹ کی باتیں کرنا اپنے آنگن میں اپنے خون کی ہولی کھیلنے کے سوا کیا ہے۔ عمران خان کی طالبان سے ہمدردیاں پوشیدہ نہیں ہیں۔
بھارت کی طالبان سے دلچسپی صاف ظاہر ہے اور وہی ان کا براہ راست یا باالواسطہ اسپانسر ہے مگر حیرت ہے کہ ہمارے حکمران اور لیڈران سے مسکرا کے جھک کے ملتے ہیں اور کرکٹ کھیلنے کی باتیں کرتے ہیں۔ کشمیر میں روز خون بہہ رہا ہے، آپ کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ جو روز کشمیریوں کا خون بہا رہے ہیں اور آپ کشمیر کے نعرے بھی لگاتے ہیں۔ آپ کیا ہیں یہ سوال میرا پاکستان کے ان لیڈروں سے ہے جو اس رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ سب دسمبر ہیں۔حمیت اور غیرت سے عاری جیسے دسمبر گرمی سے بے نیاز۔ سردی، سرد مہری اور یہی اپنے عوام سے ان کا رویہ ہے قصور، لاہور، کراچی کس کس شہر کا نام لوں جہاں معصوم شہریوں کی جان ومال اور عزتوں کو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے۔ یہ ''دسمبر لیڈر'' دورہ کرتے ہیں، تصویریں بنواتے ہیں اور پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ پھر سب کچھ برف کے نیچے یعنی دسمبر!
پشاور کے آرمی اسکول اور دسمبر کا ایک ایسا گہرا تعلق ہے کہ وہ کبھی فراموش نہ ہوسکے گا کیونکہ اس میں یہ لیڈر نہیں تھے۔ قوم کے نونہال تھے ان کے جوان، ہمت سے بھرپور اساتذہ تھے، بے مثال خواتین ٹیچرز تھیں۔ ان کی لیڈر پرنسپل تھی جنھوں نے پاکستان کے پرچم میں چاند ستارے کو جگمگادیا۔ یہ ہے پاکستان! ایسا ہوتا ہے پاکستان! ایسا ہوگا پاکستان! دسمبر کے یخ بستہ ماحول کو وطن کے لیے سرفروشی نے وطن کے بیٹوں کے لہو نے گرما دیا اور ایسا کہ پاکستان کے کمانڈر انچیف نے ان کے جذبے کو خود وہاں جاکر سلام کیا۔
دسمبر آتے رہیں گے، جاتے رہیں گے، مگر پاکستان کے بدخواہوں کی یہ آرزو جو وہ کچھ وطن فروشوں کے ساتھ رکھتے ہیں خدانخواستہ پاکستان کا پرچم ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہوجائے کبھی پوری نہیں ہوگی۔یہ پرچم سفید ہے، سبز ہے، اور سرخ بھی ہے۔ بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے! دسمبر کے شہریوں کو سلام! پشاور کے اسکول کے شہیدو! سلامت ہے وہ جذبہ جو تم نے دیا ہے اور سلامت رہے گا انشا اللہ!