سلام قائد
یہ سچ ہی ہے کہ اس زمین پر انسانوں کے بیچ زر، زمین اور زن ہی فساد کی جڑ بنتے ہیں۔
MIRPUR:
یہ غالباً 1935-34ء کا دورانیہ تھا۔ وہ بڑی مضبوط وسیع حویلی پہلے مسلمان کرنل یار حسن خان کی تھی۔ ریاست کانپور میں کرنل یار حسن خان کے نام سے سب ہی واقف تھے۔ کرنل صاحب نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ جس شخص پر بھروسہ کر کے انھوں نے اپنی صاحبزادی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھما دیا تھا وہ ان کے مرنے کے بعد کس طرح محبتوں کے درمیان نفرتوں کے بیج کو پروئے گا۔
یہ سچ ہی ہے کہ اس زمین پر انسانوں کے بیچ زر، زمین اور زن ہی فساد کی جڑ بنتے ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا وجہ فساد دولت و جائیداد ہی ٹھہری۔ اسلامی قانون کے حوالے سے باپ کی جائیداد میں سے جتنا حصہ بیٹی کے حصے میں آیا اس پر اعتراض اٹھا۔ بھائی کی محبت، ماں کی چاہت اور باپ کی شفقت کچھ بھی یاد نہ رہا اور نفرت نے جھگڑے کی صورت اختیار کر لی، جو تمام حساب کتاب کرنل صاحب نے بھروسہ کر کے جس منشی کو تھمایا تھا وہی اپنی بیوی کے حق کو اس سے بڑھ کر حاصل کرنے پر چڑھاتا رہا، یہاں تک کہ مجبوراً ماں کو اس میدان میں اترنا پڑا۔ ان کا اکلوتا سپوت فضل محمد خان ان تمام چالبازیوں سے ناواقف تھا جب کہ بیٹی اور داماد برابر کی حصہ داری پر بضد تھے یوں ماں نے مجبوراً عدالتی کارروائی کا سہارا لیا۔
اس زمانے میں ایک بیرسٹر محمد علی جناح بہت مشہور تھے۔ یہ وہی محمد علی جناح تھے جن کے بارے مشہور تھا کہ انھوں نے کوئی کیس نہیں ہارا، جنھوں نے اپنی قابلیت اور تجربے سے کئی ریاستیں انگریزوں سے Re-Clear کروائیں اور ان کے درمیان تصفیہ کرا کے حوالے کیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسٹر جناح جس طرح برصغیر کی عدالتوں میں ایک معتبر اور مستند حوالے سے مشہور تھے اتنے ہی وہ برطانیہ کے قانونی اداروں میں اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑ چکے تھے، برطانیہ کی پریوی کونسل میں ان کے مقدمات کی تفصیلات آج بھی ان کی ماہرانہ کارکردگی کا ثبوت ہیں۔
مرحوم کرنل یار حسن خان کی بیوہ مذہبی رجحانات کی باپردہ خاتون تھیں لیکن انھیں اسلامی شریعت میں وراثت کے حوالے سے پوری طرح واقفیت تھی۔ مسٹر جناح ان کی نظر میں ایک ایسے ذمے دار اور قابل بیرسٹر تھے جو ان کی مذہبی روایات کے تحت اس پیچیدہ مقدمے کو بہت اچھی طرح سلجھا سکتے تھے۔
اور محمد علی جناح نے ایسا ہی کیا، ایک بار وہ خاتون جس کے لیے گھر سے باہر قدم رکھنا دشوار تھا اور دیگر مسائل کے تحت ان کے لیے خاص طور پر عدالت ان کی حویلی میں ہی لگائی جاتی، یہ سب جناح کی وجہ سے ہوا۔ تقسیم پاکستان سے قبل ریاست کانپور کا یہ مقدمہ خاصا مشہور ہوا تھا۔ جائیداد کے مقدمات جو عام طور پر دیوانی نوعیت کے خاصے طویل ہوتے ہیں مسٹر جناح نے یہ مقدمہ ایک مسائل میں گِھری طاقتور لیکن اپنے ہی رشتوں میں الجھی ایک مجبور خاتون کے لیے لڑا۔ محمد علی جناح کی پیشہ ورانہ زندگی میں اس قسم کے مقدمات میں دو ہی منظر عام پر آ سکے ہیں۔ مورخین اور ماہرین کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح نے صرف ایک دیوانی نوعیت کا مقدمہ لڑا جب کہ کرنل یار حسن خان کے خاندان کے حوالے سے ان کا مقدمہ عام طور پر نظروں سے اوجھل رہا اس کی کیا وجہ ہے؟ یا اس وقت کسی خاص مقصد کے تحت اسے منظر عام پر نہیں لایا گیا یہ باتیں بعد کی ہیں۔
مسٹر محمد علی جناح جنھیں آج قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے دل سے یاد رکھتی ہے ہمیشہ ہر مرحلے پر اپنے اصولوں کو آگے رکھا، جس طرح انھوں نے ایک حقدار کو اس کا حق دلانے کے لیے جائیداد کا دیوانی مقدمہ لڑا اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی اس زمانے میں وکلا اپنے دلائل باقاعدہ تحریر کر کے کتابی شکل میں برطانیہ کی اعلیٰ عدالت پریوی کونسل میں بھیجتے تھے، گو اس وقت انگریزوں کا قانون چلتا تھا ۔
جہاں وراثت کے حوالے سے مسلمانوں کے قانون سے بالکل مختلف صورت حال تھی لیکن یہ ہمارے قائد کی اہلیت اور کارکردگی کا ثبوت ہے کہ انھوں نے اپنے دلائل سے یہ ثابت کیا کہ اسلامی شریعت کے قانون کے تحت بیٹی اور بیٹے کے لیے وراثت کے کیا حقوق ہیں اور گوروں کی اعلیٰ عدالت پریوی کونسل کو یہ فیصلہ کرنل یار حسن خان کی بیوہ کے حق میں کرنا پڑا۔ جیت حق کی ہوئی۔
یہ الگ بات ہے کہ بعد میں جائیداد کی تقسیم کا کانٹا مخالفین کے دل میں ایسے چبھا کہ انھوں نے اپنی تمام حسد و رقابت کو خون سے رنگ دیا۔ کرنل یار حسن خان مرحوم کے سپوت فضل حسن خان کو ان کے اپنوں نے ہی ایک کرائے کے قاتل سکھ کے ذریعے قتل کروا دیا۔ یہ کیسی آگ تھی کہ جس نے ایک بہن کو اپنے بھائی کے قتل کرنے پر اکسا دیا جس میں اس کا لالچی شوہر پوری طرح شامل تھا۔
فضل حسن خان کم عمری میں ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ لوٹنے والے لوٹ کر لے گئے۔ یہ دنیا ایک عجیب سی عدالت ہے یہاں حق دار ترستے ہیں اور ناجائز کرنے والے مزے اڑاتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ پریوی کونسل سے بھی بہت بڑی اور عظیم ایک ہستی ہے کہ جس کی عدالت میں بال بھی چھپایا نہیں جا سکتا۔
قائداعظم محمد علی جناح کے کردار ان کے پروفیشنل کیریئر اور سیاسی زندگی پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن یہ ایک بہت بڑی سچائی ہے کہ جسے رد نہیں کیا جا سکتا کہ جب اللہ رب العزت کسی خاص مقصد کے لیے اپنے بندوں کا انتخاب کرتے ہیں تو ان میں وہ صفات ابھر کر سامنے آتی ہیں جس سے ان شخصیات کی خوبیوں کا اعتراف خود دنیا کرتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی ذاتی زندگی دکھوں میں گزری تھی لیکن ان کی پروفیشنل اور سیاسی زندگی میں ان کی ذات کے اچھے اور کھرے پن کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
مثلاً کرنل یار حسن خان کی بیوہ کا مقدمہ جس میں قائد اعظم نے ایک عورت کی بے بسی اور ان کی صداقت کو پہلے خود جج کیا اور پھر اس پر کام کیا۔ گویا وہ قدرتی طور پر ایسی صفات کے حامل تھے کہ انھیں سچائی پہلی اسٹیج پر ہی نظر آ جاتی تھی ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ فراڈ، بے ایمانی اور جھوٹے مقدمات کے کیس پر ہاتھ بھی نہیں رکھتے تھے۔
یہ ان کے دل کی سچائی تھی کہ وہ اپنی قوم سے کس قدر مخلص تھے وہ نہایت جدید اعلیٰ درجے کے ملبوسات زیب تن کرتے تھے لیکن وہ نہایت مخلص اور ایماندار مسلمان تھے وہ داڑھی نہیں رکھتے تھے لیکن پھر بھی فادر آف دی نیشن کہلائے۔ ان کی سچائی، اخلاص اور کھرے پن کے ان کے مخالفین بھی معترف تھے۔ امریکی تاریخ دان اسٹینلی والپرٹ نے ان کے لیے کہا تھا کہ ''بہت کم اشخاص ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدلتے ہیں۔ ان سے بھی کم وہ ہیں جو ابھی تک دنیا کے نقشے کو بدل رہے ہیں، بمشکل کوئی ایک ہوتا ہے جو کسی ملک قوم کا تشخص پیدا کرتا ہے۔ محمد علی جناح وہ شخص ہیں جس نے یہ تینوں کام کر دکھائے۔''
قائداعظم کے بارے میں ہم سب نے بہت کچھ پڑھا، دیکھا اور سنا پر جو کسی غیر نے ان کے بارے میں کہا ذرا اس پر غور کریں۔ انڈیا کے ایک سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ لارڈ پیتھک لارنس نے ان کے بارے میں کہا "Gandhi died by the hands of an assassin, Jinnah died by his devotion to Pakistan"
اردو میں اس کی تشریح کی نجانے کیوں ہمت نہیں ہو رہی؟