امریکا میں ہلچل

دنیا کا پولیس مین امریکا آج بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ 30 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ بے روزگار ہیں۔


Zuber Rehman December 23, 2015
[email protected]

دنیا کا پولیس مین امریکا آج بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ 30 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ بے روزگار ہیں۔ ایک جانب اس کے بحری بیڑے 12 سمندروں میں لنگر انداز ہیں تو دوسری جانب دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک بھی امریکا ہی ہے۔ یہاں طبقاتی خلیج میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔ گولڈ مین سیکس کے منافعوں میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے، جے پی مورگن چیس کی آمدنی میں 23 فیصد گراوٹ آئی ہے۔

ایک جانب وال اسٹریٹ کا اثاثہ 10 کھرب ڈالر ہے جو امریکا کی کل جی ڈی پی کا 60 فیصد ہے۔ ملک کے کل کریڈٹ کارڈ کی ترسیل کا دو تہائی وال اسٹریٹ اسٹاک ایکسچینج کرتا ہے۔ امریکی بینکوں کا ڈپازٹ کا 40 فیصد وال اسٹریٹ کا حصہ ہے۔ تو دوسری جانب 10 فیصد لوگ ذاتی کھانے پہ پلتے ہیں۔

عام لوگوں کو سستی ادویات میسر نہیں۔ 2015ء کی دوسری سہ ماہی میں امریکی معیشت 3.9 فیصد بڑھی لیکن یہ زیادہ تر غیر فروخت شدہ اجناس کی وجہ سے ہوا۔ تیسری سہ ماہی میں 1.5 فیصد نمو ہوئی جو زیادہ تر معیشت دانوں کی پیش گوئی 1.7 فیصد سے کم تھی اور پچھلی سہ ماہی سے 60 فیصد کم۔ انھیں معاشی بحران کی وجہ سے طبقاتی خلیج بڑھی ہے جس کی وجہ سے عام لوگ پریشانیوں کی زد میں آئے ہیں۔ اب دہائیوں کے بعد امریکا میں پھر ایک بار سوشلسٹ تحریک ابھر رہی ہے۔

2016ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے سوشلسٹ امیدوار برنی سینڈرز عوام میں بے حد مقبول ہو رہے ہیں۔ وہ جمہوری سوشلسٹ کے طور پر مضبوط امیدوار بن کے ابھرے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں سیاٹل سے لاس اینجلز اور لاس اینجلز سے اٹلانٹک تک زبردست ریلی نکالی، جس میں شرکا کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ تھی۔ جلوس کے اختتام پر خطاب کرتے ہوئے سینڈرز نے کہا کہ ''ہماری معیشت اور سیاسی نظام کو ارب پتیوں نے خراب کیا ہے، ہم کم آمدنی والے لوگوں کے حقیقی نمایندے ہیں۔'' انھوں نے اکتوبر میں نیشنل اسٹوڈنٹس ٹاؤن ہال، جارج مین یونیورسٹی ورجینیا میں بھی خطاب کیا۔ سیکڑوں طلبا کا بپھرا ہوا مجمع ریفرئز کے والی بال اسٹیڈیم میں کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

مجمعے میں افریقی امریکی، افریقی مہاجرین ہسپانوی، ایشیائی ، مشرق وسطیٰ، سفید فام، پریپی ہیپٹر وغیرہ بھی بڑے پیمانے پر شریک تھے۔ برنی نے برابری، صحت، بے روزگاری اور بلکتے ہوئے محنت کش طبقے کے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ امریکی طلبا بھی نیلے رنگ کے حجاب اوڑھے ہوئے تھیں جس پر برنی کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ ایک اجتماع میں سے ایک نوجوان عبدالقادر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ مجھے بولنے دیں کہ میرے والد کو تشدد گاہ میں رکھا گیا اور وہیں ان کی موت ہو گئی۔ ایک سیاہ فام مسلمان خاتون نے امریکا کی مکروہ شکل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک سفید فام یہودی نے مجھ پر تشدد کیا۔

یہ ہے یہاں کی نسل پرستی، جس پر ہجوم اشکبار ہوا ۔ برنی نے کہا کہ امریکا شام میں حزب اختلاف کی جس غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر حمایت کر رہا ہے، اگر کوئی بول پڑے تو حکمرانوں کا بس چلے تو اسے قتل کر دیں۔ 1990ء میں، میں امریکا کا پہلا سوشلسٹ تھا جو 40 سال کی عمر میں ڈیموکریٹک سوشلسٹ کے طور پر منتخب ہوا۔ میں یقین نہیں کر پاتا کہ میں کبھی میئر، کانگریس رکن اور ریاست ہائے متحدہ کا سینیٹر بن سکتا ہوں۔ بروک لین، نیویارک کے ایک اپارٹمنٹ میں کرائے پر رہنے والا شخص کیونکر صدر بن سکتا ہے۔ برنی نے ایک انٹرویو میں ادویات کے ڈائریکٹروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی چار بڑی ادویات کی کمپنیوں کے مالکان نے 2014ء میں 57 بلین ڈالر کمایا اور غریب لوگوں کو دوائی تک رسائی نہیں ہے۔

کینیڈا سے اگر سستی دوائی مل سکتی ہے تو پھر امریکی حکومت کیوں دوائیں کینیڈا سے درآمد نہیں کرتی۔ جب کہ یہی امریکا دنیا بھر میں اپنی مہنگی دوائیاں برآمد کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں چند معمولی مسائل کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔ اس ملک کے ماحولیات میں انتہا درجے کا بحران آیا ہوا ہے۔'' انھوں نے مزید کہا کہ ''آمدنی اور دولت کی نا برابری ہے۔ سیاسی اصطلاح میں بدعنوان نوکر شاہی اور قیادت اس کی ذمے دار ہے۔ جس کے نتیجے میں امریکا کا متوسط طبقہ بے حال ہو گیا ہے۔'' برنی نے کہا کہ ''دوسرے ممالک کے مقابلے میں امریکا میں زیادہ قیدی جیل میں مقید ہیں، تارکین کی پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔

میں نہیں سمجھتا ہوں کہ سیاسی انتظامیہ ان معاملات کا سامنا کر رہی ہے۔'' سینڈرز نے کہا کہ امریکا کی تاریخ میں مختصراً یہ لوگ پوری معیشت کو اپنے قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔'' انھوں نے کہا کہ ''ہیلری کلنٹن پرکشش، تجربہ کار، شریف اور باوقار شخصیت ہیں لیکن وہ انتظامیہ یعنی حکمران طبقات کی نمایندہ ہیں۔

ان کے پاس پیسوں کی ریل پیل ہے۔ میں سینیٹ، گورنر، کالیجیٹ اور علاقوں میں نہیں جا سکتا اس لیے کہ میرے پاس اتنی دولت ہے اور نہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی۔'' برنی نے ایک اور خطاب میں کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ مجھے صدر کے طور پر منتخب کرو بلکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ان مسائل کو حل کرو۔ حکومت لاکھوں، کروڑوں لوگوں کی ہوتی ہے نہ کہ ایک فیصد لوگوں کی۔ میں تحریک کی تخلیق کے لیے کوشش کر رہا ہوں۔ اس انتخابی کھلواڑ کا حاکم ایک ہی ہے جو پیسے انڈیل رہا ہے۔ خواہ ڈیموکریٹ ہو یا ری پبلکن، یہ ایک ہی خاندان ہے۔''

''ہم تو ایسے جمہوری سوشلزم کی بات کرتے ہیں جہاں اعلیٰ معیار کی لوگ زندگی گزار سکیں۔ ایسا سماج نہ ہو جہاں تھوڑے سے لوگ تمام مراعات سے لبریز ہوں اور دوسری جانب چار کروڑ ستر لاکھ لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہوں۔

ایک جانب ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ مفت تعلیم فراہم کی جا رہی ہے تو دوسری جانب نجی اسکولوں میں اعلیٰ معیار تعلیم کے نام سے بھاری فیس وصول کی جاتی ہے۔ یہاں کسی بھی عام انسان کو اس کے معیار کے مطابق اجرت یا آمدنی نہیں دی جاتی ہے۔'' برنی نے خطاب میں کہا کہ ''لوگ اس سرمایہ داری کی لوٹ کھسوٹ اور پارٹیوں کی ہیرا پھیری سے تنگ آ چکے ہیں اس لیے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ گزشتہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں 63 فیصد لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالے اور 80 فیصد نوجوانوں نے ووٹ نہیں ڈالے۔ ہمیں آئین میں ترمیم لانی ہو گی کہ 18 سال سے زیادہ عمر کے لوگ ہر صورت میں ووٹ ڈالیں گے۔

جب تک زیادہ میں زیادہ لوگوں کے ووٹ نہیں پڑیں گے اس وقت تک محنت کش طبقہ اور نوجوان میدان میں زیادہ نہیں آئیں گے۔ زیادہ ووٹ پڑنے کا مطلب زیادہ سیاسی شعور میں اضافہ ہو گا، میرے انتخابات میں جیتنے یا ہارنے سے کچھ نہیں ہوتا، عوام کو زیادہ میدان میں آنا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دستور ساز اسمبلی میں یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم ایک کروڑ 30 لاکھ لوگوں کو فوری روزگار، بنیادی سماجی ڈھانچہ، سڑکیں، پل، ریلیں، ایئرپورٹس اور پانی کے نظام میں بہتری لانی ہے۔

ہمارے ملک میں لاکھوں لوگ طویل اوقات کار میں کام کرتے ہیں اس لیے کہ انھیں ملازمت نہیں ملتی۔ ہمیں کم از کم تنخواہ فی گھنٹہ 15 ڈالر کرنی ہو گی۔ ابھی تک دو کروڑ 20 لاکھ لوگوں کو امریکا میں صحت عامہ کی انشورنس نہیں ہے۔ ہمارے ہاں دوائیاں اتنی مہنگی ہیں کہ اسے پانچ میں سے صرف ایک ہی آدمی خرید سکتا ہے۔ ہمارے زیادہ تر بینک دیوالیہ ہونے کی جانب جا رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وال اسٹریٹ ایک جعلی تجارتی ادارہ ہے۔ یہ کل مارگیج کا 35 فیصد خود کرتا ہے۔'' امریکا میں عوام کو تب حقیقی آزادی نصیب ہو گی جب اسلحہ، جنگ، سرحدیں، جائیداد، نجی ملکیت اور طبقات کا خاتمہ کر کے ایک سوشلسٹ سماج کے قیام کے فوراً بعد کمیونسٹ سماج کی جانب پیش قدمی کی جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں