اسکول اور اسپورٹس
مجھے وہاں ’’فلیٹ اسکول‘‘ دیکھ کر اپنے گورنمنٹ ہائی اسکول اور مرے کالج سیالکوٹ کی یاد آ گئی
KARACHI:
ایک رہائشی فلیٹ میں دوسری منزل سے کتابیں اور بیگ پکڑے بہت سے بچوں کو اتر کر دوڑتے دیکھا تو میں نے وہاں کھڑے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ بچے کہاں سے آ رہے ہیں۔
بتایا گیا کہ طالبانِ علم چھٹی ہونے پر اسکول سے برآمد ہو رہے ہیں۔ تجسس دور کرنے کے لیے میں بچہ اسکول داخل کرانے کا بہانہ کر کے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا گیا، معلومات حاصل کر کے قید خانے سے نکلا اور سڑک پر آ کر بچوں کو جاتے اور ادھر ادھر کی گلیوں کی طرف مڑتے ہوئے دیکھنے لگا۔ پرچون کے سودے کی طرز پر چلتی اس طرح کی دکانوں یعنی درسگاہوں کی تعداد ان گنت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی ترجیہات عوام کی ضروریات نہیں ہیں۔
مجھے وہاں ''فلیٹ اسکول'' دیکھ کر اپنے گورنمنٹ ہائی اسکول اور مرے کالج سیالکوٹ کی یاد آ گئی جن کے اپنے کھیل کے گراؤنڈ تھے جہاں صبح کی Prayer پھر اپنے پریڈ پر PT اور ہر ماہ کئی بار ہاکی اور فٹ بال میچ ہوتے تھے اور دونوں درسگاہوں کے قریب ''کانلے پارک'' میں مقامی اسکولوں اور کالجوں کے مابین کرکٹ کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب اسکواش اور ہاکی میں پاکستان سرفہرست ہوتا تھا اور اسپورٹس کی دنیا میں اس کے کھلاڑی ملک کی پہچان تھے۔
اسکواش کے کھیل میں کبھی ہاشم خاں، جہانگیر خاں اور شیر خاں، ہاکی میں صلاح الدین، حسن سردار اور شہناز شیخ جب کہ کرکٹ میں فضل محمود، عمران خان، جاوید میانداد، حنیف محمد اور وسیم اکرم کا طوطی بولتا تھا۔ یوں تو وزارت عظمیٰ کا تیسری بار قلمدان سنبھالنے والے ہمارے نواز شریف بھی کرکٹ کھیلنے کے شوقین ہیں لیکن وہ اپنا امپائر کھڑا کر کے کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ اگر کھلاڑی کرکٹ، سیاست، عدالت بلکہ امارت میں بھی اپنا امپائر کھڑا کر لے تو ہر فیلڈ میں لمبی اننگ کھیلی جا سکتی ہے۔
اسپورٹس میں چونکہ اب ہم صرف کرکٹ کے کھیل ہی میں کامیابیاں حاصل کرنے میں مہارت دکھانے کے قابل رہ گئے ہیں اور ملک کے شہریوں کو بھی اسی میں دلچسپی ہے اس لیے گزشتہ دنوں کئی سال کی منصوبہ بندی کے بعد ملین ڈالرز کی پاکستان سپر لیگ ٹی 20 میں ڈرافٹنگ کی تکمیل ہوئی ہے اور اس سلسلہ میں صوبائی سطح پر ٹیمیں بن گئی ہیں جن کا کھیل دیکھنے کا شوقین حضرات کو دو ماہ بعد موقع ملے گا۔
عمران خان ایک عرصہ سے تجویز دے رہے تھے کہ کرکٹ میں مہارت اور ترقی کے لیے بین الاضلاعی اور صوبائی ٹیمیں بنا کر ان میں مقابلے کرانے کا سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ اچھے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے علاوہ ان کی نشاندہی ہو سکے۔
ہر شہر میں اسکولوں اور کالجوں کے علاوہ اسپورٹس کلبوں کے کھلاڑیوں کے مابین مقابلے کرانے سے صرف کھلاڑیوں ہی کو ابھرنے کا موقع نہیں ملے گا بلکہ تماشائیوں کو بھی کھیل دیکھ کر تفریح اور صحت مند فضا ملے گی۔ ایک یقینی تجربہ ہے کہ کھیلوں کے ذریعے معاشرے میں خوشی آنے سے جرائم میں کمی واقع ہو گی۔ ملک میں ایک کثیرآبادی بے کار ہے جن کے ذہن مصروفیت میں کمی کے باعث شیطانی عادات و حرکات کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔کھیل اور تفریح یوں بھی انسانی جسم وذہن میں تازگی وتوانائی پیدا کر کے مثبت اثرات چھوڑتے ہیں۔
حیرت ہے کہ پالیسی سازوں اور حکمرانوں کی اس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔جن ممالک میں سیر اور تفریح گاہوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے وہاں کے لوگ صحت اور خوشی پانے کے علاوہ ذہنی بالیدگی کے سبب مالی اور علمی ترقی میں بھی ممتاز ہوتے ہیں۔ اسکولوں کالجوں میں درسی کتب کا مطالعہ بنیادی ضرورت ہے لیکن تعلیمی دکانیں ترقی کا زینہ نہیں ہیں اس کے دیگر لازمی لوازمات بھی اشد ضروری ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سرکاری اور پرائیویٹ مدرسوں کے ساتھ لائبریری اور کھیل کا میدان خود مہیا کرے یا ان ہردو کی موجودگی کی شرط پر درس گاہ قائم کرنے کی اجازت دے۔ ایک اہم مسئلہ سلیبس کا ہے۔
اس میں بعض مضامین میں یکسانیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فقہی فساد پنپنے کی گنجائش پر قابو پایا جا سکے اور جو درس گاہیں صرف چند کمروں اور فلیٹوں میں چل رہی ہیں ان کا نوٹس لے کر تعلیم کو صرف کتاب تک محدود کرنے کے رجحان کو ختم کر کے تعلیم کے ساتھ تربیت او رتفریح کو شامل کیا جا سکے۔
وسائل اور تعلیم کی کمی کے سبب لوگوں میں مایوسی کم نظری، غصیلے پن اور عدم برداشت کا پیدا ہونا قابل فہم ہے۔ ایک اچھا کھلاڑی کشادہ دل، خوش مزاج، صحت مند اور اچھا شہری ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اسپورٹس مین اسپرٹ کا مالک ہے جب کہ فلاں آدمی تنگ نظر، سڑیل، معاف نہ کرنے والا اور سنکی ہے۔ اس فرق میں کمی لانے میں لائبریری اور کھیل کا میدان مثبت اور صحت مند رول ادا کرتے ہیں۔
یورپ اور برطانیہ نے طویل باہمی جنگوں اور لکھوکھا انسانوں کو مار اور مروا کر سبق سیکھا کہ ترقی اور بقائے باہمی کے لیے دوستی اور امن ہی واحد ذریعہ ہے۔ یہی سبق ہندوستان کے انتہاپسندوں اور ہمارے جہادیوں کو پڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمسائیگی کے ہوتے ہوئے امن ہی ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے لیکن اگر دوسرا جنگ مسلط کر دے تو ہتھیار پھینک دینا موت اور بزدلی ہے۔
اس طرح کی صورت میں کامیابی تک ڈٹ کر مقابلہ کرنا صائب حل ہے۔ پاکستان میں معیاری اسکول اور کالج قائم کرنا نہایت ضروری ہے اور ان میں تعلیم کے علاوہ اسپورٹس کی سہولت بھی کم اہم نہیں۔ یہاں مجھے ڈیوک آف ولنگٹن کا نپولین کو شکست دینے کے بعد بولا ہوا مشہور فقرہ یاد آتا ہے کہ
The battle of waterloo was won on th playing fields of eton۔
برطانیہ کا اسکول Eton اور کالج Harrow تعلیم کے علاوہ اسپورٹس کے لیے بھی مشہور ہیں۔ یہ وہ قدیمی تعلیمی ادارے ہیں جہاں بہت سے مشاہیر نے تعلیم حاصل کی۔ جواہر لعل نہرو اور سر ونسٹن چرچل Harrow میں پڑھے تھے جب کہ شاعر شیلے، محمد علی جناح پر بنی فلم جناح کے ہیرو کراسٹو فرلی، وزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون اور گلیڈ اسٹون نے Eton میں تعلیم پائی۔ اسی حوالے سے ڈیوک آف ولنگٹن نے واٹرلو میں فتح کے بعد اس کامیابی کو Eton سے منسوب کیا۔ ہمیں بھی ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنا ہوں گے جن سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء اپنے اسکول اور کالج کے حوالے سے یاد کیے جائیں۔